تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

اصل موضوع ذرا بعد میں کیونکہ غیر متوقع طور پر ایک انوکھی لاڈلی بیچ میں آ گئی جو کھیلن کو صرف چاند ہی نہیں، سورج ،ستارے اور سیارے بھی مانگ رہی ہے ۔ماں صدقے ابو واری مریم نواز نے کیسا معصوم سا مطالبہ کیا ہے کہ ’’نواز شریف کیلئے انصاف، زندگی اور صحت کی ضمانت دیں، انہیں آج شام ہی واپس بلا لوں گی‘‘۔

انصاف کی DEFINITION ہے NOC+NORجو موجودہ حالات میں تو ممکن نہیں۔ رہ گئی، صحت اور زندگی تو اس کی ضمانت دینا انسانوں کے بس کی بات ہی نہیں۔

یہی زندگی مسرت، یہی زندگی مصیبت

یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ

البتہ ایک صورت ممکن ہے کہ پوری کابینہ کو دعوت دیں اور انہیں کھانا کھلانے کے بعد باری باری سٹیج پر بلا کر ایک ایک ارب ڈالر کے بنڈل کھینچ کھینچ کر ان کے منہ پر دے ماریں اور وڈیو بنا کر لاکر میں رکھ لیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

اب چلتے ہیں کالم کے بقیہ حصہ کی جانب … میرے کچھ دوستوں کو میری خود ملامتی پر اعتراض ہے لیکن میں اس موہوم سی امید پر اپنی معاشرتی کمیوں، کجیوں، برائیوں، بدصورتیوں کو اجاگر کرتا رہتا ہوں کہ شاید ہم میں سے کچھ کو ہی اپنے آپ پر رحم آجائے اور ہم میں سے کچھ لوگ ہی خود کو تبدیل کرنے پر کم از کم غور کرنا ہی شروع کر دیں ورنہ جو ہو رہا ہے، وہ تو ہم سب کے سامنے ہے ہی ۔اوپر سے نیچے تک گلائو سٹرائو کا بھیانک عمل جاری ہے ۔ایسی ایسی مکروہ، شرمناک حرکتیں، وارداتیں سامنے آتی ہیں کہ آئینہ میں چہرہ دیکھتے ہوئے بھی شرم آجائے۔

آج صرف دو مثالیں آپ کے سامنے رکھنے کی جسارت کروں گا۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں شادیوں بیاہوں پر سلامیاں دینے کی رسم ہے ۔اس رسم کے پس منظر اور تاریخ کو علیحدہ رکھتے ہوئے ہمیں صرف اس نکتے پر غور کرنا ہے کہ جب بڑے اور اہم منصبوں پر فائز لوگوں کےبچوں وغیرہ کی شادیاں ہوتی ہیں تو یہ نام نہاد ’’سلامیاں‘‘ کروڑوں بلکہ اربوں روپے کیش اور تحائف تک کیسے اور کیوں پہنچ جاتی ہیں ؟ دینے والے کیا سوچ کر دیتے اور لینے والے کیا سوچ کر لیتے ہیں اور کیا یہ حرام کو حلال سمجھ کر کھانے والی حرکت نہیں؟

میں نہیں جانتا کہ یہ قانونی ہے یا غیر قانونی اور انہیں ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن کیا یہ اخلاقی طور پر جائز ہے ؟ آپ اس بارے میں غور کیجئے ، اپنے دوست احباب سے بھی رائے لیجئے تاکہ میں اس پر اپنی رائے کو کوئی حتمی شکل دے سکوں۔اس ’’واردات‘‘ کا دوسرا پہلو بہت ہی دلچسپ اور سنسنی خیز ہے اور وہ یہ کہ اگر آج کوئی سینئر سرکاری عہدیدار اپنے بچے بچی کی شادی کرتا ہے تو فرض کیجئے اسے کیش، کاروں اور دیگر شکلوں میں اربوں نہ سہی، کروڑوں روپے ’’سلامیوں‘‘ کی صورت میں وصول ہوتے ہیں ۔دو چار پانچ سال میں خدانخواستہ طلاق ہو جاتی ہے تو دوسری طرف ’’صاحب‘‘ ریٹائر بھی ہو جاتے ہیں اور بچے کو دوبارہ شادی خانہ آبادی کیلئے ’’لانچ‘‘ یا ’’پیش‘‘ کرتے ہیں تو کیا پہلی شادی کی ’’سلامیوں‘‘ کا دس فیصد بھی انہیں وصول ہو گا؟ کمال یہ ہے کہ معزز راشی ان لوگوں کو بھی دعوت نامے بھیج کر انہیں فون پر ریمائنڈر دے دیتے ہیں جن کے ساتھ ان کا مناسب تعلق تعارف بھی نہیں ہوتا یعنی ہم نے سلامیوں اور رشوتوں کو بھی گڈمڈ کر دیا اور پھر روتے بھی ہیں کہ معاشرہ سے برکت روٹھ گئی ۔یہ ہے ’’ٹاپ‘‘ کی ایک جھلکی اور اب سنئے ’’باٹم‘‘ کی۔

آج کل کیمپس والی نہر کنارے کچھ ’’ٹیلنٹڈ‘‘ لوگوں نے پنکچر لگانے کے ’’اڈے‘‘ لگائے ہوئے ہیں ۔جائے واردات سے آدھا پونا کلو میٹر پہلے وقفے وقفے سے کیل بکھیر دیتے ہیں جو ان وارداتیوں نے آپس میں پیسے پول کرکے خریدے ہوتے ہیں۔موٹر سائیکلز اور ماری موٹی گاڑیاں ’’پنکچر‘‘ ہو جاتی ہیں تو ان لوگوں کی دیہاڑیاں کھری ہو جاتی ہیں ۔میں سوچتا ہوں کہ کیا کیل بکھیرنا بھی ’’ہیومن رائٹس‘‘ میں شامل ہے ؟

تو جواب اس کا یہ ہے کہ اگر کروڑوں اربوں کی ’’سلامیاں‘‘ وصولنا’’ہیومن رائٹس‘‘ میں شامل ہے تو سڑکوں پر کیلیں بکھیر کے ’’کلائنٹس‘‘ پیدا کرنا بھی ’’مارکیٹنگ‘‘ کے ہنر میں شامل ہے۔

مصحفی ہم تو یہ سمجھےتھے کہ ہو گا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

بلکہ سچ پوچھیں تو پورے کا پورا دل ہی تبدیل ہونا ضروری ہے جو مصحفی کے زمانے میں ممکن ہی نہیں تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے