علموں بس کریں او یار

بدبخت کیلئے علم کا سمندر بھی بے کار اور خوش بخت کیلئے اشارہ ہی کافی ہے ۔وہ چراغ جس میں باتی ہو نہ تیل اس پہ تاریکی کا راج رہے گا۔

اکو الف ترے درکار

علموں بس کریں او یار

اس کائنات میں بھلا عالم کون ہو سکتا ہے اور عالم ہو کر کرنا بھی کیا ہے ۔جس کی آنکھ ہی نہیں دل بھی روشن ہو وہ تو گھنے تاریک جنگل میں صرف ایک جگنو کے سہارے بھی منزل پا لیتا ہے اور اگر اندر ہی اندھیرا ہو تو سورج کی روشنی بھی کافی نہیں ہوتی ۔

عرض کیا حضور! فلاں فلاں عیبوں میں لتھڑا ہوا ہوں لیکن ایک آدھ چھوڑنے سے زیادہ کی سکت نہیں۔ فرمایا ….’’جھوٹ چھوڑ دو‘‘ سارے عیب خزاں رسیدہ پیلے پتوں کی طرح جھڑتے چلے گئے لیکن یہاں تو جھوٹ کوئی عیب ہی نہیں بلکہ طرز زندگی ہے۔

انیلا خالد نے صرف 40 احادیث مع ترجمہ و تشریح مرتب کی ہیں ۔ڈھنگ سے زندہ رہنے کیلئے تو چار بھی بہت ہیں ۔فرمایا ’’مَن غشاَ فَلَیسَ مِناّ‘‘ ترجمہ :’’جو شخص ہم (مسلمانوں) کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘

’’مَن فرقَ فَلیس مِناّ‘‘

’’جو شخص ہم (مسلمانوں ) میں تفرقہ اور جدائی ڈالے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘

’’طَلَبُ العلمِ فرِیضۃ عَلیٰ کُلِ مُسلمِِ‘‘

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ‘‘

ذرا غور فرمائیے’’ فرض‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے نماز فرض ہے تو دھیان ان کروڑوں بچوں کی طرف جاتا ہے جو سکولوں سے باہر دھکے کھا رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کہ اب تو کافروں کی ریاستوں نے بھی یہ ’’فرض‘‘ اپنے ذمہ لے لیا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وہ کیسا مائنڈ سیٹ تھا جو موٹر ویز بنا کر اس پر فخر کرتا رہا ، جو انڈر پاسز، اوورہیڈز، اورنج ٹرینیں چلا کر ان پہ اتراتا رہا اور بچوں کو جہالت کے جہنم میں جھونکتا رہا ۔میرے قارئین کو یاد ہو گا کہ میں ان دنوں بھی سراپا احتجاج یہ لکھتا رہا کہ کوئی باشعور اس ترقی کے خلاف نہیں لیکن فی الحال ترجیحات پر از سرنو سوچو کہ حصول علم و علاج ہماری اولین ترجیح ہونا چاہئے لیکن ترجیحات کے تعین میں کنفیوژن ہی تو ہماری کم بختی ہے۔

فرمایا

’’مَلعُون ملعُون مَن کَذِبَ‘‘

’’جو شخص جھوٹ بولے وہ ملعون ہو جاتا ہے‘‘

قرآن پاک میں بھی ہمارے رب نے یہی فرمایا کہ ’’جھوٹوں پر میری لعنت ہے‘‘ (سورۃ آلِ عمران : آیت 61) جس پر ﷲ اور حضورؐ کی لعنت ہو وہ دنیا و آخرت میں کیسے پنپ سکتا ہے؟

فرمایا ’’لایومِنُ احُد کُم حتی یحُبّ لاخِیہِ مایحبُ لِنفسِہِ‘‘ ۔’’کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے ایسی چیز کو پسند نہ کرے جسے اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘

اب اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے چاروں طرف دیکھئے ۔معاشرہ کیا بزکشی کا میدان ہے ۔ ہاتھ ایک دوسرے کی جیبوں میں، ٹانگیں کھینچنے کا کلچر، بدبودار منافقانہ پی آر، کھوکھلے سڑانڈ مارے رشتے، حسد، رقابت، خود غرضی، نفسا نفسی یعنی سزائیں بھی ساتھ ساتھ مل رہی ہیں لیکن عقلوں پہ پردے، دلوں پہ قفل

’’المُسلمُ مَن سلِمَ المُسلِمُونَ مِن لِسانِہِ وَیدَہِ‘‘

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘

کیا واقعی ہم ایک دوسرے کی زبانوں اور ہاتھوں سے محفوظ ہیں یا اسمبلیوں سے لیکر عوام تک صورتحال اس سے بالکل ہی مختلف ہے ۔

’’وہ بھوک ہے اعضا کہیں اعضا کو نہ کھالیں‘‘

فرمایا ’’لَعنہُ اللہ علیٰ الراشیِ و المرتشیِ‘‘

’’ﷲ کی لعنت ہے رشوت دینے اور لینے والے پر ‘‘ تو کیا اس پر بھی کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ بچے اور خواتین خانہ کو چھوڑ کر اس معاشرہ میں کتنے فیصد لوگ ہوں گے جنہوں نے کبھی رشوت دی ہو گی نہ لی ہو گی؟ ہم تو وہاں پہنچ گئے کہ نومولود کے کانوں میں اذانیں دینے کے بعد اس کے برتھ سرٹیفکیٹ کیلئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے اور عزیز واقارب کی نماز جنازہ یعنی دعا کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی وصولی کیلئے بھی ادائیگی ضروری ہے اور رشوت کا نام ’’سپیڈ منی ‘‘ قرار پایا ہے۔

کوئی پڑھا لکھا ہو، کم پڑھا لکھا ہو یا چٹا ان پڑھ ….ممکن نہیں کہ یہ احادیث مبارکہ سنے بغیر جوان ہوتا ہو لیکن اصل بات وہی ہے کہ بدبخت کیلئے علم کا سمندر بھی بے کار اور خوش بخت کیلئے اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔

دل روشن ہو تو جگنو بہت

اندر ہی تاریک ہو تو سورج بھی بے کار

علموں بس کریں اویار

اکو الف ترے درکار

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے