جب ابو جی نے ہاتھ جھاڑے اور کہا ” میرے ذمہ کچھ واجب الادا نہیں

لکھنے بیٹھی ہوں تو ہزار باتیں ہیں جو یاداشت کے دروازے پر آن بیٹھی ہیں۔ لیکن دل ان میں سے چھانٹی کی چند یادوں کو ہی اولیت دینے پر تلا ہے۔ میں نے ہوش سنبھالا تو ابو جی کو محنت کرتے ہی دیکھا۔

وہ قد و قامت میں اپنے زمانے کے کسی ہیرو سے کم نہیں تھے۔ بحری جہاز کے عرشے پر سال ہا سال تک نمکین سمندری پانی کی پھوار اور براہ راست سورج کی تپش نے ان کا رنگ کملا دیا تھا۔ مگر جسم کو بہترین توانائیاں بخشی تھیں۔ ابو کے بازو مضبوط اور کندھے چوڑے تھے۔ ان کی چال ڈھال متوازی اور دلنشین تھی۔

میری ایک رشتے کی خالہ بتاتی ہیں بھائی صاحب ہندی فلموں کے ہیرو دھرمیندر جیسے لگتے تھے۔ وہ جب بھی ان کے گھر آتے خالہ اور سہلیاں انہیں چھپ چھپ کر دیکھا کرتیں۔ ایک اور رشتہ دار خاتون بتایا کرتی تھیں، جب بھائی صاحب کراچی سے رالپنڈی آتے تو محلے کی سب لڑکیاں ان کی یونیفارم میں ایک جھلک دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن وہ بے حد شرمیلے اور ازحد شریف الطبع تھے۔

ان کی جوانی کے قصوں میں بس ان کا اور ان کی والدہ یعنی ہماری بےجی کا ذکر ملتا ہے، وہ اپنی والدہ سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ بس انہوں نے ایک بار بےجی کو انکار کیا اور وہ بھی بہت منطقی بات پر۔ بےجی اپنی ان پڑھ بھتیجی سے ان کی شادی کروانا چاہتی تھیں جب دادا جی کو اپنی پڑھی لکھی اکلوتی بھتیجی عزیز تھی۔ ابو نے ووٹ دادا کے حق میں دیا۔ اور اپنی چچا زاد بیاہ لائے۔

شادی کے پہلے دن ہی امی پر یہ واضح بھی کردیا، کہ ان کا انتخاب اسلئے کیا ہے کہ وہ پڑھی لکھی، سمجھدار اور سلیقہ شعار ہیں۔ اور ابو کو اپنی اگلی نسل باشعور چاہیے۔ ساتھ میں اپنے والدین کی تا حیات ذمہ داری نبھانے کا وعدہ بھی لیا۔ امی نے تو اپنے وعدے نبھائے سو نبھائے ابو نے اپنی محبت کو آخر دم تک کمال لگن سے نبھاتے رہے۔

ابو جی اپنے سات بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے، بڑوں کے ساتھ با ادب اور چھوٹوں کے ساتھ شفیق۔ ابو نے اپنی دوستیاں ہمیشہ گھر سے باہر محدود رکھیں اکثرکہا کرتے تھے نیوی کی دوستی والک ویز تک۔

ابو اولاد کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ بد قسمتی سے ابو کا یہ خاموش احساس کرنا اس وقت زیادہ محسوس ہونے لگا ہے جب وہ رہے نہیں۔ ان کی شخصیت کا خاصہ یہی تھا وہ پس منظر میں رہ کر سب کا خیال رکھتے، کبھی جتاتے نہیں تھے اور کبھی اپنی خدمت تو انہوں نے لی ہی نہیں۔

وہ زیادہ بڑے افسر نہیں تھے لیکن ان کو سلیوٹ کرنے والے لوگوں کی کمی بھی نہیں تھی، خاص کر جب وہ پاکستان بحریہ سے سعودی بحریہ میں ایک انسٹرکٹر کے طور پر چلے گئے۔ انہوں نے دنیا کے بہت سے ممالک میں سفر کیا تھا،کام کیا تھا اور غیر ملکی لوگوں کو قریب سے دیکھا سنا تھا۔ بحری جہازوں کی روایات کے برعکس نا تو ابو نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ لگایا اور نا ہی ام الخبائیث سے کوئی تعلق رکھا۔ وہ اتنے سادگی پسند تھے کہ ایک مدت تک مشرقی پاکستان میں رہنے کے باوجود پان چھالیہ کی مفت سپلائی کے ہوتے ہوئے اس لت سے بھی محفوظ رہے۔

ہاں چٹا گانگ کے رس گلے بہت یاد کرتے تھے اور ڈھاکہ کے جوکور پراٹھے۔بنگالی شیف کی دہی والی بریانی اور مچھلی ابو کے پسندیدہ کھانے تھے۔ مگرمیں نے انہیں کبھی فرمایش کرتے یا دسترخوان پر کسی کھانے میں مین میخ نکالتے نہیں سنا۔

ابو کو کپڑے بنانے کا شوق کبھی رہا ہوگا، لیکن زندگی کے آخری دس سالوں میں شاید تین جوڑٰے کپڑے ہی بنائے، وہ بھی اکلوتے بیٹے اور پھر نواسی کی شادی پر، ورنہ ہر عید تہوار، یا موسم بدلنے پر آرام سے منع کر دیتے، ابھی تو نئے کپڑے رکھے ہیں، ضرورت نہیں۔ اپنی الماری اور موسمی کپڑوں کا ٹرنک خود سیٹ کر کے رکھتے، آخری بار بھی گرمی کے کپڑۓ جب پیک کر رہے تھے تو میں نے کہا ابو یہ سب جوڑۓ بیکار ہو گئے ہیں نئے سلوا دیتی ہوں۔ جواب یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے شاید وہ اپنے جان گئے تھے بلاوا آنے والا ہے کہنے لگے ‘ اگلے سیزن میں خدا جانے یہ بکس کون کھولے گا، یہ لباس کون پہنے گا”

ابو جی روایتی والدین کی طرح نصیحتیں نہیں کرتے تھے، وہ بس کر کے دکھا دیتے تھے، زندگی ایسے گذارنی ہے۔
سچ کہوں تو لگتا تھا ابو کو زمانے میں کوئی نہیں جانتا، لیکن ان کی وفات پر سینکڑوں لوگ آئے، جن میں ان کے مسجد کے ساتھی بھی تھے، جہاں ابو صرف جمعے کو جا پاتے تھے کیونکہ انہیں امی کی دیکھ بھال کے لئے گھر پر ہی نمازیں ادا کرنا ہوتی تھیں، گاوں کے ایسے لوگ جنہیں اللہ جانے کب ابو مالی امداد دیتے تھے۔ محلے کی ایسی کئی خواتین جو اپنے بچوں کو اس لئے باہر سڑک پر کھیلنے کے لئے چھوڑ دیتی تھیں کہ بابا جی باہر لان کو پانی لگا رہے ہیں ، بچے محفوظ ہیں، وہ دیکھ لیں گے۔

حیرت تو اس وقت ہوئی جب ہمارا مالی، ردی والا، دودھ والا ، کام والی بوڑھی اماں جو اب چل پھر نہیں سکتیں ابو کے جنازے پر آئے اور آنسووں سے روئے۔ پچھلی مارکیٹ کے دکاندار، نزدیک کے فلیٹس میں رہنے والے مزدور مستری، ابو کے لئے ان کے جانے کے مہینوں بعد بھی افسوس کرتے ہیں۔

باتیں کئی ہیں بس آخری رات کی آخری بات دل پہ گایا ثبت ہے، جب ابو جی نے ہاتھ جھاڑے اور کہا ” میرے ذمہ کچھ واجب الادا نہیں، شکر ہے” ان کے نام پر نا تو کوئی جائیداد تھی، نا کوئی خاص روپیہ پیسا یا اور کوئی قیمتی چیز۔ بس وہ تھے اور ان کی سادگی۔ اللہ غریق رحمت کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے