خیبرپختونخوامیں گزشتہ دوسالوں کے دوران بچوں کےساتھ جنسی زیادتی اورتشدد کے 600سے زائد کیسزرجسٹرڈہوئے لیکن کمزور تفتیشی نظام،قانونی سقم،علاقائی رسم ورواج اوردیگرکئی وجوہات کے باعث سزا صرف دو فیصدسے بھی کم یعنی دس افرادکوہوئی ۔بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کیسزمیں مجموعی طور پر دس بچوں کو قتل بھی کیاگیاخیبرپختونخواحکومت نے بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کیسزکے روک تھام اور انہیں تحفظ دینے کےلئے کئی ماہ قبل جوسفارشات مرتب کی تھی بیوروکریسی کے سرخ فیتے اورحکومتی عدم دلچسپی کے باعث وہ سفارشات چائلڈپروٹیکشن ایکٹ 2010ءکی ترامیم کاحصہ نہ بن سکیں۔
بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے ملزمان کی رہائی کی شرح کیاہے۔۔؟
محکمہ داخلہ سے رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کے ذریعے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق یکم جنوری2019ءسے 31دسمبر2019ءتک بچوں کےساتھ جنسی زیادتی اور تشددکے 294واقعات رپورٹ ہوئے اس سال گرفتاراڑھائی سوسے زائدملزمان میں سے صرف پانچ افراد کو سزا اور20افرادکوبری کیاگیا اسی طرح رواں سال بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے 260سے زائدکیسزرجسٹرڈہوئے جن میں سے صرف پانچ افراد کو سزاسنائی گئی اور19افرادکوبری کیاگیاامسال 311ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی مجموعی طور پردوسالوں کے دوران 605کیسزمیں صرف دس افرادکوسزاسنائی گئی صوبائی وزیرقانون سلطان محمد خان نے خیبرپختونخوااسمبلی میں گزشتہ ہفتے اپوزیشن کے نکتہ اعتراض کاجواب دیتے ہوئے کہاتھاکہ بچوں اورخواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسزمیں سزاکی شرح تین فیصدسے بھی کم ہے جس کی سب سے بڑی وجہ قانونی سقم اور علاقائی رسم ورواج ہے.
انہوں نے بچوں کے حوالے سے جنسی زیادتی کے کیسزمیں ملزمان کی رہائی کو تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ قانونی سقم اورعلاقائی رسم ورواج اکثرملزمان کی رہائی کاسبب بنتے ہیں سلطان محمدخان نے بعدمیں میڈیاکوبتایاکہ عمومی طور پر جنسی زیادتی کے کیسزرجسٹرڈہوجاتے ہیں ، لیکن جرگوں ،پنچائیت کے ذریعے متاثرہ خاندان کو دباﺅمیں لاکر صلح کی جاتی ہے اورملزمان عدالتوں سے رہاہوجاتے ہیں انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کیسزکے ملزمان کوسخت سزائیں دینے کےلئے جوسفارشات مرتب کی تھیں وہ عنقریب صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کی جائیں گی واضح رہے کہ ان سفارشات کے متعلق سپیکرصوبائی اسمبلی مشتاق غنی نے کئی مرتبہ شدید تحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ کئی مہینے کی عرق ریزی کے بعد چائلڈپروٹیکشن ایکٹ 2010ءمیں سخت سزاﺅں سے متعلق جو سفارشات مرتب کی تھیں اسے کیوں ایوان میں پیش نہیں کیاجارہاہے ؟
بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کہاں رونماہورہے ہیں۔۔؟
رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا کے پانچ اضلاع پشاور،نوشہرہ،مردان،مانسہرہ اورڈیرہ اسماعیل خان میں بچوں کےساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے 62فیصدسے زائدکیسزرونماہورہے ہیں، قبائلی اضلاع میں تاحال بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کیسزکورپورٹ نہیں کیاگیالیکن وہاں پربھی کیسزکوجرگوں کے ذریعے تھانے پہنچنے سے پہلے حل کردئیے جاتے ہیں پشاورمیں سب سے زیادہ کیسز رونماہوتے ہیں اور ان واقعات میں بیشترملزمان کو گرفتاربھی کیاجاتاہے لیکن ملزمان کے اثرورسوخ اورجرگوں کے ذریعے رقوم دینے کے بعدعدالتوں کی چند پیشیوں میں ہی صلح کرلیتے ہیں، پشاورکے علاقہ پہاڑی پورہ میں 11سالہ بچے کےساتھ جنسی زیادتی کے تشددکے واقعے کے متعلق ایک مقامی پولیس افسرنے بتایاکہ جرگے کے ذریعے ملزمان نے 13لاکھ روپے کے ذریعے متاثرہ خاندان کوکیس واپس لینے پرمجبورکیااسی طرح رواں سال فروری کے مہینے میں مردان کے علاقے تخت بھائی میں نوسالہ بچے کےساتھ جنسی زیادتی کے تشددکے واقعے کے بعد جب کیس رجسٹرڈہوا تو ملزمان نے مقامی عمائدین کے ذریعے دباﺅڈال کر متاثرہ خاندان کودوکنال کاگھراور دس لاکھ روپے حوالے کردئے اسی طرح ملزمان نے جرگے کویقین دہانی کرائی کہ وہ اپناگھربھی چھوڑدینگے۔
سرکاری اعدادوشمارکے مطابق کےساتھ جنسی زیادتی کے68فیصد کیسزمردبچوں کےساتھ جب کہ 32فیصدکیسزبچیوں کےساتھ رپورٹ ہوئے ہیں پولیس ریکارڈ کے مطابق 60فیصدسے زائدکیسزمیں ملزمان کی عمریں 18سال سے کم ہیں۔سماجی کارکن عمران ٹکرکہتے ہیں ، بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کیسزمیں ریاست کو خودفریق بنناچاہئے ایسے جرگوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے جہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے بعد صلح کی جاتی ہے انہوں نے بتایاکہ اسوقت خیبرپختونخوامیں بچوں کے تحفظ کےلئے پشاور،مردان ،مہمند اورایبٹ آبادمیں خصوصی عدالتیں بھی قائم ہیں جہاں بچوں کے کیسزکوترجیحی بنیادوں پرحل کیاجاتاہے۔