بڑی محنت، بڑی کوشش، بڑا نتیجہ

دو ہزار بیس میں چین کی جی ڈی پی کی کل مالیت ایک سو ٹریلین یوان سے تجاوز کر گئی ہے۔ دو ہزار بیس میں چین پہلی مرتبہ امریکہ سے سبقت لے کر یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔

۲۰۲۰ کئی لحاظ سے انتہائی غیر معمولی سال رہا اور اس سال کے دوران دنیا کے اکثر ممالک کووڈ۔۱۹ اور اس پیدا ہونے والے مسائل کے سامنے بے بس نظر آئے ۔ ماسوائے چند ملکوں کے جنہوں نے اس دوران بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور نہ صرف کووڈ۔۱۹ پر قابو پایا بلکہ معمولات زندگی کو بھی بحال کیا ۔ نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا نے اس دوران مثالی کارکردگی کا مظاہر کیا اور پوری دنیا سے دا د سمیٹی۔ تاہم ان ممالک کی کم آبادی کی وجہ سے وبا پر قابو پانا نسبتا آسان رہا ۔ لیکن ایسا ملک جو آبادہ میں دنیا میں سب سے بڑا ہے اور جو وسیع وعریض رقبے پر واقع ہے اور جس کی سرحدیں متعدد ممالک سے ملتی ہیں اور جس کی بندرگاہیں تجارت میں مصروف رہتی ہیں اور جس کی ٹرینیں یورپ تک تجارتی سامان لاتی لے جاتی ہیں اور جو بین الاقوامی سطح پر ایک فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کررہاہے اس کے لیے نہ صرف اچھی بلکہ انتہائی عمدہ کاردگی کا مظاہرہ کرنا یقینا کسی معجزے سے کم نہیں۔

جی ہاں یہ ملک ہے چین اور چین کی اس خوبی کو اہل چین چینی معجزہ کہتے ہیں۔

چینی معجزہ محض بیانات اور وعدے نہیں بلکہ ٹھوس حقائق اور اعداد وشمار ہیں۔

حال ہی میں چین کے اعدادوشمار کے قومی بیورو نےعوامی جمہوریہ چین کی 2020 کے معاشی اور سماجی ترقی کے اعدادوشمار جاری کیے ۔ اعدادوشمار کے مطابق، دو ہزار بیس میں چین میں جی ڈی پی کی کل مالیت ایک سو ایک اعشاریہ پانچ ٹریلین یوان تک جاپہنچی ہے۔ جس میں پچھلے سال کے مقابلے میں دو اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہوا ۔ دو ہزار بیس میں 11.86 ملین نئی شہری ملازمتیں پیدا کی گئیں ۔ ۲۰۲۰ کے آخر میں چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 3216.5 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئے جس میں پچھلے سال کے آخر مقابلے میں 108.6 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا۔ چین میں 2020 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے حقیقی استعمال کی مالیت 1000 ارب یوان تک جاپہنچی جس میں پچھلے سال کے مقابلے میں 6.2 فیصد کا اضافہ ہوا۔فی کس جی ڈی پی مسلسل دو سرے سال دس ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ رہی ۔ چین کی وزارت صنعت و اطلاعات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دو ہزار بیس میں چین کی صنعتی پیداوار کی اضافی مالیت 31.31 ٹریلین یوان تک جا پہنچی ۔ چین مسلسل گیارہ سال سے دنیا میں سب سے بڑا مینوفیکچرنگ ملک ہے۔ چین ایک زبردست صارف ملک بھی ہے اور یہاں کی منڈی نہ صرف محرک ہے بلکہ بہترین صارف بھی ۔ 2020 میں چین کے شہریوں کی فی کس ڈسپوزایبل آمدنی 27540 یوان رہی ، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 3.8 فیصد زیادہ ہے جن میں شہروں میں رہنے والوں کی اوسط فی کس ڈسپوزایبل آمدنی 40378 یوان رہی ، جس میں 2.9 فیصد کا اضافہ ہوا، جبکہ دیہات میں رہنے والوں کی فی کس ڈسپوزایبل آمدنی 15204 یوان رہی ، جس میں 5.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

یہ زبردست اعدادوشمار راتوں رات حاصل نہیں ہوئے اس کے پیچھے سخت محنت، چینی حکومت کی شاندار قیادت ، چینی عوام کا تعاون اور چینی دانش کارفرما رہی اور یہ پھل مختلف مشکلات اور چیلنجوں کو مواقع میں تبدیل کرنے سے حاصل کیا گیا ۔ چینی معیشت میں اضافے کی الین وجہ وباپر قابو پانا ہے۔اس کے علاوہ سرکاری پالیسی ساز ی میں عوام کو کو مرکزی اہمیت دینا بھی کافی اہم امر ہے۔ چین نے انسدادوبا اور اقتصادی بحالی میں توازن برقرار رکھتے ہوئے روزگار کی فراہمی اور عوامی زندگی کو بہتر بنانے کو ترجیح دی۔میکرو پالیسی کے تحت مارکیٹ انٹیٹیز کی مدد اور درمیانے و چھوٹے صنعتی و کاروباری اداروں کی مالی اعانت میں اضافہ کیا ۔ دو ہزار بیس میں چین پہلی مرتبہ امریکہ سے سبقت لے کر یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا اور امریکہ کا بھی دوبارہ سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔ چین نے اپنی بین الاقوامی پالیسی میں تعاون اور باہمی حترام کو برقرار رکھتے ہوئے مشترکہ مفاد اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کے تحت تعاون اور جیت جیت پر مبنی تعلقات کو فروغ دیا ۔

چینی معیشت کی بحالی اور ترقی صرف چین کے لیے خوش بختی نہیں لائی ہے بلکہ دنیا کو بھی بہت کچھ دے رہی ہے ۔ چین نے عالمی صنعتی و سپلائی چین کے استحکام میں اہم کردار ادا کیاہے اور چین کے کھلے پن سے عالمی صنعتی و کاروباری اداروں کو آگے بڑھنے کے وسیع مواقع مل رہے ہیں عالمی اقتصادی صورتحال میں غیریقینی بدستور موجود ہے،تاہم چینی معیشت کی طویل مدتی بہتری کے رجحاں میں تبدیلی نہیں آئی۔ جو عالمی برادری اور عالمگیر خوشحالی کے لیے امید کا باعث ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے