خیبرپختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں آج بھی 32 فیصدیعنی 16 لاکھ سے زائد آبادی کو صاف پانی میسرنہیں جبکہ ملک میں صرف11فیصدآبادی کو پینے کےلئے صاف پانی میں مشکلات کاسامناہے۔
قبائلی اضلاع سے متعلق محکمہ ترقی ومنصوبہ بندی کے دس سالہ رپورٹ کے مطابق قبائلی اضلاع میں انسانی ترقی کے باوجود 96فیصدخواتین گھروں کےلئے ٹیوب ویل،تالابوں،جوہڑاورچشموں سے پانی لاتے ہیں قبائلی اضلاع میں صاف پانی کی سہولت نہ ہونے کے باعث ہیپاٹائٹس،پےچس اوردیگرکئی بیماریاں معمول بن گئی ہیں رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ایف آربنوں اور ایف آرلکی مروت میں 90فیصدآبادی کو صاف پانی کی سہولت میسرنہیں ۔
[pullquote]قبائلی اضلاع میں حکومت نے پانی کی فراہمی کےلئے کیااقدامات اٹھائے ہیں ۔۔؟[/pullquote]
محکمہ ترقی ومنصوبہ بندی کے دس سالہ رپورٹ میں خیبرپختونخواکے ضم شدہ قبائلی اضلاع سے متعلق بتایاگیاہے کہ قبائلی اضلاع میں پانی کابیشترانحصارزیرزمین پانی پرہے لیکن موسمیاتی تغیرکے باعث قبائلی اضلاع میں پانی کی سطح مسلسل کم ہورہی ہے رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ پشاورسے متصل دوقبائلی اضلاع خیبر اور مہمندمیں پانی کی سطح سب سے تیزی سے کم ہورہی ہے اور کسی بھی شخص کو پانی کی سطح تک پہنچنے کےلئے اوسطاًپانچ سوفٹ تک کھدائی کرنی پڑتی ہے قبائلی اضلاع میں پانی کی فراہمی کا دوسرابڑاذریعہ تالاب ،جوہڑ،منی ڈیم اوردیگرکئی ذرائع ہیں رپورٹ کے مطابق صرف چندقبائلی اضلاع کے ہیڈکوارٹرزمیں93فیصد آبادی کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہاتی علاقوں میں 16لاکھ 45ہزارسے زائد آبادی صاف پانی سے محروم ہے ایف آربنوں اورایف آرلکی مروت صاف پانی کے حوالے سے بدترین سہولیات سے دوچار ہے۔
ان علاقوں میں صرف دس فیصدآبادی کوپانی کی سہولت میسر ہے ایف آرکوہاٹ اورایف آرخیبر وہ قبائلی علاقے ہیں جہاں70فیصدآبادی کو پانی کی سہولت فراہم ہے رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ بیشترآبادی پینے اوردیگراستعمال کےلئے گھروں کی بجائے باہرسے پانی لاتی ہے قبائلی اضلاع میں تقریباً23لاکھ آبادی صاف پانی کے حصول کےلئے ایک گھنٹے کی مسافت طے کرتی ہے اس کے علاؤہ بارہ لاکھ کے قریب آبادی ایک گھنٹے سے زائد کی مسافت طے کرتی ہے قبائلی اضلاع میں معمرخواتین کے علاوہ نوجوان لڑکیاں گھروں کو پانی کی فراہمی کےلئے سب سے بڑاذریعہ ہیں عمومی طو رپر کوئی بھی خاتون اپنے گھرکےلئے روزانہ دس سے پندرہ لیٹرتک پانی لاتی ہے رپورٹ کے مطابق باجوڑاورکرم میں دیگراضلاع کی نسبت پانی کی سہولت آسانی سے میسرہے 31.4فیصدقبائلی آبادی اپنے علاقوں میں تالاب یا جوہڑکاپانی استعمال کرتی ہے صرف9فیصدیعنی پانچ لاکھ کے قریب قبائلیوں کو پائپ کے ذریعے پانی کی سہولت میسرہے جبکہ ملک میں30فیصدسے زائد آبادی کوپائپ کے ذریعے ٹیوب ویلزاورتالاب سے پانی فراہم کیاجاتاہے ۔قبائلی اضلاع میں پانی کی فراہمی کےلئے25فیصدآبادی ہینڈپمپ،23فیصدآبادی کھلے کنویں اورچارفیصدآبادی بندکنوﺅں کااستعمال کرتی ہے۔
[pullquote]قبائلی خواتین ہی پانی کیوں لاتی ہیں۔۔؟[/pullquote]
محکمہ ترقی ومنصوبہ بندی کی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ قبائلی اضلاع میں 93فیصدیعنی 19لاکھ کے قریب خواتین اپنے گھروں کےلئے تالابوں ،جوہڑ،کنوﺅں یا ٹیوب ویلزسے پانی لاتی ہیں اس متعلق کئی مقامی افرادسے رابطہ کیاگیا توبتایاگیاکہ عمومی طورپر مقامی روایات کی وجہ سے مردحضرات پانی لانے کو براسمجھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے ان کے وقارمیں کمی آتی ہے لیکن پانی کاحصول تولازمی ہے اس کے لئے خواتین آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے پانی لانے کےلئے کمربستہ ہوجاتی ہیں ایک قبائلی ملک نے طورخم کے قریب اول خان کلے کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ وہاں کی خواتین تین سے چارکلومیٹرکے فاصلے پر مقامی چشمے سے پانی لاتی ہیں لیکن اس پانی کےلئے کم ازکم دوکلومیٹر ڈھلوان پرچڑھناپڑتاہے ان کی اس حالت کو اگردیکھاجائے تویقین جانیئے مقامی مردوں کی نسبت ان خواتین کی اپنی خاندانوں کے ساتھ محبت کی وجہ سے انکی عزت میں مزیداضافہ ہوتاہے تعلیم میں اضافے کے باعث خواتین کے پانی لانے کی شرح میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اب بیشترلوگ سولرپینل اورٹینکرزکے ذریعے اپنے علاقوں کوپانی کی سپلائی کرتے ہیں۔