منگو کوچوان کی سادہ لوحی اور حسن ناصر کی ملاقات

سعادت حسن منٹو کے لافانی افسانے ’نیا قانون‘ کے مرکزی کردار منگو کوچوان کو تعارف کی ضرورت نہیں۔ ایک سادھارن محنت کش ہے جس نے ہندوستان میں ’نیا قانون‘ نافذ ہونے کی خبر کو اپنی دبی ہوئی خواہشوں کا رنگ دے لیا ہے۔ ذاتی تجربے سے منگو پر انکشاف ہوتا ہے کہ نئے قانون میں کچھ بھی نیا نہیں۔ وہی فیض صاحب کا من موہنا انکسار، ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی۔ دلچسپ بات یہ کہ ایک صدی ہونے کو آئی لیکن ہمارے دیس میں اب بھی سادہ لوحی کے بیوپار کو زوال نہیں۔ کبھی کسی جج صاحب کا دامن تھام لیتے ہیں اور کبھی کسی حسن کے دیوتا سے سیاسی معجزوں کی مراد مانگتے ہیں۔ کبھی کسی مقامی کاہن سے کتاب عشق کی تفسیر پوچھتے ہیں اور کبھی کسی طالع آزما کے راہوار کی بلائیں لیتے ہیں۔ ان دنوں بھی کچھ ایسا ہی موسم ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ سد سکندری کھوکھلی ہو چکی، بس ایک اور دھکا دینا ہو گا۔

ارے نہیں! ہماری دیوار گریہ کے معمار یاجوج ماجوج کی ذریات ہیں۔ دیدہ سے کہیں زیادہ نادیدہ۔ تسلیم کہ ضمنی انتخابات میں حکومت کی ساکھ کو زک پہنچی۔ الیکشن کمیشن یوں جھرجھری لے کر اٹھا جیسے مراد آباد میں مردہ زندہ ہوتا ہے۔ ایوانِ بالا کے طریقہ انتخاب کے بارے میں صدارتی ریفرنس پر عدالتِ عظمیٰ نے رائے دے دی۔ تین مارچ کو دارالحکومت کے انتخابی معرکے میں کچھ اونچ نیچ کے آثار ہیں۔ تاہم پرویز رشید کے معاملے میں آنکھ والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ درویش آپ کو شیکسپیئر کے کھیل جولیس سیزر میں پہلے ایکٹ کا دوسرا منظر یاد دلانا پسند کرے گا۔ Beware the ides of March۔

یوں تو ہماری سات عشروں پر پھیلی تاریخ کا ہر مہینہ نوحے کا مضمون ہے لیکن ابتدائی مارچ کی کونپلیں تو خاص طور سے زہر آسا رہی ہیں۔ کچھ مثالیں دیکھیے۔ 8 مارچ 1951 کو راولپنڈی سازش کا انکشاف ہوا۔ یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ سازش گرفتار ہونے والوں نے کی تھی یا انکشاف کرنے والوں نے۔ 6 مارچ 1953 کو لاہور میں مارشل لا لگا۔ یکم مارچ 1954 کو وزیراعظم بوگرہ نے مژدہ سنایا کہ امریکہ کی فوجی امداد سے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا جائے گا۔ دو مارچ 1956 کو اسکندر مرزا نے پاکستان کے پہلے اجل دیدہ دستور پر دستخط کیے۔ 4 مارچ 1958 کو کراچی کی مہاجر بستی ناظم آباد پر نامعلوم افراد کے حملے میں 15 افراد کھیت رہے۔ مارچ 1960 میں ایبڈو کے تحت سیاستدانوں کی نااہلیاں شروع ہوئیں۔ یکم مارچ 1962 کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے قوم کو آئین عطا فرمایا۔ مارچ 1964 ءمیں نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کر کے صحافت کو گھر ڈال لیا گیا۔ مارچ 1965 میں کنونشن لیگ نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ مارچ 1969ءمیں یحییٰ خان نے مارشل لا لگایا۔ 25 مارچ 1971 ءکو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع ہوئی۔ یہ قائد اعظم کے پاکستان کا اختتام تھا۔ اس سے بعد کے 50برس آپ کے سامنے ہیں۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔

ہماری تاریخ کا جاری مرحلہ 29 فروری 2008 کو شروع ہوا۔ دو خستہ جان نیم جمہوری حکومتوں کی اذیت 25 جولائی 2018 کو ختم ہوئی۔ آپ تو جانتے ہیں، عمران خان اسے دس سالہ تاریک عہد کہتے ہیں۔ وجہ کچھ وہ خود ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ 2008 میں انہوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا اور 2013 کے انتخابات کے بارے میں ان کے قدیمی رفیق جہانگیر ترین فرما چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی اکثریت کہیں تیسرے یا چوتھے نمبر پر بھی نہیں تھی۔ اگست 2018 میں خان صاحب کے جلوس شاہی کے بعد رونما ہونے والے چند حقائق قابل توجہ ہیں۔ ملکی ترقی کی شرح نمو 5.8 فیصد سے گر کر منفی ہو گئی۔ حکمران جماعت اپنا کوئی انتخابی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ حزب اختلاف سے مخاصمت کے نتیجے میں پارلیمنٹ مفلوج ہو گئی۔ پیداواری سرگرمیاں رک گئیں اور عام آدمی کے لئے بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ ناقابل برداشت ہو گیا۔ شفافیت کا نعرہ لگانے والی جماعت نے احتساب کو سیاسی انتقام کی شکل دے دی اور خود گوناگوں اسکینڈلز میں گھر گئی۔ ملک کی خارجہ ساکھ پاتال میں پہنچ گئی۔

ملک کے اندر سیاست، صحافت اور رائے عامہ کی طنابیں کھینچنا کچھ مشکل نہیں۔ ہم اس ہنر میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ دو نکات البتہ ایسے ہیں، جہاں فیصلہ سازی کے مچان پر بیٹھ کر شکار نہیں کیا جا سکتا۔ (الف) معیشت کی حرکیات کسی صاحب بہادر کے اشارۂ ابرو کی تابع نہیں۔ ہماری معیشت ان اصولوں ہی پر چل سکتی ہے جو باقی دنیا پر منطبق ہوتے ہیں۔ (ب) ملک کے اندر کوئی بھی بیانیہ مسلط کیا جا سکتا ہے لیکن بین الاقوامی معاملات میں کسی لق و دق جزیرے کی صورت اختیار کرنا ممکن نہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کو سیاسی بندوبست، معاشی تعمیر اور خارجہ تعلقات کے بنیادی مفروضات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

لمحہ موجود کے بظاہر خوش کن اشارے سمجھنا ہوں تو سبط حسن کی کتاب ’سخن در سخن‘ اٹھائیے ۔ حسن ناصر کی شہادت کے موضوع پر فیض کی نظم ’ملاقات مری‘ کا تذکرہ ہے۔ سبطے بھائی لکھتے ہیں، پنجاب کی جیلوں میں سیاسی قیدی سے کوئی ملنے آتا ہے تو پہرہ دار آواز دیتا ہے کہ چلیے آپ کی ’ملاقات‘ آئی ہے۔ حسن ناصر کی والدہ اور بہن بھائی تو ہزاروں میل دور حیدر آباد دکن میں تھے۔ اس کی کال کوٹھڑی کا دروازہ تو تفتیشی افسروں ہی کے لئے کھلتا تھا۔ یہ ملاقات زندگی اور موت کے دوراہے پر ہوتی تھی۔ ایک راستہ فوری رہائی اور انعام و اکرام کی جانب جاتا تھا اور دوسرا مقتل کی طرف۔ لاہور قلعہ میں پوچھ گچھ کے دوران ایک افسر بدمزاج ہوتا ہے اور دوسرا بظاہر نرم دل۔ ایک تشدد سے کام لیتا ہے، دوسرا ہمدردی جتاتا ہے۔ فیض صاحب نے یہ صورت حال یوں بیان کی۔

ایک ہتھیلی پہ حنا، ایک ہتھیلی پہ لہو

اک نظر زہر لئے، ایک نظر میں جادو

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے