جمہوریت کا حسن زندہ باد

’’ڈھائی دن ناں جوانی نال چل دی ،کرتی ململ دی ‘‘

جمہوریت کا جوبن، حسن اور ٹٹ پینی جوانی اپنے عروج پر ہے اور اس کا شبابِ بے حجاب کرتی چولی پھاڑ کے مقدس ایوان میں دھمال ڈالتا ہوا اس کے تقدس میں مزید اضافہ کر رہا ہے ۔میری دعا ہے کہ یہ جمہوریت اسی طرح اپنے حسن کے نشے میں چور جشنِ جوانی مناتی رہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا غیور و باشعور ووٹر قیمے والے نان اور بریانی کھا کھا کر ان پر فخر کرتا رہے اور قوم یونہی قلانچیں بھرتی ہوئی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی رہے۔

ویسے سچ پوچھیں تو ابھی اس جوانی بلکہ اتھری جوانی نے اور بہت سے ریکارڈز قائم کرنے ہیں۔ ابھی تو ملیکہ بخاری کو چند خراشیں ہی آئی ہیں، کل کلاں بعید نہیں کہ جمہوریت کی دیوانی جوانی تیزاب کی بوتلوں سے مسلح ہو کر آئے اور ایک دوسرے کا منہ تیزاب سے دھو ڈالے ۔اس جمہوریت نے ابھی تو صرف بجٹ کی کاپیاں اور گریبان ہی پھاڑے ہیں۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ابھی تو جمہوریت نے صرف سیٹیاں ہی ماری ہیں، آنے والے دنوں میں ہم دیکھیں گے کہ یہ ہنٹر والی توبہ شکن جمہوریت کیسے کیسے ثابت کرتی ہے کہ

’’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘

انتقام کس سے ؟ ان عوام سے جو انہیں ووٹ کھلا کھلا کر پالتے پوستے اور جوان کرتے ہیں تاکہ یہ ایوان کو لاہور کے مشہور ’’تھیٹر‘‘ اور رومن اکھاڑے میں تبدیل کرکے بھوکے ننگے عوام کو تفریح یعنی اینٹرٹینمنٹ مہیا کر سکیں کہ یہی کچھ رومن اشرافیہ کیا کرتی کہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے رومن اکھاڑوں میں مسخرے، جنگجو اور وحشی جانور کھلے چھوڑ دیئے جاتے۔

اخباروں نے خوامخواہ شغل میلے کو سکینڈلائز کرنے کیلئے سرخیاں اور شہہ سرخیاںجما دی ہیں۔ بندہ پوچھے گالیاں ایک دوسرے کو دینے کیلئے نہیں ہوتیں تو کیا فریج یا بینک میں جمع کرانے کیلئے ہوتی ہیں ؟بھولے بادشاہ ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ ایوان کا تقدس مجروح کر دیا ….اگر یہ سچ بھی ہے تو بھلا کون سی قیامت آگئی ؟ اس مجروح تقدس کی سرکاری خرچ پر مرہم پٹی کرالو۔جہاں تک ہلڑ بازی کا تعلق ہے تو یہ کوئی قمار بازی یا کوئی اور بازی تو ہے نہیں جس پر اتنا چیخ رہے ہو ۔پھر کہتے ہیں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے حالانکہ

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے

جمہوریت خیر سے جوانیاں مان رہی ہے اور جوانی میں ہلکی پھلکی نادانی قابل معافی ہوتی ہے۔ جوبن سے پھٹتی ہوئی اس جمہوری جوانی نے اگر دوچار پیگ نیٹ ہی چڑھا لئے ہیں تو اس پر سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟

ساقی کے بھی ہوش اڑے ہوئے تھے جو شراب سیخ پہ ڈالی، کباب شیشے میں۔ہم زندہ قوم ہیں اور ہمارے نمائندے ضرورت سے زیادہ زندہ ہیں اور زندگی تو نام ہی ہلچل ،ہنگاموں کا ہے ۔زندہ ہیں تو زندگی کے بھرپور مظاہرے بھی کریں گے کہ مردے ہوتے تو اسمبلیوں میں نہیں، قبرستانوں میں ہوتے۔ میں نے اک زمانہ میں اسمبلیوں کو اصطبلیاں لکھا تو استحقاقیوں کے استحقاق مجروح ہو گئے میں نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ اصطبل تو گھوڑوں کے ہوتے ہیں اور گھوڑے سے زیادہ خوبصورت، وفادار، باوقار جانور کوئی نہیں اس لئے گھوڑوں کا استحقاق مجروح کرنے پر غیر مشروط معافی قبول فرمائیں ۔یہ وہ زمانہ تھا جب جمہوری ہارس ٹریڈنگ بھی جمہوریت کی طرح اپنے جوبن پر تھی ۔

قوم ’’خبروں‘‘ کے جھاکے میں نہ آئے، بدمزہ اور بدظن نہ ہو کیونکہ آج نہیں تو کل یہ اتھری حسین جمہوریت پانچ سات سو سال میں بوڑھی ہو کر سمجھدار بھی ہو جائے گی۔تب تک علامہ اقبال کے اس ملین ڈالر مشورے پر عمل کرتے ہوئے شانت رہیں کہ

’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ‘‘

یہ ’’امیدبہار‘‘ چار پانچ نسلیں تو کھا گئی، مزید کچھ نسلوں کی قربانی درکار ہے جس کے بعد کسی شے کی کسر اور کمی باقی نہ رہے گی۔

جمہوریت کا حسن زندہ باد

باقی سب کچھ مردہ باد

کیونکہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے اور نظام بھی، عوام کا کیا، یہ ڈھیٹ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے