مکمل تحریر : امنِ عالم کا خواب، امریکن ڈیموکریٹس کا امتحان

ناچیز کی لگی بندھی رائے ہے کہ ’’بین الاقوامی تعلقات کی سائنس میں، عالمی و علاقائی سیاست میں امریکی کردار اور اس (امریکی) کی داخلی سیاست کی تفریق کو مکمل نہ سمجھنے والے کو ’’ورلڈ پیس اینڈ سیکورٹی اسکالر‘‘ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ عالمی اور خطوں کی سیاست میں ملکوں کے امن و سلامتی کے حوالے سے دنیا بھر کے ممالک کی نظر امریکی انتخابی نتائج پر اتنی ہی لگی رہتی ہے، جتنی انہیں (ہر ملک کو) عالمی اور خطے کے امن، خصوصاً اپنی سلامتی کی فکر ہوتی ہے۔

قارئین کرام!غور فرمائیں کہ چالیس سالہ عالمی جنگ کا حتمی اور منطقی انجام سوویت ایمپائر اور دنیا میں روسی کشور کشائی کے دبدبے کے خاتمے کی شکل میں نکلا۔ اس کا دوسرا بڑا نتیجہ امریکی تاریخ کا یہ سنہری موقع تھا کہ وہ (واشنگٹن) دنیا بھر کا ممکن حد تک قابل قبول تنہا لیڈر بن جائے۔ یہاں ’’قابل قبول‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جسے دنیا بھر کی حکومتیں اور عالمی معاشرہ ذہن و قلب سے برتر اور حقیقی عالمی غیر متنازعہ اور تنہا (دنیاوی،سیاسی ) طاقت تسلیم کرلے۔ اس کے لئے امریکہ کو اپنی ’’امریکی‘‘ عینک اتار کر خود کو ایک مکمل ذمے دار اور منصف عالمی طاقت ثابت کرنا تھا ۔ اس کا بنیادی تقاضہ تھا کہ وہ ہر خطے میں اپنے جاندار اور سرگرم حلیفوں کے تعاون و اشتراک سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل عملداری اور اس عالمی تنظیم کے فیصلوں پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں ختم کرتا۔ یوں آج عالمی اور علاقائی امن کے لئے دیرینہ مستقل خطرات امن و آشتی میں تبدیل ہو کر انسانیت کی حقیقی جلا کا ذریعہ بن کر دنیا کو امن و آشتی کا حقیقی گہوارہ بنا دیتے۔ اب آج کی سلگتی بھڑکتی دنیا میں تو یہ سب خواب معلوم ہوتا ہے، لیکن وہ جو تعبیر نکلنے کے تمام تر مواقع کے باوجود چکنا چورہوگیا۔ وسیع پیمانے پر تحقیق کی جائے تو یہ تحقیقی مفروضہ قدرتی علوم کے تحقیقی نتائج کی حد تک درست ثابت ہوگا کہ امریکہ عالمی امن و سلامتی کا عظیم اور یقینی موقع گنوا بیٹھا کہ اس وقت جب سوویت یونین کےخاتمے پر امریکہ اور دنیا کو یہ عظیم موقع نصیب ہوا، امریکی ری پبلکن حکمرانوں اور ان کی رہنمائی کرنے والےتھنک ٹینکس پر ’’فکر امن عالم‘‘ کے برعکس امریکی فتح اورامریکہ کو دنیا کا ناخدا بنانے کا غلبہ ہوگیا۔ یہ امریکی ری پبلکنز کی کلاسیکل سوچ و اپروچ کا عکاس تھا، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اسی اپروچ کو اختیار کرکے ری پبلکن ریگن ایڈمنسٹریشن نے جمی کارٹر کے مقابلے میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کرکے اقتدار میں آتے ہی افغانستان پر سوویت جارحیت ختم کرنے کے لئے جارحانہ انداز میں فوکس کیا، جس میں اس کا پہلا سرگرم اور تادم فاتح پارٹنر پاکستان بنا۔

اس سے قبل ڈیموکریٹس کی اختتام پذیر کارٹر ایڈمنسٹریشن کی ’’عدم مداخلت‘‘ کی پالیسی کا فائدہ اٹھا کر ایرانی انقلابی، مشرق وسطیٰ میں سب سے اہم امریکی حلیف (ایران) میں اسلامی انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ فالو اپ میں افغانستان کی امریکہ نواز بنتی دائود حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں افغان کمیونسٹوں کا ’’انقلاب ثور‘‘ برپا کردیا گیا تھا۔ امریکی اثر و رسوخ خلیج فارس میں غرق ہو چکا تھا۔ تہران میں امریکی سفارتخانے کا پورا عملہ ہی یرغمال بناکر انقلابی امریکہ سے اپنی شرائط منوا رہے تھے۔ یہاں تک تجزیے ہو رہے تھے کہ اگر کارٹر ایڈمنسٹریشن ایران کی جانب روایتی امریکی پالیسی ختم نہ کرتی تو شاہ ایران کی مزاحمتی طاقت انقلابیوں کے مقابل ہوتی اور جتنی جلدی اور زیادہ امریکی اثر خطے سے ختم ہوا، وہ ایسے نہ ہوتا اور اس کی کوئی اور ہی شکل بنتی۔ اس سب کو بہت حد تک ریگن ایڈمنسٹریشن نے افغانستان سے سوویت انخلا ممکن بنانے میں کامیابی سے کمتر کیا، ساتھ ہی سوویت یونین کے خاتمے کی عظیم فتح حاصل کی۔ پوسٹ کولڈوار پیریڈ میں فتح کے نشے میں چور امریکی ری پبلکنز ڈی ٹریک ہوگئے اور عالمی امن و سلامتی کے تقاضوں اور سازگار حالات کے برعکس، اپنے ہی عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کو منوانے اور چلانے کے چکر میں پڑ گئے۔ وہ عالم اسلام جو ایٹ لارج جہاد افغانستان میں سرگرم امریکی پارٹنر بنا، اس کے چند حکومت مخالف گروپس کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھ کر یا سیاسی طور پر بنا کر ایک سے بڑھ کر ایک غلط پالیسی اور ناقابل قبول فیصلہ سازی کی راہ پر چل پڑا۔ اس طرح امریکہ نے خود کو ممکنہ حد تک قابل قبول بنانے کی بجائے خود ہی متنازعہ بنانا شروع کردیا۔ اتنا کہ کتنی ہی بار یورپین یونین کی بیزاری دنیا کو ’’پھر وہ ٹوٹ گئی‘‘ صاف نظر آئی ۔ پاکستان جیسے موثر ترین اور آزمودہ ڈیفنس پارٹنر کو مسلسل دبائو میں رکھ کر خود ہی مشکوک بنا لیا، وہ پھر بھی امریکی پالیسی کے برعکس ایٹمی طاقت بن گیا۔ افغانستان میں خود کو طویل الجھا کر بھاری نقصان اٹھا چکا ہے۔ حاصل کچھ نہ ہوا۔ جتنا الجھا اس نے اب محفوظ انخلا کو ہی امریکی ہدف بنا دیا۔ جتنا جائز اثر افغانستان میں امریکہ کا بنتا تھا اور ہے وہ بھی قائم رہنا محال ہو رہا ہے ۔

