پشاورمیں حوالات کے اندر مبینہ طور پر خودکشی کرنےوالے کمسن شاہ زیب کیس میں پولیس سے ایسی کئی غلطیاں ہوئی ہیں جوقانون کے زمرے میں بڑے جرائم میں شمارہوتے ہیں پولیس نے اس کو ایف آئی آرکے بغیرحوالات میں کیوں بندرکھا،شاہ زیب کے والدین کو غلط اطلاع کیوں دی گئی ،شاہ زیب کاڈاکٹرسے کیوں معائنہ نہیں کیاگیااورشاہ زیب کی کم عمری کے باوجود اس پرتشددکرنےوالوں کےخلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اس کے علاوہ شاہ زیب کی ویڈیو زباربار سوشل میڈیامیں شیئرکی گئیں اس جرم میں اگرچہ دوپولیس اہلکاروں کوگرفتارکیاگیاہے لیکن مجموعی طو رپر جونیائل جسٹس سسٹم ایکٹ2018ءکے کسی بھی دفعہ کو شاہ زیب کیس میں فالونہیں کیاگیاہے شاہ زیب کے حوالات خودکشی کیس میں پولیس سے مندرجہ ذیل بڑی کوتاہیاں ہوئی ہیں جوجونیائل سسٹم ایکٹ کے تحت پولیس کے خلاف مضبوط کیس بن سکتاہے۔
1 ۔ اتوار14مارچ کو14سالہ شاہ زیب کو پولیس نے حوالات میں کیوں بند کیا ؟قانون کے تحت پولیس کسی بھی کم عمر بچے کو ایف آئی آرکے بغیرپولیس سٹیشن میں نہیں رکھ سکتی شاہ زیب کے خلاف کسی بھی قسم کی ایف آئی آرکااندراج نہیں ہواتھا لیکن اسکے باوجود اسے حوالات میں بندرکھاگیا مقامی تاجروں کے ساتھ لڑائی کے بعد پولیس نے اسے پشاورصدرسے گرفتارکرنے کے بعدغربی پولیس سٹیشن کے حوالات میں پابندسلاسل کیاتھا۔
2۔پولیس کسی بھی کمسن بچے کےخلاف ایف آئی آردرج ہونے کی صورت میں اسے آبزرویشن ہاﺅس میں رکھے گاغربی پولیس سٹیشن نے ایف آئی آرکے بغیر جب شاہ زیب کوگرفتارکیا توچودہ سال عمرہونے کے باوجوداسے عام قیدیوں کے حوالات میں رکھا قانون کی روسے یہ بہت بڑاجرم ہے 18سال سے کم عمرکے بچوں کو ایسی کسی بھی جگہ پر نہیں رکھاجاسکتا جہاں اس کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیاجائے۔
3۔ چودہ سالہ شاہ زیب کو جب تین بج کر40منٹ پر پولیس نے مقامی مارکیٹ سے تاجروں کےساتھ لڑائی کے بعد گرفتارکیاتو اس متعلق محکمہ داخلہ کے پروبیشن افیسر کو کسی قسم کی اطلاع نہیں دی گئی کمسن ملزم اگرگرفتارہوتاہے توقانون کی رو سے فوری طور پر پروبیشن افیسر کو اطلاع دی جاتی ہے اور پروبیشن افیسر اس کی سوشل انوسٹی گیشن رپورٹ بناتاہے اوریہ رپورٹ مکمل طور پر سیل ہونے کے بعد عدالت کے سامنے پیش کیاجاتاہے ۔
4۔ شاہ زیب کے مرنے کے بعد جب اسے غسل دیاجارہاتھا تو اس کے قریبی رشتہ داروں کاکہناہے کہ شاہ زیب کو بہت زیادہ تشدد کانشانہ بنایاگیاتھا پولیس کے ایک اعلیٰ افسرکے مطابق شاہ زیب کو پولیس سٹیشن میں کسی قسم تشددکانشانہ نہیں بنایاگیامقامی تاجروں کے ساتھ لڑائی کے دوران شاہ زیب پرتشدد کیاگیاتھا پولیس کو اگراس قسم کاکوئی بھی کمسن ملزم حوالے کیاجاتاہے تو پولیس اسے تھانے لے جانے سے قبل ڈاکٹرسے اس کا معائنہ کرائے گی شاہ زیب کیس میں پولیس نے گرفتاری کے بعدکسی ڈاکٹرسے رابطہ نہیں کیا۔
5۔ کمسن ملزمان کی تصویر شیئرکرنا خلاف قانون ہے اگرکسی بچے کی ویڈیویاتصویرشیئرکی جائے تو اس کے خلاف ایف آئی آرکااندراج کرکے قانون کی رو سے تین سال تک قید کی سزاسنائی جاسکتی ہے شاہ زیب کی خودکشی کے بعد تصویریں شیئرکی گئیں اور اس کے بعد ویڈیو کو واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا پر شیئر کیاگیا ۔
6۔ شدید عوامی دباﺅکے نتیجے میں شاہ زیب کے مبینہ خودکشی کے بعد جب پولیس نے اپنے پیٹی بندبھائیوں کے خلاف ایف آئی آرکااندراج کیا اوراس کے نتیجے میں پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او اور محرر کو تحویل میں لیاگیا تو حیران کن امریہ ہے کہ درج کردہ ایف آئی آرمیں کسی قسم بھی پولیس اہلکار کا نام شامل نہیں کیاگیاہے۔
7۔ خیبرپختونخواپولیس نے شدید عوامی دباﺅکوزائل کرنے کےلئے شاہ زیب کی خودکشی والی ویڈیوسرکاری طور پر جاری کردی اگرچہ اس کے نتیجے میں پولیس پر عوام کا دباﺅکافی حد تک کم ہوگیا لیکن کسی بھی بچے کی خودکشی کی ویڈیوسرکاری سطح پر جاری کرناجونیائل جسٹس سسٹم ایکٹ2018کی شدیدخلاف ورزی ہے۔
8۔ پولیس جب بھی کسی بھی ملزم کو گرفتارکرنے کے بعد حوالات میں رکھتی ہے تو وہاں ایک سپاہی کو نگرانی کےلئے ڈیوٹی سونپی جاتی ہے شاہ زیب کو خلاف قانون عام حوالات میں بندکیاگیااس کے بعد اس حوالات کی نگرانی بھی نہیں کی گئی پہلے اس نے پھندابنایا اور پھروہاں پر خودکشی کی۔
9۔ قانون کی رو سے چھوٹے بڑے یاسنگین نوعیت کے جرم میں بچے کوضمانت دی جاسکتی ہے اس کو پھربھی تشددکانشانہ نہیں بنایاجاسکت اور اسے فوری طو رپر عدالت میں پیش کیاجائے گا شاہ زیب کیس میں مقامی تاجروں کے ساتھ لڑائی کے باوجود اسے حوالات میں رکھاگیا اوراس کے والد کو بتایاگیاکہ آپ کا بیٹا موٹرسائیکل دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے گرفتارکیاپولیس نے یہاں غلط بیانی سے کام لیا۔
10۔ کسی بھی کمسن ملزم کو قانون کی روسے ہتھکڑی نہیں پہنائی جاسکتی مقامی تاجروں کاکہناہے کہ شاہ زیب کو پشاورصدرسے گرفتارکرنے کے بعد اسے ہتھکڑیاں پہنائی گئیں ۔