جنسی درندگی اس دور کا سب سے غلیظ جرم ہے. اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی بگاڑ ہے. جب معاشرے بگھڑ جاتے ہیں تب ناممکنات بھی ممکن بن جاتے ہیں جبکہ بڑا سے بڑا جرم بھی کوئی معنی نہیں رکھتا. معاشرتی بگاڑ کے نتیجے میں انسان درندوں کی طرح بے حس، ظالم اور وحشی بن جاتے ہیں. جب انسان وحشی بن جائے پھر ہر طرح کے خطرناک درندے بھی اس کے آگے کوئی وجود نہیں رکھتے، پھر وہ درندے بھی اس سے خوف کھاتے ہیں.
آج اس دنیا میں انسان کی جان، مال، عزت اور آبرو کی کوئی قدر و قیمت نظر نہیں آتی. سماج جہل کی زد میں ہے جہاں ہر کسی کو فقط اپنی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی پڑی ہوئی ہے. اپنی جائز و ناجائز خواہشات کو پانے کی خاطر لوگ اب کسی کو قتل کرنا، اس کی عزت تار تار کرنا، اس کے وجود اور احساسات سے کھیلنا، اس پر اپنا دھونس اور رعب جمانا، اس کی مرضی کو کچل کر اپنی مرضی مسلط کرنا اور ہر طریقے سے فقط اپنی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا معمول کی بات بن چکی ہے.
اس وجوہات پر جتنے دن مرضی بحث کرلی جائے بات آکر یہیں رکے گی کہ “یہ معاشرہ جہل کی زد میں ہے” یہ معاشرہ ہر طرح کے بگاڑ کا شکار ہے.
جنسی درندگی کے مرتکب افراد جب پکڑےجاتے ہیں تو ان کی اکثریت وہ نکلتی ہے جو شادی شدہ ہوتے ہیں یا ایسی خواہشات کو رضامندی سے پورا کرلینا جن کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوتا.
مگر پھر بھی وہ لوگ کسی بے بس کو مجبور اور اپنی دسترس میں لا کر بزور طاقت اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کو انجوائے کرتے ہیں. ایسے لوگ ذہنی ناپختگی اور ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں جو کسی پر اپنا تسلط جما کر اس پر اپنی مرضی مسلط کرکے شاید دو گھڑی سکون محسوس کرتے ہیں.
جنسی درندگی کے واقعات میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ اب ایسے واقعات کی درجنوں خبریں روزمرہ کے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں.
ایک درندگی و بربریت کا واقعہ ہوتا ہے تو شور اٹھتا ہے، انصاف دلوانے کے لیے آوازیں بلند ہوتی ہیں مگر دو ہی روز میں سارا جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور پھر کسی نئے واقعے کا انتظار کیا جاتا ہے.
ہمارے ہاں جنسی زیادتی کے محض وہ کیسز سامنے آتے ہیں جن میں مفعول یا تو جان کی بازی ہار جاتا ہے یا ویڈیوز وائرل ہوجاتی ہیں اور یا پھر مفعول کے پاس اس کو دنیا کے سامنے لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا. اصل واقعات کے 20 فیصد واقعات بھی رپورٹ نہیں ہوپاتے. درندگی کا شکار ہونے والے لوگ معاشرے کی عجیب حقارت بھری نگاہوں کا سامنا کرنے کے خوف سے ایسے واقعات پر پردہ ڈال دیتے ہیں. زیادتی کے شکار لوگوں کی سماج میں بدنامی اور ذلت مقدر بنا دی جاتی ہے. انصاف کے حصول کے لیے متعلقہ لوگوں کے تند و تیز جملوں اور تمسخرانہ جرح سے لوگ خوف کھاتے ہیں. معروف کالم نگار و سینیئر وکیل جناب آصف محمود صاحب نے گذشتہ دنوں اپنے کالم میں ایک واقعہ لکھا. لکھتے ہیں کہ ایک عدالت میں زیادتی کی شکار عورت سے ملزم کا وکیل دوران جرح سوال کرتا یے کہ ملزم جب آپ سے زیادتی کررہا تھا تو کیا آپکو بھی مزہ آ رہا تھا؟ وکیل کے اس سوال پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے اور وہ بچی شرمندگی و حیرت کی تصویر بنی کھڑی رہتی ہے. وکیل اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے منطقی بننے کی کوشش کرتا ہے کہ میرے پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر لڑکی بھی لطف اندوز ہوئی تھی تو پھر تو یہ زناءبالجبر نہیں ہوا بلکہ زناءبالرضا ہوا.
دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے جہاں مظلوم کا یوں تماشہ بنایا جاتا ہو، جہاں ظالم سے زیادہ ایسے مظلوموں سے ہمارا سماج نفرت کرتا ہو، جہاں میڈیا دن رات ایسی درندگی کے شکار لوگوں کی خبر مصالحہ لگا کر بطور چسکہ پیش کرتا ہو اور اپنی دوکانداری چمکاتا ہو، جہاں انصاف لینے کے لیے پورے معاشرے کے سامنے رسوا ہوکر، عزت نیلام کرکے، لاکھوں روپے لٹا کر، زمانے کے تند و تیز اور تلخ و تحقیر سے مزین جملے برداشت کرکے، سماج کی گندی اور حقارت بھری گفتگو سن کر بھی بعد میں فیصلہ مجرمان کے حق میں آجائے یا تھوڑی بہت سزا پا کر وہ پھر وہیں سینہ سپر ہوکر گھومتے رہیں وہاں لوگ ایسے واقعات کیوں رپورٹ کروائیں گے.
ہزار دفعہ لکھا ہے کہ براہ کرم زیادتی کا شکار ہونے والے لوگوں کی شناخت مکمل طور پر چھپانے اور اس کو ظاہر کرنے والے کے خلاف سخت کاروائی کی پالیسی اپنائیں، ایسے واقعات کا جلد از جلد ٹرائل مکمل کرکے سخت سزائیں دیں اور سرعام سزائیں دیں تاکہ معاشرے میں خوف پیدا ہو. اپنے معاشرے کی ذہنی و تعلیمی تربیت کا پورا بندوبست کریں تاکہ معاشرہ اس ظلم عظیم کے شکار لوگوں سے نفرت کی بجائے ہمدردی کرے.
اپنے معاشرے کو تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے سے دیکھیں تو تاریخ ہمیں آج سے قریبا سوا چودہ سو سال پیچھے لے جاتی ہے. اس معاشرے میں بھی یونہی معاشرے کو جرائم کی آماجگاہ بنا دیا ہوا ہے. عورت کو فقط اپنی ہوس مٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا. ماں بہن بیٹی اور کسی رشتے کی کوئی قدر نہیں. اپنی اپنی طاقت کے بل پر اپنی خواہشات کو پورا کیا جاتا تھا. معاشرے میں بیٹی کی وجہ سے “کہیں م عزت خاک میں نا مل جائے” اس خوف کی وجہ سے بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا. ایک دوسرے کے سامنے ایسی درندگی کرنا، اس کے واقعات سنانا، ننگے کوجانا، اپنی ماں تک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا دینا، انسانی کھوپڑیوں میں شراب نوشی کرنا اس وقت عام واج بن چکا تھا.
وقت نے پلٹا کھایا، اللہ نے اس قوم پر اپنا رحم کیا اور وہاں اپنا پیغمبر رحمت، نبی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بگڑے سماج کی اصلاح کے لیے بھیجا. اس نبی دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان بے عیب زندگی کے 40 سال گزارے اور ان کی تربیت شروع کردی. اس بگڑے ترین معاشرے کا ایسا سمجھا ہوا بنا دیا کہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے مثال بن گئی. چشم عالم نے دیکھا کہ وہی درندہ قوم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے بعد ایسی قوم بن گئے کہ ایک دفعہ ایک لڑکیوں کے ننگے لشکر کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے سے ناچتے گاتے ہوئے گزارہ گیا تاکہ ان کے دل ان کی طرف مائل ہوجائی مگر وہ مارے حیرت کے اس وقت انگشت بدنداں رہ گئے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ایک ساتھی نے بھی ان عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا.
تاریخ کے معروف ترین سخی حاتم طائی کی بیٹی گرفتار کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش کی جاتی ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پوچھتے ہیں کہ بتا تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اس نے کہا کہ پاس کے ملک یمن میں میرا بھائی رہتا ہے مجھے اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس بھیج دیا جائے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں میں سے نوجوان ترین جوانوں کے ساتھ حاتم طائی کی بیٹی کو یمن کی طرف روانہ کردیا. جنگلوں اور پہاڑوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے دور دراز کا سفر کرکے جب کنانہ کو اس کے بھائی کے پاس پہنچایا گیا تو اس نے تلوار نکال لی اور اپنی بہن سے ہوچھا بہن بتا ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کروں؟
کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اتنے لمبے سفر میں کئی راتیں کئی دن سنگلاخ پہاڑیاں اور ویرانے گزرے ہیں ناجانے میری بہن کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا گیا ہوگا.
مگر مارے حیرت کے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا جب بہن نے کہا کہ بھائی خدا کی قسم محمد کے ان جانثاروں کی آنکھوں میں میں نے اپنے لیے جتنی حیا دیکھی ہے وہ کبھی آپ کی آنکھوں میں بھی نظر نہیں آئی. کسی ایک نے بھی مجھے پورے سفر میں آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا.
خدارا اس پیغمبر انقلاب کی سیرت مقدسہ کو ہمارے نصاب کا لازمی جزو بنادیں، ہماری نسل کو ان کی حیات مقدسہ کا ایک ایک پل سمجھادیں. نوجوانوں کو قدم قدم پر ان کی زندگی سے رہنمائی لینے کا درس دیں انشاءاللہ اگر اس نسل کی اس طرز پر تربیت کی جائے تو یہ درندے آپ کو ان عزتوں کی حفاظت کرتے نظر آئیں گے…