وسیع تباہی پھیلانے والے اسلحے کے ذخائر کی ’’غلط اطلاعات‘‘ پر ری پبلکنزبش ایڈمنسٹریشن نے عراق میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت اور جیتے جاگتے ملک میں جو تباہی مچائی، اس سے امریکہ کو کیا حاصل ہوا؟ مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے عوام پر اس سب کے کیا اثرات پڑے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر اقوام متحدہ کے تنازعات پر امریکی ری پبلکنز خصوصاً اور ڈیمو کریٹس نے بھی جو اپروچ اختیار کی، امریکی ٹھنک ٹینکس کے لئے چیلنج ہے کہ وہ اس کے نتائج کا آڈٹ کرکے آئندہ امریکی حکومتوں کی رہنمائی کے لئے پہلے اپنی اصلاح کریں۔ عالمی اور خطوں کی سیاست کے ان تمام امریکی کھیلوں نے امریکہ کو جس انداز میں اور جتنا شدت سے (مہلک حد تک) تقسیم کردیا اس کا سب کچھ الیکشن 20 میں عود کر دنیا کے سامنے آگیا۔ اس سے قبل امریکی مرکز مالیات پر امریکی غربا کے لاکھوں کے دھرنے نے ’’آکو پائی وال اسٹریٹ موومنٹ‘‘ کی شکل میں امریکہ کی داخلی بگڑتی عوام اقتصادی حیثیت کا پول کھول دیا۔ کیا صرف طاقتور اعلیٰ عسکری صلاحیتوں کے حامل امریکی بحری بیڑوں کی جگہ جگہ اور کھلے سمندروں میں موجودگی اور بھارت جیسے متنازعہ اہلیت کے حامل عسکری اتحادی اور جاپان جیسے جنگ بیزار کو جنگی اتحادی بناکر، امریکہ عالمی امن و سلامتی تو کیا اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کے حصول کے مشن جاری رکھ کر دنیا کو تو چھوڑیں اپنے لئے کچھ بہتر کرسکتا ہے؟ اس بڑے سوال کا عین درست جواب تلاش کرنا، پھر بمطابق پالیسی اور فیصلہ سازی ڈیمو کریٹک بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

قارئین کرام! ’’آئینِ نو‘‘ کے زیر نظر موضوع کی پہلی قسط میں واضح کیا گیا کہ کس طرح امریکہ نے اپنے عالمی حریفِ اول، سوویت یونین سے 45سالہ سرد جنگ (1947-91)کے اختتام، افغانستان سے روسی افواج کے انخلا اور سوویت ایمپائر کی تحلیل کی شکل میں اپنی عظیم اور حتمی کامیابی کے باوجود، خود کو ممکنہ حد تک قابلِ قبول تنہا عالمی طاقت بنانے کا تاریخی موقع گنوا دیا۔ یہ ہی نہیں خود مزید متنازع اور داخلی عدم استحکام میں مبتلا ہونے کی راہ پر چل پڑا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ سرد جنگ کا خاتمہ اور عظیم امریکی فتح، کلاسیکل امریکن ریپبلکنز کی سوویت مخالف اور دنیا میں امریکی بالادستی کی روایتی اپروچ میں شدت اور بمطابق عملی اقدامات سے ہی ممکن ہوئی لیکن عجب ہوا کہ جب امریکہ کو دنیا کی غیرمتنازع واقعی تنہا عالمی طاقت اور عالمی امن کا سچا علمبردار بنانے کا آسان تر اور آئیڈیل ماحول پیدا ہوا تو فتح کے نشے میں چور امریکن ری پبلکن حکمران دنیا بھر میں اپنا ہی دبدبہ اور عالمی نظام قائم کرنے کی الت میں مبتلا ہو گئے۔معاون مشیروں اور تھنک ٹینکس کی Cold Intellectual Calculationsاسی طرح غلط ثابت ہوئیں جس طرح کریمیلن کے اندازے افغانستان پر براہ راست جارحیت کے عالمی خصوصاً، افغان عوام امریکہ اور پاکستانی ردعمل بارے۔ یوں الٹا امریکہ مزید متنازع ہونے اور داخلی عدم استحکام کی راہ پر چل پڑا جس میں بہت کچھ حقیقی امریکی مطلوب مفادات کے خلاف ہوتا گیا، اور اس شدت اور یقین سے کہ جو ڈیموکریٹس حکومتیں آئیں بھی انہیں ری پبلکنز کی مجموعی اپروچ، پالیسیوں اور اقدامات سے اختلاف کے باوجود ان کے فالو اپ میں جانا پڑا کہ سیاسی ابلاغ سے امریکی عوام کو سرشار کر دیا گیا تھا۔ اس سب کے منفی اور دور رس نتائج ٹرمپ دور اور ان الیکشن 20کے داخلی مہلک ماحول کی صورت میں عود کر پوری دنیا پر آشکار ہوئے۔ ثابت یہ ہی ہوا کہ سرد جنگ کے آخری مرحلے میں ری پبلکنز کا کردار اور اپروچ تو امریکہ اور بہت حد تک عالمی ضروریات و مفادات کے مطابق تھی،لیکن سوویت یونین کی فکر سے آزاد ہونے کے بعد اسے عالمی بنتے حالات کے مطابق بننا نہیں آیا۔ بلاشبہ سرد جنگ میں ری پبلکن حکومتوں نے ڈیموکریٹس کی نسبت سوویت دبدبے کو اپنے دبدبے سے دبا کر رکھا،جبکہ ڈیموکریٹس نے بھی امریکہ کے عالمی جمہوری طاقت اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار کے تشخص اور امیج کو بچانے اور بڑھانے میں برابر کا کردار ادا کیا، لیکن دلچسپ (اور المناک زیادہ )جدید امریکی تاریخ یہ ہی بنی اور بن رہی ہے کہ فتح عظیم (روسی کشو کشائی کا خاتمہ ) کے بعد ری پبلیکنز کو امریکہ سنبھالنا آیا نہ وہ کامیاب فاتح کے طور دنیا کو حالات اور مواقع کے مطابق مینج کر سکے۔اب ٹرمپ کی شدید مزاحمت کے بعد امریکہ میں ایک اور ڈیموکریٹ حکومت اقتدار میں آئی ہے تو وہ ایک عظیم امتحان سے دوچار ہے ۔

ثابت شدہ حقیقت یہ ہی ہے کہ عالمی امن اور اقتصادی استحکام کے لئے بنے عالمی رجحانات اور محرکات نے جس مطلوب پیراڈئم شفٹنگ( عالمگیر تبدیلی ) کا عمل منطقی انداز میں شروع کیا تھا اسے بڑھانے، حلیفوں کے اشتراک سے عالمی معاشرے کی فلاح اور امن کی متلاشی دنیا کے خواب کی بنتی تعبیر کے عمل کو روک کر ’’مرزایار‘‘ بننے کی ہوس میں خود اور پوری دنیا کو شدید مشکلات میں غرق کر دیا۔آج خود بھی پہاڑ وں جیسے چیلنجز میں گھرے امریکہ کے کرتے دھرتوں کو عالمی وبا سے ویران ہوئی دنیا میں بھی ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ نافذکرنے کے لئے سونی گلیاں محلے بھی نہیں مل رہے ۔بہت کچھ جو عالمی سطح پر امریکہ کا ہی مانا جاتا تھا شیئرڈ ہوگیا اور ہو رہا ہے، یقیناً امریکہ بڑے خساروں سے دوچار ہوا، اور ہوتا جا رہا ہے ۔آئیں!برسوں سے پکتی امریکی دیگ سے چاول کا ایک دانہ نکال کر چکھتے ہیں ۔

امریکہ کی برائون یونیورسٹی کے وائس انسٹی ٹیوٹ اور بوسٹن یونیورسٹی کے پارڈی سنٹر کے مشترکہ ’’کاسٹ آف وار پروجیکٹ‘‘ کی گزشتہ روز جاری ہونے والی رپورٹ کے امریکہ کی افغانستان میں جاری 20سالہ عسکری موجودگی بمعہ نیٹو اتحادی کے بھاری بھر اخراجات کے اذیت ناک نتائج ملاحظہ کریں۔رپورٹ کے مطابق 20برس کے دوران افغانستان کی اس جنگ میں 2لاکھ 41ہزار افراد ہلاک ہوئے ان میں ان ہلاکتوں میں 71ہزار 344معصوم شہری، دو ہزار 442امریکی فوجی، 78ہزار 314افغان سیکورٹی اہلکار اور 84ہزار 191مخالفین کی ہلاکتیں شامل ہیں ۔یقیناً یہ وہ ڈیٹا ہے جو افغان امریکی ذرائع ہی حاصل کر سکے ۔جبکہ مزاحمتی جنگجوئوں کے دعوے اس سے کہیں زیادہ بتائے جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق جنگی اخراجات کا ساڑھے 22کھرب ڈالر ہوئے ۔اس جنگ کے فرنٹ لائن پارٹنر، پاکستان پر جو اثرات مرتب ہوئے اس کو ہمیشہ اتنا ہی نظرانداز کیا گیا جتنا بھاری جانی، مالی اور رک جانے والی سرمایہ کاری کا نقصان ہوا ۔پاکستان پر دوغلہ ہونے، عدم تعاون، مشکوک ہونے کے الزامات اور طعنے ساتھ ساتھ بالائی سطح کی انتظامیہ سے لگتے رہے جو اب تین ساڑھے تین سال سے دہشت گردی کے خلاف نتیجہ خیز کردار کرنے کی تعریف و تحسین میں تبدیل ہو چکے ہیں۔صدر جوبائیڈن سے زیادہ بہتر امریکہ میں کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان نے ہر دو افغان جنگوں میں امریکہ کے ساتھ کتنا اور کیسا کردار ادا کیا ۔کس طرح امریکہ اور نیٹو کی عسکری موجودگی میں افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف منظم بھارتی، افغانی دہشت گردی ہوتی رہی ہے، ہنوز جاری ہے ۔ٹرمپ کے پہلے الیکشن میں مقابل صدارتی امیدوار اور اوبامہ ایڈمنسٹریشن میں سیکرٹری اسٹیٹ ہیلری کلنٹن نے دو مرتبہ اعتراف کیا شاید بالائی سطح اور قانون سازی کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری طرح پاکستان کے بھی کچھ قومی مفادات ہیں۔لیکن اس کا کوئی اثر ڈیموکریٹک اوبامہ حکومت پر ہوا تھا،اور ٹرمپ پر تو کیا ہونا تھا ہر دو حکومتوں کی مکمل ثابت شدہ کئی غلط اقدامات کا تو اعتراف بھی بالائی سطح پر ہوا، کا ہی شاخسانہ ہے کہ اب امریکہ تنہا عالمی طاقت نہیں رہا ملٹری نہ اقتصادی، صورتحال بہت واضح ہے۔ ٹرمپ ،مودی یاہو تکڈم سے مشرق وسطیٰ،جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیائی خطے کا جو پرآشوب نقشہ بنا وہ دنیا میں بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری اقدار اور امن مخالف غالب ایجنڈے میں تبدیلی لانے کے دعوئوں نے ہی نصف امریکی آبادی کے لئے سحر انگیز ٹرمپ قیادت کے مقابل جوبائیڈن کو اقتدار میں پہنچایا وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، افغانستان سے طے پائے امریکہ، طالبان امن معاہدے ، ایران سے اوبامہ انتظامیہ کے معاہدے ،ڈیل اف سنچری پر کیا کرتے ہیں۔ امریکہ کے کردار اورعالمی امیج اور پوزیشن کا انحصار اسی پر ہے کہ موجود بابائے ڈیموکریٹ اپنے انتخابی وعدوں کے دنیا میں امن اور اسی حوالے سے امریکہ داخلی استحکام کے امتحان پر کتنے پورا کرتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے