معذرت کا موسم

اب جبکہ معذرت کرنے کا موسم شروع ہو چکا ہے تو یارو۔۔ مجھے بھی معذرت کر لینے دیجئے۔۔ آج سے سب بری خبریں دینا بند۔۔ پچھلی تمام ایسی خبروں پر معذرت قبول کیجئے جن سے آپ کو دکھ پہنچا ہو۔ آج سے صرف اور صرف مثبت کوریج کروں گا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی اور چونکہ ہمارے بڑے ان کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے ہم بھی انہیں آج تک برا سمجھتے آئے ہیں، ہم نے انہیں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کا بانی سمجھا اور کہا، ہم نے انہیں بد ترین ڈکٹیٹر سمجھا اور کہا۔۔ ہم آج تک یہ سمجھتے رہے کہ ملک میں شیعہ سنی کی لڑائی ان کے دور میں جان بوجھ کر شروع کروائی گئی۔۔ ایم کیو ایم جیسی لسانی جماعت قائم کی گئی۔ ان دونوں اقدامات پر بھی ہم انہیں برا کہتے رہے۔ ہم نے یہ بھی سمجھا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو صرف اس وجہ سے پھانسی چڑھوایا کہ وہ آمریت کے خلاف کوئی تحریک نہ چلا سکیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے احمد رضا قصوری کی مدد سے عدالت کا سہارا لیا اور مولوی مشتاق کے ذریعہ بھٹو کو پھانسی کے تختہ پر چڑھا دیا۔۔ ہم ان معاملات پر بھی جنرل ضیا، مولوی مشتاق اور احمد رضا قصوری کو قصور وار سمجھتے رہے۔ انہیں برا بھی کہتے رہے۔۔ اس پر اگر اعجاز الحق، احمد رضا قصوری اور مولوی مشتاق کے ورثا کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ جب ہم نے صحافت کا آغاز کیا تو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں نے کسی کے ایما پر ایک دوسرے کے خلاف کیس بنوائے، جماعت اسلامی بھی اس میں باقاعدہ اپنا حصہ ڈالتی رہی۔ ہم نے اسے بھی اچھا نہیں سمجھا اور ان تینوں جماعتوں کو لتاڑا۔ ان تینوں جماعتوں کے چاہنے والوں سے بھی معذرت چاہتا ہوں۔ قبول کر کے ممنون فرمائیں۔

۱۹۹۹ میں پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا، ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ مجھے اتنا برا لگا کہ میں ملک چھوڑ کے چلا گیا۔ واپس آیا تو سوچا تھا کہ پرویز مشرف سیاسی شخصیت بن چکے ہیں اس لیے سدھر گئے ہوں گے لیکن یہاں پہنچنے کے بعد عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر ریلی نکالی تو اسلام آباد کے ساٹھ کے قریب صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہم نے پرویز مشرف کو بھی برا بھلا کہا، اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ اور وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد سمیت بہت سی شخصیات کو بھی رجھ کے گندی گندی گالیاں دیں۔ اب چونکہ معذرتوں کا موسم ہے تو پلیز آپ سب لوگوں کی اگر ہماری گالیوں سے دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا ایسا کرنا عین ثواب کا کام تھا، ہمیں ہی زبردستی آزادی صحافت کا جن چڑھا تھا معلوم نہیں تھا کہ اس کے ثمرات صرف میڈیا مالکان یا ان کی پاکٹ یونینز تک پہنچ پائیں گے ورنہ ہماری مجال تھی کہ ہم کبھی بھی مالکان کے خلاف یا ایسی پاکٹ یونینز کے خلاف جاتے۔ تمام پاکٹ یونینز اور میڈیا مالکان نے اگر ان کے حق میں آواز بلند نہ کرنے پر برا منایا ہو تو میری طرف سے معذرت قبول کریں۔۔ بندہ ناچیز، حقیر و پر تفسیر انتہائی نادم ہے۔ معذرت قبول فرمائیے۔ سب سے زیادہ معذرت پرویز مشرف صاحب سے کیونکہ انہیں تو ہم ڈکٹیٹر اور مطلق العنان حکمران سمیت جانے کیا کیا کہتے رہے؟۔

ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ دور بھی آنا تھا۔ ورنہ تو ہم پرویز مشرف کو ہی سب سے بڑا ڈکٹیٹر سمجھتے تھے کہ جس کا جب دل چاہتا تھا وہ آئین پاکستان کو اٹھا کر کہیں مقفل کر دیتا تھا، یقین مانیں ہم اس کو بہت ہی قبیح فعل سمجھتے تھے، اس پر بھی اگر مشرف شاہ صاحب ہماری معذرت قبول کر لیں تو ہماری زندگی سنور سکتی ہے۔ لیکن یہاں کہانی ختم نہیں ہوئی دوستوں، ہماری نادانیاں جاری رہیں، تین نومبر 2007 کو جب پرویز مشرف نے ایمرجینسی پلس نافذ کی، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو گھر بھجوا دیا تو بھی ہماری احتجاجی رگ پھڑکی اور جب تمام سیاسی جماعتیں بھی خاموش تھیں ہماری صحافتی تنظیمیں بھی اس وقت بے راہ روی کا شکار تھیں، مالکان اور سیاسی جماعتوں کے کہنے پر نہیں چلتی تھیں انہوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ مسلسل 72 روز تک احتجاج کیا اور اپنے غلط اعمال سے ہم نے اپنے محبوب ڈکٹیٹر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ہماری تحریک کی کامیابی سے یقینناً ان کی دل آزاری ہوئی ہو گی اس پر بھی ہم معذرت خواہ ہیں۔ مشرف صاحب پلیز معذرت قبول کریں۔ اس کے بعد بھی ہمیں سکون نہیں آیا اور نواز شریف دور میں جب پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ قائم ہوا تب بھی ہم نے اپنا چلن درست نہیں کیا اور اس پر خوشی کا اظہار کیا۔۔ اسی پر بس نہیں کیا جب پرویز مشرف کو عدالت جاتے جاتے گاڑیوں کا رخ موڑ کر کہیں اور بھیج دیا گیا تو بھی ہمیں ایسے تکلیف ہوئی جیسے پرویز مشرف کو سزا ہونے سے ہم سب صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے حالات زندگی بہتر ہو جائیں گے۔۔ ہم نے اس پر بھی اعتراض کیا، اس اعتراض سے بھی ظاہر ہے کہ پرویز مشرف کو تکلیف پہنچی ہو گی اس لیے ایک بار پھر ان سے معذرت چاہتا ہوں۔

یقین مانیں کہ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی طویل فہرست ابھی بھی جاری ہے، ہم نے اس وقت بھی تشویش ظاہر کی جب پی ٹی آئی کا جلسہ اچانک بڑا ہو گیا اور میڈیا کو حکم جاری ہو ا کہ جلسہ بسم اللہ سے لے کر صدق اللہ العظیم تک مکمل دکھانا ہے۔ پھر دھرنا کے زور پر حکومت گرانے کی کوششوں کا آغاز ہوا تو ہم نے مزید بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پریس کلب کے سامنے جمہور کیمپ لگایا اور مزاحمت کی۔ اب ظاہر ہے کہ دھرنا پر اخراجات ہوئے تھے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی تھی، انہیں بھی تکلیف ہوئی ہو گی اور انہیں بھی جنہوں نے شیروانی سلوا لی تھی۔ پھر وہ اپنی دوسری شادی پر ہی پہننی پڑی، اس پر بھی ہماری معذرت قبول کریں۔ ہماری ایک کوتاہی یہ بھی ہے کہ ہم نے میڈیا مالکان اور حکومت کے گٹھ جوڑ سے ورکرز پر زندگی تنگ کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کی۔ اس سے بھی دل آزاری تو لازمی ہوئی ہو گی اس لیے معذرت قبول کیجئے۔ اس کے بعد بھی گاہے بگاہے ہم نے موجودہ دور میں میڈیا پہ مختلف پابندیوں پر آواز بلند کی، ہماری نالائقی تھی۔ معذرت قبول کریں۔ اب ذرا توجہ سے دیکھئے میں نے تو ایک دو مرتبہ بھی نہیں کئی مرتبہ معذرت کی ہے تو یقینناً اینکر نہیں تو کم از کم کسی بڑے اخبار میں کالم نگار کی جگہ کے لیے تو کوالیفائی کر لیا ہے، بس ایک بات کی معذرت اور قبول کیجئے کہ اس معذرت نامہ پر صرف میرے دستخط ہیں، کسی سہولت کار کمیٹی کی سہولت دستیاب نہیں تھی، اس پر بھی معذرت۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے