مرض پیچیدہ ہے پر لاعلاج نہیں

شعیب سڈل جنہوں نے پولیس سروس میں اچھی نوکری کی ہے کو حال ہی میں ایک کام سونپا گیا کہ موجودہ نصاب میں کیا اصلاح لائی جائے تاکہ اقلیتوں کے تحفظات دور ہو سکیں۔ اقلیتوں کی طرف سے یہ مؤقف سامنے آیا کہ نصاب کے بہت سے مضامین میں اسلامی تعلیمات کسی نہ کسی حوالے سے درج ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسی تعلیمات کا اطلاق اُن پہ نہیں ہونا چاہئے۔ شعیب سڈل نے رپورٹ تیار کی جس میں یہ تجویز دی گئی کہ اسلامی تعلیمات کو اسلامیات کے مضمون تک محدود رکھا جائے اور دیگر مضامین مثلاً انگریزی یا تاریخ سے انہیں نکال دیا جائے۔ اس تجویز کا آنا تھا کہ رائے عامہ کے کچھ حصوں کی طرف سے ایک طوفان برپا ہو گیا۔ گورنر پنجاب نے اب کہا ہے کہ ایسی کسی تجویز پہ عمل درآمد نہیں ہو گا۔

شعیب سڈل کی غلطی یہ تھی کہ وہ بھول گئے کہ وہ کس معاشرے میں رہتے ہیں اور ایسی تجویز وہ کس کو دے رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اُن کی تجویز کو وزن دیا جاتا لیکن پاکستان کے حالات مختلف ہیں۔ ہمارے انداز اور ہماری بنیادی سوچ دیگر معاشروں کی اکثریت سے یکسر مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں کئی باتوں کا تذکرہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں لازمی نہیں کہ بات منطقی ہو تو اُس پہ بحث ہو سکے یا اُسے مان لیا جائے۔ بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے کی جو اَپروچ ہے اُس کا دلیل یا منطق سے بس واجبی سا تعلق ہے۔ شعیب سڈل یہ بات بھول گئے حالانکہ زمانہ دیکھ چکے ہیں اور اس لحاظ سے ہمارے معاشرے کی رجحانات سے انہیں بخوبی آگاہ ہونا چاہئے۔

اِس تناظر میں یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ اُن کی تجویز کو رد کیا گیا ہے۔ عجوبہ تو تب ہوتا کہ تجویز مان لی جاتی اور کوئی طوفان برپا نہ ہوتا۔ ایسے نقطہ نظر کے لئے دلیل تو دی جا سکتی ہے کہ اسلامی تعلیمات اسلامیات کے مضمون کے دائرہِ کار میں رہیں‘ لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں ایسا کہنا ناممکن ہے۔ ایسی بات ماننے کو یہاں کوئی تیار نہ ہو گا۔ چھوٹی چھوٹی بات پہ یہاں پہ صرف تکرار نہیں بلکہ ہنگامہ ہو جاتا ہے اور ہمارے تصورات کے مطابق یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ انگریزی جیسے مضمون سے اسلامی تعلیمات کو ہٹایا جائے‘ لہٰذا جو ہوا ٹھیک ہوا۔ نصاب جیسا تھا ویسے ہی رہے گا۔

بہرحال اِس نکتے کو چھوڑیئے۔ نصاب میں اسلامی تعلیمات کو ایک طرف رکھئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ وسیع تر تناظر میں ہمارا علمی معیار اِتنا گر کیوں گیا ہے؟ انگریزوں نے اور جو بھی کیا وہ ایک اچھا تعلیمی نظام چھوڑ کے گئے تھے۔ شروع کے سالوں میں ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا معیار بہت اونچا ہوا کرتا تھا۔ پھر کیا ہو گیا؟ کونسی بیماری ہمارے تعلیمی نظام کو لگ گئی کہ معیار پست سے پست ہوتا گیا؟

یہاں پہ اگر میں اپنا ذکر کر سکوں تو میری پہلے تین سال کی تعلیم ایک عیسائی سکول میں ہوئی… سینٹ ڈینیز (St. Deny’s) جو کہ کشمیر پوائنٹ مری میں اب بھی واقع ہے۔ اُس کے بعد میں لارنس کالج گھوڑا گلی منتقل ہو گیا‘ جہاں سے میں نے 1965ء میں سینئر کیمبرج کا امتحان دیا۔ اُس وقت ہمارے نصاب میں نہ اسلامیات بطور مضمون تھا نہ پاکستان سٹڈیز۔ تاریخ کے مضمون میں ہندوستان کی تاریخ پڑھی۔ نماز ہم گھر سے سیکھ کے آئے تھے۔ سردیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں میں چکوال میں گھر کے قریب جو مسجد تھی وہاں جا کے قرآن کا پڑھنا ہو جاتا تھا۔ لارنس کالج میں مغرب کی نماز باجماعت لازمی ہوا کرتی تھی ۔ اور جمعہ کی نماز بھی ۔ تاریخ کے مضمون میں اسلام کا ذکر تاریخی حوالوں سے جہاں آتا وہ ہم پڑھتے لیکن جیسا عرض کیا اسلامیات بطور مضمون ہمارے نصاب کا حصہ نہ تھا۔ اِس سے کیا ہماری مسلمانی میں کوئی کمی آ گئی؟ یا آج کل کے نصاب کی وجہ سے پاکستان ایک بہتر معاشرہ بن گیا ہے؟ ایسے سوالات غیر متعلق نہیں لیکن پاکستان میں اِن کا ذکر اشارے کنایوں میں تو ہو سکتا ہے لیکن کھل کہ بات کی جائے تو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

ہمارے رویے عجیب ہیں۔ ننانوے نہیں تو اٹھانوے فیصد آبادی یہاں مسلمانوں کی ہے۔ یعنی ایک بات یا ایک موضوع جس پہ کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے وہ پاکستان کے اسلامی وجود کا ہے‘ لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ تفرقہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ مذہب کی بات کی جاتی ہے تو نرمی سے نہیں بلکہ غصے اور بپھرے ہوئے جذبات کے ساتھ۔ کئی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے مذہب کے نام پہ ڈنڈے اُٹھائے۔ طالبان کے ہم خیال لوگوں نے مذہب کے نام پہ بندوقیں اٹھائیں۔ یہ ایک ماحول ہے جو پاکستان میں بن چکا ہے۔ اب ایسے ماحول کو کوئی مسئلہ سمجھے تو یہ درس و تدریس سے جانے والا نہیں۔ یہ ماحول کوٹ کوٹ کے ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ حکومتیں ہوں یا ادارے اُن کو بھی اِس ماحول کا تابع ہونا پڑتا ہے۔ کس کس کی مثالیں دی جائیں، متعدد بار دیکھ چکے ہیں کہ بھڑکے ہوئے جذبات کے سامنے حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں۔ معاشرہ ایسا بن چکا ہے کہ بات بات پہ اپنے سے ہی الجھ پڑتا ہے۔ دنیا کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے ہوں گے لیکن جذبات کے مقابلوں میں ہم سب سے آگے ہیں۔

جیسے کہا ایسے رویے درس و تدریس سے نہیں جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی اِن رویوں میں کچھ نرمی آسکتی ہے۔ کچھ تو ایسا ہو کہ پاکستان کے بارڈر کھلیں، ہمسایہ ممالک کے ساتھ میل جول بڑھے، کچھ اُن ممالک کے لوگ یہاں آئیں اور کچھ یہاں کے لوگ وہاں جائیں۔ اگر میل جول کی سطح تھوڑی بلند ہو تو اِس سے ذہن کھل سکتے ہیں۔ ذہن جب کھلیں تو پرانے تعصبات پگھلنے لگتے ہیں۔ آج کل تو چلیں یہ کووِڈ کی بیماری ہے۔ اندرون ملک ہی سفر کرنے سے ڈر لگتا ہے، باہر جانا تو دور کی بات ہو گئی ہے۔ لیکن جب اِس بیماری کا خطرہ تھوڑا کم ہو تو امید رکھنی چاہئے کہ پرانے رویوں میں کچھ فرق پڑے گا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ آنا جانا تھوڑا سہل ہو جائے گا۔ ایک تو کم بخت افغانستان کی صورتحال ہے۔ وہاں جو آگ بھڑکی اور جو آتش فشاں پھٹا اُس سے افغانستان نے تو تباہ ہونا ہی تھا لیکن ہماری غلطیوں اور بڑھکوں کی وجہ سے ہم بھی اُس آگ سے بہت حد تک متاثر ہوئے۔ افغانستان میں جلد امن قائم نہیں ہو سکے گا لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ ایسا نہیں ہو گا لیکن کشیدگی میں کمی تو آ سکتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ جلد حل ہونے والا نہیں لگتا لیکن کشمیری بارڈر یا لائن آف کنٹرول نرم ہو سکتے ہیں۔ کارگل سے لیکر جموں تک اگر بارڈر کراسنگ پوائنٹ کھل جائیں تو کشمیر کا مسئلہ حل نہ بھی ہو‘ ماحول میں بہتری آ سکتی ہے۔ اِس میں پاکستان اور ہندوستان کی بھلائی ہے اور اگر میل جول بڑھے تو کشمیریوں کیلئے بھی اچھا ہے۔

ایک اور بات جس کے بغیر پاکستان کی اندرونی صورتحال نارمل یا بہتر نہیں ہو سکتی۔ ضیا دور کے ایک آرڈی نینس اور اُس کی پابندیوں نے پاکستان میں ایک خواہ مخواہ گھٹن کی فضا پیدا کی ہوئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل قصور یہ بنتا ہے کہ وہ اِس قانون کو ختم کر سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ موقع ہاتھ سے جانے دیا۔ کوئی تو آئے جو اِس قانون کو ختم نہ بھی کر سکے لیکن اِس کے اطلاق کو بے معنی بنا دے۔ ایسا شخص قوم کا محسن کہلائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے