"بلدیاتی اداروں کی بحالی معمہ بن گئی”

یہ سنسی خیز کہانی 4 مئی 2019 سے شروع ہوتی ہے جب نئی منتخب پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے 2015 کے اواخر میں منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں اور 2013 کے بلدیاتی ایکٹ کو معطل کرکے نیا بلدیاتی ایکٹ نافذ کردیا۔

نئے بلدیاتی ایکٹ میں ضلع کونسل کو ختم کرکے تحصیل کونسلز جبکہ یونین کونسلز ختم کرکے فیلڈ آفس قائم کردیے گئے، جن میں ایڈمنسٹریٹرز کو اختیارات سونپ دیے گئے اور منتخب عوامی نمائندوں کو ان کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اپنے گھروں کو بھیج دیا گیا۔

پورے پنجاب سے 58000 کے لگ بھگ بلدیاتی نمائندے فارغ کردیے گئے جن میں خود پی ٹی آئی کے لوگ بھی شامل تھے۔

معطل ہونے والے نمائیندوں نے احتجاج شروع کردیے مگر ان کی کوئی شناسائی نا ہوسکی۔

ان نمائندوں نے پنجاب حکومت کے اس اقدام کے خلاف پٹیشن دائر کردی۔

بعدازاں اس کیس کو سپریم کورٹ لے جایا گیا جہاں تقریبا دو سال معطل رہنے اور جہد مسلسل کے بعد سپریم کورٹ آف سے بلدیاتی نمائندوں کو انصاف مل گیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے دائر کیے گئے کیس نمبر 48/19 کا فیصلہ بلدیاتی نمائندوں کے حق میں سنا دیا۔

25 مارچ 2021 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے قابل احترام چیف جسٹس صاحب نے حکومت پنجاب کے 4 مئی 2019 کے اقدام کو خلاف آئین قرار دے دیا، بلدیاتی ایکٹ کے سیکشن 3 سے متصادم قرار دے دیا اور پنجاب بھر کے 58000 منتخب نمائندوں کو ان کی پرانی حالت میں بحال کردیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حکم سے پنجاب بھر کے بلدیاتی نمائندوں اور عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مقامی حکومتوں کی بحالی کے خواب دیکھے جانے لگے۔

سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کئی ہفتوں تک اس فیصلے پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، بلدیاتی نمائندوں کو حکومت پنجاب نے کسی قسم کے کوئی اختیارات واپس نہیں کیے اور نا ہی بلدیاتی اداروں کو بلدیاتی ایکٹ 2013 کے مطابق بحال کیا گیا۔

نا فیلڈ آفس ختم کیے گئے اور نا ہی تحصیل کونسلز کو ختم کرکے ضلع کونسل بحال کی گئی۔

نا یونین کونسلز کے چئیرمینوں کا اختیارات واپس کیے گئے اور نا میونسپل کمیٹیوں ان کے دفاتر اور اختیارات واپس ملے۔

کئی ہفتوں بعد بھی جب بلدیاتی نمائندوں کو سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد ہوتا نظر نا آیا تو یہ دوبارہ سپریم کورٹ کے پاس توہین عدالت کی درخواست لے کر پہنچ گئے۔

توہین عدالت کی درخواست پر چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو جا کر اجلاس کریں،وہ اجلاس چاہے آپکو کسی کے گھر نا باہر ہی کہیں کیوں نا کرنا پڑے۔

سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد مختلف ضلع کونسلز اور میٹرو کارپوریشنز نے اپنے اپنے اجلاس منعقد کیے۔

جن میں لاہور میٹرو کارپوریشن، ضلع کونسل قصور، میٹرو کارپوریشن سیالکوٹ، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کونسل ملتان اور ضلع کونسل نارووال قابل ذکر ہیں۔

میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور نے اپنا اجلاس منعقد کیا اور اس میں درج ذیل فیصلے کیے۔

1: میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کے تمام ارکان سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

2: پنجاب حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلدیاتی ایکٹ 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین سے متصادم قرار دے کر معطل کرنے کا حکم دی دیا ہے اس لیے پنجاب حکومت بھی اس کو معطل کرکے بلدیاتی ایکٹ 2013 کو نافذالعمل کرے۔

3: لاہور اور پنجاب کی بلدیاتی حکومتوں کو آئین پاکستان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 164 اے کے تحت منتخب بلدیاتی نمائندوں کے حوالے کیا جائے اور فی الفور سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات تفویض کیے جائیں۔

4: مقامی حکومتوں کے سرکاری سربراہان کو فی الفور ان کے اصل فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے واپس بھیجا جائے۔

5: 25 مارچ 2021 کے بعد میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کی تمام ادائیگیاں اور کنٹریکٹ معطل کیے جائیں۔

6:میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کا بجٹ منظور یا نا منظور کرنے کا قانونی حق منتخب بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہے اگر سال 2021.22 کا بجٹ ایڈمنسٹریٹرز یا پنجاب حکومت کے ذریعے پاس کروایا گیا تو اس غیر قانونی فعل کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔

میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کے اجلاس میں کیے گئے ان فیصلوں کی کاپی سپریم کورٹ آف پاکستان، ڈپٹی کمشنر لاہور اور سیکرٹری بلدیات پنجاب کو بھی بھجوائی گئی۔

ضلع کونسل قصور کے اجلاس میں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا اور مندرجہ ذیل فیصلے کیے گئے۔

1:لوکل گورنمنٹ میں ملازمین کے تقرر و تبادلے اور ترقیاتی کام کروانے کے مجاز نہیں۔

2: تحصیل کونسلز کے اکاؤنٹس سے رقم فی الفور ضلع کونسل کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے اور تحصیل کونسل کے اکاؤنٹس بند کردیے جائیں۔

3: تمام فیلڈ آفس ختم کرکے یونین کونسل کے منتخب نمائندوں کو اختیارات منتقل کرکے عوامی خدمت کا موقع دیا جائے۔

4: ضلع کونسل کے تمام اثاثہ جات ضلع کونسل کر سپرد کردیں۔

ضلع کونسل قصور کے ان متفقہ فیصلوں کی کاپی بھی متعلقہ اداروں کو ارسال کی گئی۔

میونسپل کارپوریشن, میونسپل کونسل ملتان نے بھی مئیر آفس میں اجلاس منعقد کیا جہاں پر شہر بھر میں میں جاری ترقیاتی سکیموں اور ضلع بھر میں نکاسی آب اور صفائی کے حوالے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے معاملات میونسپل کونسل اور میونسپل کارپوریشن کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔

میونسپل کارپوریشن سیالکوٹ کا بھی اجلاس بلایا گیا جس میں پچھلے بجٹ کی تفصیلات لینے اور آئیندہ بجٹ بنانے کے لیے کاروائی کی جانا تھی مگر اجلاس میں سی او نے شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا۔

اجلاس ملتوی کرنے کے بعد اگلے روز انتظامیہ نے مئیر آفس کو تالے لگوادیے تاکہ اس میں بلدیاتی نمائندے آکر نا بیٹھ سکیں۔

ضلع کونسل نارووال کے اجلاس میں شرکت کے لیے برادر احمد اقبال صاحب چئیرمین ضلع کونسل نارووال نے مجھے بھی دعوت دی۔

ضلع کونسل نارووال میں پہنچے تو وہاں جاکر علم ہوا کہ یہاں کا عملہ سی او سمیت غائب ہوچکا ہے. دفتر میں آئے سائلین کے مسائل سننے والا بھی کوئی ایک شخص موجود نہیں جس کہ وجہ سے کئی لوگ ادھر ادھر گھومتے دیکھے جو اپنے مسائل کے حل کے لیے افسران کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے ۔

احمد اقبال صاحب نے بتایا کہ میری رات تک سی او صاحب سے بات ہوتی رہی انہوں نے مجھے اجلاس میں شرکت کرنے اور اجلاس کے لیے ممبران ضلع کونسل کو سرکاری سطح پر اطلاع کروانے کی یقین دھانی کروائی تھی، مگر نا تو انہوں نے اجلاس میں شرکت کی اور نا ہی ممبران ضلع کونسل کو اطلاع کروائی، الٹا سارے عملے سمیت وہ یہاں سے غائب ہوگئے۔

احمد اقبال صاحب نے ضلع کونسل نارووال میں موجود اپنا دفتر بھی صحافیوں کو دکھایا جس میں آگ لگنے کی وجہ سے ساری دیواریں اور چھت سیاہ ہوچکی تھی. اے سی وائرنگ، ایل سی ڈی اور کمپیوٹر سمیت بیشتر چیزیں جل چکی تھیں۔

فرنیچر اور دیگر سامان وہاں سے غائب تھا جبکہ وہاں پرانا سا کوئی فرنیچر رکھ دیا گیا تھا۔

اس دفتر میں آگ لگی تھی یا آگ لگانے کا ڈرامہ رچا کر وہاں سامان چوری کیا گیا اس پر ابھی تک کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔

ضلع کونسل نارووال کے اجلاس میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے ممبران ضلع کونسل نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

جہاں متفقہ طور پر قراردادیں منظور کی گئیں۔

قراردادوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا۔

ضلع میں امن و امان اور نکاسی آب کے مسئلہ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

کورونا وائرس کے لیے آگاہی مہم میں ضعی انتظامیہ اور ضلع کونسل کے اشتراک کی درخواست کی گئی۔

ایڈمنسٹریٹرز کو ختم کرکے ضلع کونسل کو اصلی اور پرانی حالت میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

25 مارچ 2021 کے بعد کے کیے گئے ایڈمنسٹریٹرز کے اقدامات کو منسوخ کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔

گذشتہ دنوں دن دیہاڑے قتل کیے گئے سابق صدر بار ایسوسی ایشن نارووال رانا شاہد نور کی خدمات کے اعتراف میں ضلع کونسل ہال کے سامنے والی پارک کو "نور امن پارک” کا نام دیا گیا.
ضلع کونسل میں بجٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا۔

اپنی گزشتہ کارکردگی اور ایڈمنسٹریٹرز کی دو سالہ کارکردگی کا موازنہ کرتے ہوئے احمد اقبال صاحب نے کہا کہ جہاں جو کام چھوڑ کر گئے تھے وہاں پر دو سال میں کوئی ایک اینٹ بھی نہیں لگ سکی۔

ضلعی حکومت بھی وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرح منتخب حکومت ہے اس کا احترام کیا جائے اور اس کو مدت پوری کرنے دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ جن دو سالوں میں یہ ادارے معطل رہے وہ اس کی مدت میں شمار نہیں کیے جاسکتے کیونکہ ان کو زبردستی دفاتر اور اختیارات سے محروم کیا گیا۔

پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالنے سے پہلے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اقتدار میں آتے ہی پنجاب کے منتخب 58000 بلدیاتی نمائندوں کو معطل کرکے اور 2 سال تک بلدیاتی ڈھانچہ مفلوج کرکے حکومت نے عوام اور اپنے لیے مسائل کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔

گزشتہ دنوں ایک فیلڈ آفس میں جانا ہوا وہاں بیٹھے کلرک نے بتایا کہ گزشتہ دو سال سے دفتری اخراجات کے لیے حکومت نے کوئی رقم ادا نہیں کی حتی کہ بجلی کے بل کی رقم بھی حکومت نے فیلڈ آفس کے دفاتر کو ادا نہیں کی.۔

نا دوسال میں کسی قسم کا کوئی کام کیا گیا۔

دفاتر کے اخراجات ملازمین کبھی بھی اپنے جیب سے ادا نہیں کرتے اس وجہ سے ظاہر ہے کہ کرپشن کی شرح میں کئی حد تک اضافہ ہوا ہے۔

حکومت اگر ان بلدیاتی اداروں کو معطل نا کرتی اور یہ نچلی سطح پر عوام کے لیے کچھ نا کچھ اقدامات کرتے رہتے تو یقینا آج حکومت بھی عوام میں اتنی غیر مقبول نا ہوتی۔

ابھی بھی پنجاب کو چاہیے کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات فراہم کرکے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے موقع فراہم کیا جائے….۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے