جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ "democracy” کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے منتقل ہوکر آیا ہے۔ یونانی زبان میں “demo” عوام کو اور “cracy” حاکمیت کو کہتے ہیں۔ عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے۔
جمہوریت کی اصطلاحی تعریف بایں الفاظ کی گئی ہے: "حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے”۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ: "جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں”۔
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے: "goverment of the people,by the people,for the people” یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر۔
جمہوریت کی جامع تعریف میں خود علمائے سیاست کا بڑا اختلاف ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نا کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔
جمہوریت کا سراغ سب سے پہلے ہندوستان میں ملتا ہے۔ سو برس قبل مسیح یعنی گوتم بدھ کی پیدائش سے قبل ہندوستان میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں جنہیں "جن پد” کہا جاتا تھا۔ یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے لیکن وہاں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود تھا۔ سادہ اس معنی میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں وہ شہری ریاست کہلاتی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک شہر ایک مستقل حکومت ہوتا تھا، دوسرا شہر دوسری حکومت اور تیسرا شہر تیسری حکومت۔ شہر بھی بڑے نہیں ہوتے تھے۔ یونان کا سب سے بڑا شہر ایتھنز تھا جس کی آبادی زیادہ سے زیادہ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی۔
لہذا وہاں جمہوریت کا تصور یہ تھا کہ بادشاہ خاص خاص اور بڑے فیصلوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ساری آبادی کو اکٹھا کر لیتا اوریہ اسی جگہ ممکن ہے جہاں چھوٹا سا ملک اور مختصر سی آبادی ہو۔ چنانچہ جو بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں مثلاً روم کی سلطنت تو وہاں یہ صورت ممکن نہیں تھی۔ چنانچہ وہاں جمہوریت کا تصور اس حد تک محدود ہو گیا کہ بادشاہ اپنے مشورے کے لیے کوئی کونسل یا مجلس شوری بنا لیتا تھا۔ اس کا نتیجہ رفتہ رفتہ یہ نکلا کہ جمہوریت کا حقیقی تصور (یعنی عوام کو پالیسی سازی میں حصہ دار بنایا جائے) عملاً مفقود ہوتا گیا اور اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت نے لے لی۔ یوں چھوٹی چھوٹی بادشاہت کے قیام کے بعد جمہوریت کا تصور ناپید ہو گیا۔
چوں کہ مطلق العنان حکومت میں تمام اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے، اس لیے مونٹیسکو نے اس کو لوگوں کے نقصان اور ظلم کا باعث قرار دیا اور یہ کہا کہ ریاست کے اختیارات تین قسم کے ہوتے ہیں لہذا تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے میں مرتکز نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہونے چاہئیں۔ چنانچہ قانون سازی کا اختیار رکھنے والے ادارے کو مقننہ کہا جاتا ہے اور جمہوریت میں یہ اختیار پارلیمنٹ یا اسمبلی کو حاصل ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملک کے نظم ونسق کا اختیار جس ادارہ کو حاصل ہوتا ہے اسے انتظامیہ یا عاملہ کہا جاتا ہے جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر مملکت اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارہ کا نام "عدلیہ” ہے جو ملک کی عدالتوں کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔ اسی وقت سے جمہوریت کا یہ نظام جاری ہے۔ 9 ستمبر 2013ء کے ”Borgen Magazine” کے مطابق دنیا بھر میں جمہوری ممالک کی تعداد 123 ہے۔
ماضی میں مذکورہ تینوں قسم کے اختیارات ایک شخص یا ایک جہت میں مرکوز رہتے تھے۔ وہی قانون بناتے وہی لاگو کرتے اور وہی تنازعات کا تصفیہ کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر انتظامیہ کوئی گڑبڑ کرے تو اس کے خلاف فریاد بھی اسی کے پاس لے جانی پڑتی تھی۔
مونٹیسکو نے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تجویز دی کہ حکومت کے تینوں اعمال الگ الگ اداروں کے پاس ہونے چاہیے اور ان میں سے ہر ایک کو خود مختار ہونا چاہیے یعنی کوئی ادارہ دوسرے کے دباؤ میں نہ ہو۔ مقننہ قانون بنائے، اس کو نافذ انتظامیہ کرے اور عدلیہ خود مختار ہونی چاہیے، تاکہ اگر کسی کو مقننہ یا انتظامیہ سے کوئی شکایت ہے تو وہ عدلیہ کے پاس جائے اور عدلیہ اس کو بلا خوف رفع کرے، انصاف کی بالا دستی قائم ہو اور ہر شخص کو اس کا حق ملے۔