ابھی پچھلی ڈانٹ کی گونج باقی تھی کہ محترمہ نے نیا تھپڑ جڑ دیا

سگمنڈ فرائڈ نے کہا تھا، انسانوں میں جبلی طور پر زندگی اور موت کے طرف رحجان پایا جاتا ہے، وہ بوقت ضرورت زندگی بچانے کی ہر ممکن کوشش کرسکتے ہیں اور کبھی حالات کے دھارے میں اپنی یا کسی دوسرے کی جان لے بھی سکتے ہیں۔ جان لینے کی کوشش کرنا، کسی پر ہاتھ اٹھانا، کاری ضرب لگانے کی خواہش کرنا یہ سب کسی کمزور لمحے میں ممکن ہو بھی سکتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے محرکات میں خوف، غصہ سرفہرست ہیں۔ کسی بھی ایسی صورت حال میں جب بیرونی محرکات ، اندورنی برداشت کے نظام پر غلبہ پا لیں، انسان کا شعور اس کی گرفت سے نکل سکتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کچھ لوگ ہتھ چھٹ ہوتے ہیں، یعنی ان کا اندرونی کنٹرول سسٹم جلد کسی بھی بیرونی محرک سے چھڑ سکتا ہے اور وہ آپے سے باہر ہو کر دوسرے شخص یا اشخاص پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔

اسے آسان الفاظ میں ایسے کہہ سکتے ہیں کہ کچھ الفاظ، مناظر، کوئی خاص خوشبو یا ذائقہ یا لمس اس شخص کے غصے کو یک دم بھڑکا سکتا ہے۔ اس کا علاج کروایا جا سکتا ہے، رویوں کو سمجھ کر ان محرکات کے رد عمل کو کم کیا جاسکتا ہے، متعلقہ انسان اپنی حالت کو سمجھتے ہی وہ جگہ، ماحول یا ان لوگوں سے دور جا سکتا ہے جو اسے تاؤ دلوا سکتے ہیں۔ اور ایسے کسی شخص کے نزدیک کے لوگ بھی اس تھراپی یا علاج سے صورت حال کو سمجھ سکتے ہیں اور معاملات لڑائی بھڑائی کی ظرف جانے کے بجائے صلاح صفائی سے حل کئے جا سکتے ہیں۔

اب آتے ہیں حالیہ تھپڑ کی طرف۔ کیونکہ ماضی میں اس ایک ہی انسان کی جانب سے اس طرح کے جارحانہ رویے کے مظاہرے سامنے آچکے ہیں، تو اول تو پہلی فرصت میں انہیں تھراپی کرانی چاہیے۔ اور ان کو ہر ایسی جگہ جہاں تصادم کا خدشہ موجود ہو پہلے سے ذہن سازی کر کے جانا چاہیے کہ وہاں جوش نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا۔

دوسری اہم ذمہ داری ان منتظمین کی بنتی ہے جو جان بوجھ کر حالات اس نہج پر لے آتے ہیں جہاں فریقین میں جھگڑا ہو سکے اور ایسے انسان کو بعض مرتبہ بلایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ بھڑکے اور پروگرام کی ریٹنگ میں اضافہ ہو۔

تیسری زمہ داری موقع پر موجود اس دوسرے انسان کی بنتی ہے جو زیر لب، یا بلند آواز میں ایسی کوئی بات کہہ دیتا ہے جس سے اگلا بندہ ہتھے سے اکھڑ جائے۔ اور اگر وہ ایک خاتون ہو ، بات ہاتھا پائی تک آجائے تو یاد رکھیں، ان کی بدنامی تو ہوگی سو ہوگی، آپ کی بھی کوئی نیک نامی نہیں ہوگی، یا عزت میں اضافہ نہیں ہوگا۔

پاکستان کا سیاسی درجہ حرارت یوں بھی بجٹ، ہوش ربا گرمی اور سیاسی توڑ جوڑ کی وجہ سے ان مہینوں میں کافی زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے نان ایشوز کو مزید ہوا دینے سے اصل مسائل کی طرف توجہ مکمل طور پر نہیں دی جا سکتی۔
برائے مہربانی عوام کو ریلیف دینے کا کام کریں، حزب اقتدار و اختلاف اور میڈیا بھی ذرا ہوش کے عوامی مسائل کے حل تجویز کرنے والے باشعور اساتذہ، انسان دوست فلانتھراپسٹ، ماہر معاشیات، پالیسی ساز، ماہر نفسیات وغیرہ کو زحمت دیا کرے۔ تاکہ بات چیت کو بامقصد بنیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے