مہنگائی تماش بینوں کے نرغے میں ہے

لکھنا تو کافی دن سے چاہ رہی تھی لیکن وقت نہیں مل رہا تھا، اور موضوع ایسا تھا جو سمے کی دھول میں کہیں کھو گیا لیکن کیا کیجئے کہ دل مان کر نہیں دیا اور سوچا آج وقت ملا ھے تو کچھ لکھ دیتی ہوں۔ کچھ اور نا سہی دل کی بھڑاس تو نکل ہی جائے گی۔

چند روز قبل ایک حکومتی مشیر نے ایک سرکاری افسر کو سرعام ڈانٹ دیا۔ بات نا تو نئی ہے نا ہی اس میں حیران کر دینے والے کوئی انکشافات ہوئے۔ لیکن خبرمیں وزن آتا ہے چند بنیادی سوالات سے، کیا، کون، کیوں، کہاں، کب، کیسے؟ سو اس خبرمیں سرخی لگائی "کون” نے، کیوںکہ خبر کا مرکزی کردار دو خواتین تھیں۔ اگر یہی واقعہ دو مردوں کے درمیان پیش آتا تو شاید خبریت میں چسکا لینے والوں کی دلچسپی نا ہوتی۔

اگر ایک خاتون مشیر کسی مرد افسر کو جھاڑ دیتیں تو بھی خبر پر مردانہ انا کچھ پردہ ڈال دیتی۔ اگر مرد مشیر ہوتا اور افسر خاتون کو ایسے لوگوں کے سامنے ڈانٹ دیتا تو یا تو خاتون کوئی معمولی نوعیت کی افسر ہوتی اور خبر بنتی ہی نہیں، یا پھر خواتین کے حقوق والی عوام اس پر سخت رد عمل دیتی۔ کچھ اخلاقی اقدار کے جملہ محافظ بھی ایک دو سوشل میڈیا پوسٹ لگا کر فرض ادا کر دیتے۔

لیکن یہاں خاتون بمقابلہ خاتون تھیں تو ایسا لگا سوشل میڈیا پر تماش بینوں کا مجمع لگ گیا، گویا فلم میں آئٹم سانگ آ گیا ہو۔ ہر ایک نے اس موضوع پر پوسٹ کشائی یقینی بنائی۔ کسی نے وزیر موصوفہ کے اگلے پچھلے سب کلپس نکال کر ثابت کیا وہی ولن نمبر ون ہیں، تو کسی کو افسر محترمہ کے ساتھی سرکاری افسران کی افسر شاہی کا گلہ کرنے کا موقع مل گیا۔ تصاویری ثبوتوں میں ادھر ادھر سے جمع مواد کی خوب تشہیر ہوئی۔ عورتوں کی تصویریں دیکھنا یو بھی ہمارہ معاشرتی فریضہ ہے، خوب ایسی پوسٹیں آگے بڑھائی گیئں، گروپ در گروپ، موبائل فون میں میمز سے سبھی نے لطف اٹھایا۔ مگر اصل رویے پر بات کس نے کی؟

ہم معاشرتی طور پر اتنے ڈرائے دھمکائے گئے ہیں کہ اب دبکے کے بغیر نا تو ہم کوئی بات سنتے مانتے ہیں نا اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں۔ غصہ ناک پے دھرا ہے، جو اپنے سے نیچے والوں پے آرام سے نکالا جاتا ہے اور اوپر والوں سے آنکھیں جھکا کر موصول بھی ہو جاتا ہے۔ غرور بانک پن کا خاصہ تھا کہ زیادتی کا جواب کارکردگی سے دیں گے، نا لائق مغرور کا کام یہ ہے کہ پیٹھ پیچھے پروپگینڈا کریں گے، سوشل میڈیا پر اپنی صفائیاں اور دوسرے کی برائیاں بیان کر کے بدلا لیں گے۔ یا اگر پہنچ ہے تو کسی کو کہہ کر ٹی وی چینل پر انٹرویو نشر کروا دیں گے۔

جس بات سے بات شروع ہوئی تھی، اس پر نا دونوں پارٹیوں نے توجہ دی نا ان کی ہنسی آڑاتی عوام نے دھیان دیا۔
نا مہنگائی تھمی، نا ریٹ کنٹرول ہوئے اور نا ہی دکان پر رکھے پھل سبزی کا معیار بہتر ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے