پاکستانی سیاست کی کہانی:انڈوں جوتوں اور سیاہی کی زبانی

جب آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا؟

سیاسی جماعتوں کےاختلافات کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے لیکن یہی اختلاف جب اک دوجےکے گر یبا نو ں تک پہنچ جائے تو جمہوری حسن گہناجاتا ہے۔لاہور میں وزیراعظم عمران خان کےمعاون خصوصی شہباز گل پر ن لیگی کا ر کنوںنے گندے انڈے پھینکے اور سیاہی سے ان کا منہ کالا کر دیا ۔ اس دوران دونوں طرف کے کارکن دست و گریباں بھی ہوئے اور خوب نعرے بازی کی گئی۔ آپ کو یاد ہوگا چند روز قبل چھ مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر عدم برداشت کی ایک انتہائی قابل مذمت روایتـ‘ تاریخ کا حصہ بنی۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ن لیگی خاتون رہنما مریم اورنگزیب کے ساتھ پی ٹی آئی اراکین نےہلڑ بازی اور بدتمیزی کی‘ـ انہیں پی ٹی آئی کے ایک ٹائیگر نے’لات‘ـبھی ماری(غالباًجس کا خیال تھا کہ یہ باتوں سے نہیں مانیں گی)۔یہی نہیں احسن اقبال پر جوتے سے حملہ کیا گیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک کودھکے دئیے گئے‘ـ تھپڑ مارے گئے اور گریبان نوچے گئے۔

پھول کھلنے کے اس مہینے (مارچ)میں سیاستدان اور سیاسی ورکرز گل(گ پر پیش ہے) کھلاتے رہے ۔ جی ہاں! ایوان زیریں میں ممبران ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ادھر سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی اور پی پی پی اراکین کے درمیان دھینگا مشتی کے مناظربھی آپ کے اذہان پہ نقش ہوں گے۔
قابل اجمیری نے کہا تھا:
وقت کرتا ہے‘پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

شہباز گل کا منہ کالا ‘ـہونا نیا واقعہ نہیں۔ 2007 میں سپریم کورٹ کے احاطہ میں سینئر وکیل احمد رضا قصوری کے چہرے پر سیاہ رنگ کا اسپرے کر دیاگیا تھا(وہ سوچتے ہوں گے’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘ـ)۔ نومبر 2007 میں اسلامی جمعیت کے طلباء نے جامعہ پنجاب میں عمران خان سے انتہائی ناروا سلوک کیا تھا۔ لاہور کی سڑکوں پہ کئی روز’کپتان‘ـ سے بدسلوکی کے خلاف طلباء نے مظاہرے کئے۔جماعت اسلامی کے دفاتر بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ لیکن عمران خان نے اس وقت طلبہ کے غصے کا ساتھ نہ دیا اور مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی معذرت کو قبول کرلیا تھا۔

آٹھ اپریل 2008 کو صوبہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم پر کراچی میں سندھ اسمبلی کی عمارت میں جوتے سے وار کیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کی ایک خاتون کارکن نے ارباب غلام رحیم کے چہرے پر انتہائی قریب سے جوتا ’جڑ‘ دیا تھا ۔ ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں عویٰ کیا تھا کہ ارباب غلام رحیم کو مارا گیا جوتا 9 لاکھ روپے میں خریدا گیا جبکہ جوتا مارنے والی کو بھی 6 لاکھ روپے نقد دئیے گئے تھے ۔

2011 میں سابق فوجی آمر ‘ـ پرویز مشرف پر لندن میں ایک تقریب کے دوران جوتا پھینکا گیا۔ پرویز مشرف اپنے حامیوں کی تقریب سے ’خطاب آور‘تھے۔ حملہ آور کا جوتا پرویز مشرف کو نہ لگ سکاتاہم سکیورٹی حکام حملہ آور کوجا لگے یعنی حراست میں لے لیا ۔یاد رہے کہ2013میں سندھ ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر بھی ایک وکیل نے پرویز مشرف کی جانب جوتا پھینکا تھا ‘ـجسے سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی’ تحویل‘ـ میں لے لیا تھا۔

24 اپریل 2014کو لاہور میں تقریب کے دوران وزیراعلیٰ شہباز شریف پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ جنوبی ایشیائی مزدور کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر سندھی ٹی وی چینل ’آواز‘ ـکے صحافی امداد علی نے جوتا پھینکا لیکن شہباز شریف جوتا لگنے سے محفوظ رہے۔صحافی امداد علی نے شہباز شریف کی طرف جوتا اچھالنے کے ساتھ ان دنوں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے صحافی حامد میر کے حق میں ’حامد میر کے قاتلوں کو گرفتار کرو‘ ۔’جاگ صحافی جاگ‘ اور ’زندہ ہے صحافی زندہ ہے‘ جیسے نعرے بھی لگائے۔پولیس نے امداد علی کو حراست میں لے لیا تاہم انہیں ہوٹل کے مرکزی دروازے پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ امداد علی کا کہنا تھاانہوں نے جو کچھ کیا اپنے ضمیر کے مطابق کیا اور وہ حامد میر پر ہونے والے حملے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا چاہتے تھے۔امداد علی کا کہنا تھاجس ملک میں حامد میر جیسے صحافی کی جان محفوظ نہیں وہاں میرےجیسے صحافی کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن جذبات میں آ کرجوتا پھینک دیاـ‘ جس کا انہیں افسوس ہے۔ ان کے مطابق انہیں گرفتار اور تشدد نہ کرنے پر وہ پولیس (شہباز شریف)کے شکر گزار بھی تھے۔

10 مارچ 2018ء کو سیالکوٹ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف پر’اچھی خاصی‘سیاہی پھینکی گئی ۔ سیا ہی پھینکنے والے شخص کا کہنا تھا میرا نام فیض رسول ہے اور میرا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ۔میں ن لیگ کا ووٹر ہوںلیکن ان لوگوں نے ختم نبوتﷺ کے قانون میں ترمیم کی ہے۔اس لئے میں نے خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی ہے۔ یہ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھنے کے قابل نہیں۔ اگلے ہی روز 11 مارچ 2018 کوسابق وزیراعظم نواز شریف کوجامعہ نعیمیہ لاہور میں دوران خطاب جوتا مارا گیا ۔ حملہ آور نے ختم نبوتﷺ کے قانون میں تبدیلی کا الزام مسلم لیگ ن کی حکومت پر لگایا تھا ۔

13 مارچ 2018ء کوپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گجرات میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ کسی نے جوتا اچھال دیا جو ان کے برابر میں کھڑے علیم خان کے سینے پر جا لگا۔جب یہ واقعہ پیش آیا عمران خان اور علیم خان گاڑی کی چھت پر کھڑے تھے۔ جیسے ہی علیم خان کو جوتا لگا تو سکیورٹی کا ایک اہلکار علیم خان کے سامنے آ گیا تھا(پہلے خدا جانے اس کا دھیان کدھر تھا)۔

7 مئی 2018 کو سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر نارووال میں ہونے والے قاتلانہ حملہ آور نے اپنا تعلق مذہبی تنظیم تحریک لبیک سے بتایا تھاتاہم تحریک لبیک نے حملہ آور سے اعلانِ لاتعلقی کیا تھا۔احسن اقبال پر اس وقت فائرنگ کی گئی تھی جب وہ اپنے انتخابی حلقے میں مسیحی برادری کی ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔ گولی دائیں بازو پر لگی جو کہنی کی ہڈی توڑتی ہوئی ان کے پیٹ میں پیوست ہو گئی تھی۔

شہباز گل کے ساتھ لاہور میں پیش آئےافسوس ناک واقعہ کے بعدسوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر دلچسپ و عجیب تبصرے کئے گئے۔اکثر ناقابل اشاعت ہیں تاہم سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہناتھا ’شہباز گل پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ مذمت سے آگے کا ہے‘ـ۔تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ مذمت سے آگے کیا ہے؟

شہباز گل نے لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں گندے انڈے اور سیاہی پھینکے جانے کے فوری بعد(حالانکہ انہوں نے اپنا چیک بعد میں کروایا اور آنکھ پر پٹی والی تصویر بھی جاری کروائی) میڈیا سے’خطاب‘ـمیں کہا وہ اگلی پریس کانفرنس مریم نواز کے گھر کے باہر کریں گے اور اگر سیاہی پھینکی گئی تو وہیں سے پانی لے کر منہ دھوئیں گے۔شہباز گل کا کہنا تھامیں جٹ خاندان کا بیٹا ہوں اور ان کے سات دیہات کے 32 ہزار ووٹر آ گئے تو آپ کی سلطنت گر جائے گی(شاید ان کا اشارہ جاتی عمرا‘ـرائیونڈ کی جانب تھا)۔

ایسے بہت سےواقعات پر فوری رد عمل دینے والےتجزیہ کاروں کا کہنا ہے شہباز گل پر انڈے اور سیاہی پھینکے جانے کا واقعہ ان کے اپنے ہی اک ٹویٹ کا شاخسانہ ہے۔یاد رہے کہ چھ مارچ کو مریم اورنگزیب اور دیگر لیگی رہنماؤں پر حملے کے بعد شہباز گل نے ایک ٹویٹ کیا تھا:

’’ڈی چوک میں آنے والے ورکرز سے ملاقات کی۔انہیں وزیراعظم کا پیغام پہنچایا۔اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ہمارا ورکر ہی اصل میں ہماری طاقت ہے ‘ـ‘۔(رہے نام اللہ کا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے