دیومالائی کردار، دلیپ کمار (1،2)

کوزوں میں دریا صرف محاوروں میں بند ہوتے ہیں۔ دلیپ کمار تو دریا نہیں، سمندر تھے۔ برصغیر کی سینما ہسٹری سو سال پلس ہے جس میں نہ کوئی دوسرا دلیپ کمار ہے نہ کبھی ہو گا۔ دلیپ صرف بڑے پرفارمر ہی نہیں، عظیم انسان اور دانشور بھی تھے۔ وہ کہا کرتے ’’دلیپ کمار تو میرا کمرشل نام ہے۔ میں تو سرتاپا محمد یوسف سرور خان ہوں۔‘‘ وہ صحیح معنوں میں یوسف ثانی تھے جن کی مسکراہٹ پہ ماحول مسکرانے لگتا اور سوگواری اک جہان کو سوگوار کر دیتی۔ انتہائوں کے امتزاج دلیپ کمار ٹریجڈی کنگ ہی نہیں، کامیڈی کنگ بھی تھے۔ ایسی دیومالائی شخصیت کے سامنے میں کیا، میرا قلم کیا؟ اس لئے دلیپ صاحب کی زبانی ان کے کیریئر کی ابتدائی کہانی پیش خدمت ہے۔ دلیپ صاحب کہتے ہیں____

’’ایک صبح میں چرچ گیٹ سٹیشن پر کھڑا دادر جانے والی ٹرین کا انتظار کر رہا تھا جہاں کسی شخص نے لکڑی کی چارپائیاں کنٹونمنٹ کو فراہم کرنے کے لئے مجھے بلایا تھا۔ اسٹیشن پر مجھے سائیکلوجسٹ ڈاکٹر مسانی نظر آئے۔ وہ ایک مرتبہ ولسن کالج آئے تھے جہاں میں پڑھتا تھا۔ میں فوراً ان کے پاس گیا۔ وہ میرے والد آغا جی کے جاننے والے بھی تھے۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا ’’تم کیا کر رہے ہو یوسف؟‘‘ میں نے بتایا ملازمت ڈھونڈ رہا ہوں جو مل نہیں رہی اس لئے اب کاروبار کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’’بمبئی ٹاکیز‘‘ کے مالکان سے ملنے جا رہے ہیں، تم میرے ساتھ چلو، ہو سکتا ہے ان کے پاس تمہارے لئے کوئی نوکری ہو۔ میں دادر جانے کا ارادہ ترک کر کے ان کے ساتھ ہو لیا۔ میں نے زندگی میں فلم سٹوڈیو نہیں دیکھا تھا۔ راج کپور کی زبان سے بمبئی ٹاکیز کا نام ضرور سنا تھا۔

اس کے والد پرتھوی راج کی فلمیں یہاں بنتی تھیں۔ بمبئی ٹاکیز کئی ایکڑوں پر پھیلا ہوا تھا اور اس میں ایک باغ کے اندر درمیان میں فوارہ بھی تھا۔ جب ڈاکٹر مسانی اندر داخل ہوئے تو مسز دیویکا رانی نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔ اس دوران میں اپنے تعارف کا انتظار کر رہا تھا۔ دیویکا رانی رکھ رکھائو کی منہ بولتی تصویر تھیں۔ ڈاکٹر مسانی نے میرا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے ’’نمستے‘‘ کہا۔ ان کی نگاہ مسلسل مجھ پر جمی تھی جیسے ان کے ذہن میں کچھ چل رہا ہو۔ انہوں نے ہمیں امیا چکرورتی سے ملوایا (بعد میں علم ہوا کہ یہ مشہور فلم ڈائریکٹر ہیں)۔ دیویکا رانی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے اردو آتی ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر وہ ڈاکٹر مسانی سے میرے خاندان بارے دلچسپی سے سنتی رہیں۔ ان کے چہرے پر قدرتی چمک اور صحت مندی جھلک رہی تھی۔ پھر ایک دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے مجھ سے وہ سوال کیا جو میری زندگی مکمل طور پر تبدیل کرنے والا تھا۔ پوچھا ’’کیا میں اداکار بننا چاہوں گا اور کیا مجھے 1250روپے تنخواہ قبول ہو گی؟‘‘ میں نے ان کی سحر انگیز مسکراہٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’میں اس فن کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ میں نے زندگی میں ایک ہی فلم دیکھی ہے اور وہ بھی جنگ کی دستاویزی فلم تھی جو دیولالی میں فوجیوں کو دکھائی گئی تھی‘‘۔

انہوں نے کہا ’’مجھے لگتا ہے تم میں ایک اچھا اداکار بننے کی صلاحیت ہے، محنت کرو گے تو سیکھ جاؤ گے۔‘‘ واپسی پر گھر پہنچ کر میں نے اپنے بھائی ایوب سے بات کی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھے 1250روپے ماہانہ کی پیشکش ہوئی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ سالانہ تنخواہ ہو گی کیونکہ ان کی معلومات کے مطابق اس وقت راج کپور کو ماہانہ 170روپے ملتے تھے۔ میں اپنے والد آغا جی کی کم ہوتی آمدنی پوری کرنے کیلئے فوری طور پر کچھ کمانا چاہتا تھا سو میں چرچ گیٹ کے قریب ڈاکٹر مسانی کے گھر گیا کہ 1250روپے سالانہ بہت ہی کم ہے۔ انہوں نے تصدیق کے لئے دیویکا رانی کو فون کیا تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ جب ریسیور رکھا تو بولے ’’دیویکا رانی نے 1250روپے سالانہ نہیں ماہانہ کی پیشکش کی ہے۔‘‘ یہ سن 1942ء تھا اور دن جمعہ کا (تاریخ یاد نہیں) جب میں دعائوں اور لنچ کے بعد خاموشی کے ساتھ گھر سے نکلا تھا اور کسی کو معلوم نہیں تھا میں کہاں جا رہا ہوں۔ اس سہ پہر جب ٹیکسی بمبئی ٹاکیز میں داخل ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ درودیوار مجھے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ دیویکا رانی اپنے آفس میں تنہا میز کے پیچھے بیٹھی تھیں جس پر ہر چیز سلیقہ سے رکھی رہتی تھی۔ گفتگو مختصر رہی۔ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی پیشکش قبول کرنے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایگریمنٹ کی تیاری ان کے معاون مسٹر آئر کریں گے۔

وہ چاہتی تھیں میں فوراً کام شروع کر دوں اور اگلی صبح آ کر ان سب لوگوں سے مل لوں جن کے ساتھ مجھے کام کرنا ہے۔ میرے والد اس پیشے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کئی مرتبہ میرے سامنے انہوں نے راج کپور کے دادا بشیشور ناتھ کپورجی سے کہا تھا کہ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ان کا بیٹا پرتھوی راج اور پوتا راج کپور ’’نوٹنکی‘‘ کے سوا اور کچھ بھی نہیں کرتے۔ بہرحال جب میں گھر لوٹا تو میں نے اماں کو بتایا کہ مجھے 1250روپے ماہانہ کی نوکری مل گئی ہے جس سے کچن کے اخراجات ہی نہیں، بہن بھائیوں کی تعلیم کا خرچ بھی آسانی سے پورا ہو جائے گا۔

اگلی صبح میں تیار ہو کر چپ چاپ گھر سے نکل گیا اور 9بجے وقت پر سٹوڈیو پہنچ گیا۔ دیویکارانی نے میرا خیرمقدم کیا اور خود مجھے لے کر فلور پر گئیں جہاں کسی شوٹنگ کی تیاری ہو رہی تھی۔ وہاں مجھے ایک خوش لباس اور سب سے ممتاز شخص دکھائی دیا۔ دیویکارانی مجھے اس کےپاس لے گئیں۔ مجھے اس کی شکل جانی پہچانی لگی۔ مجھے یاد آیا کہ کرافورڈ مارکیٹ میں پوسٹرز پر میں نے یہ چہرہ دیکھا ہے۔ اس کے سیاہ گھنگھریالے بال پیچھے کی طرف بنے ہوئے تھے۔ مسکراتی آنکھوں سے اس نے مجھے دیکھا۔ دیویکارانی نے نئے اداکار کے طور پر میرا تعارف کرایا۔ اس نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور دیر تک میرا ہاتھ تھامے رکھا۔ یہ اس دوستی کی ابتدا تھی جو پوری زندگی برقرار رہنی تھی۔ وہ اشوک کمار تھے جو جلد ہی میرے لئے اشوک بھیا بن گئے (وہ 10دسمبر 2001 کو چل بسے)

اشوک کمار فلور سے نکلے اور ایک لڑکے کو اپنا میک اپ روم کھولنے کے لئے کہا۔ وہ چابیاں لانے بھاگا تو میں نے ایک نوجوان کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ یہ راجکپور تھا جسے مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں نے سٹوڈیو میں کام شروع کردیاہے تو وہ اپنے روایتی کھلنڈرے پن پر اتر آیا ’’کیا تمہارے والد کو معلوم ہے؟‘‘ اس نے شرارت سے پوچھا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ دیویکا رانی اور اشوک بھیا قریب ہی کھڑے تھے جنہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ راج کپور اور میں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ راج نے خالصہ کالج میں فٹ بال کے دونوں کا ذکر کیا۔ اس پر دیویکارانی نے کہا ’’کاش میں بھی لڑکوں کی طرح فٹ بال کھیل سکتی‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راج کپور مجھے وہاں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ دیویکا رانی نے اس بات کویقینی بنایا کہ میں تمام شوٹنگز پر موجود رہوں تاکہ ماحول آشنا ہو سکوں۔

دھیرے دھیرے مجھے سب کچھ اچھالگنے لگا۔ اشوک بھیا اور ایس مکھرجی قریب ہی رہتے تھے۔ بومبے ٹاکیز کے لئے یہ تعمیر کا زمانہ تھا۔ دیویکارانی اپنے شوہر ہمانشورائے کی موت (16مئی 1940) کے بعد سوڈیو سنبھال رہی تھی اور اب ایک روسی مصور سویتو لوف رورخ سے شادی کے بعد سٹوڈیو کو سنبھالنے کی ذمہ داری ایس مکھرجی اور امیا چکرورتی کو سونپنا چاہتی تھیں۔ دیویکا رانی نے جرمنی سے باقاعدہ فلم میکنگ کی تربیت لی تھی اور وہ میک اپ اور سیٹ ڈیزائننگ میں بھی ماہرتھیں۔ ان کے گرد ہمیشہ روشن سا ہالہ دکھائی دیتا۔ ایک دن انہوں نے مجھے طلب کیا۔ وہ انگریزی بولتی تھیں کہنے لگیں ’’یوسف! تم ماحو ل میں رچ بس گئے ہو، سو اب میں جلد از جلد تمہیں بطور اداکار سامنے لانے کا سوچ رہی ہوں۔ بہتر ہے تم اپنا کوئی فلمی نام اپنالو۔ وہ نام جس سے تم شہرت پائو گے اور میرے خیال میں دلیپ کمار اچھا نام ہے، تمہیں کیسا لگا؟‘‘ ایک لمحہ کے لئے میں گنگ رہ گیا۔ میں نے کہا ’’نام اچھا ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے؟‘‘ تو اپنے روایتی دبدبے کے ساتھ انہوں نے کہا ’’میں تمہارا ایک طویل اور تابناک مستقبل دیکھ رہی ہوں لہٰذا مناسب ہوگا‘‘۔ میں نے مکھر جی صاحب سے کی تو بولے ’’فلمی نام سے فائدہ ہوگا اور دلیپ کمار بہت ہی اچھا نام ہے اگرچہ میں ہمیشہ تمہیں تمہارے گھر والوں کی طرح یوسف ہی کہوں گا‘‘۔ اور پھر مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اشوک کمار کا اصلی نام بھی کچھ اور ہے یعنی ….’’مکندلال کانجی لال گنگولی‘‘۔

’’قسمت‘‘ کی کامیابی کے بعد اشوک بھیا سپر سٹار تھے اور مجھے فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ کے ساتھ لانچ کیا جارہاتھا جس کے ہدایت کار امیاچکرورتی تھے۔ حیرت انگیز سچائی یہ ہے کہ میں پہلی بار کیمرے کے سامنے آنے کے خیال سے نہ تو نروس تھا اور نہ ہی پُرجوش۔ دیویکارانی سیٹ پر آئیں تو انہوں نے ہمیشہ کی طرح مجھے پرسکون اور مطمئن دیکھا۔ دیویکا رانی نے تمام تر انتظامات کا جائزہ لیا۔ وہ میری بے حد گھنی بھنوئوں کے سوا ہر چیز سے مطمئن تھیں۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا اور میک اپ روم سے ’’موچنا‘‘ منگوانے کے بعد بڑی مہارت کے ساتھ بھنوئوں کے بڑھے ہوئے بال نکال دیئے۔ میں سانس روکے یہ درد برداشت کرتا رہا۔ انہوں نے درد کی شدت سے میری آنکھوں میں آنے والے آنسو دیکھے اور شرارت سے بھرپور لہجے میں کہا ….’’اب آئینہ دیکھو‘‘۔ اسی وقت میک اپ والے نے دردکش کریم لگا دی اور دیویکا رانی مجھے ’’گڈلک‘‘ کہتے ہوئے چلی گئیں۔ میرا پہلا شاٹ امیا چکرورتی نے مجھے سمجھایا۔ انہوں نے بتایا کہ ہیروئن خودکشی کرنے جا رہی ہے اور اس کی جان بچانے کے لئے ہیرو دوڑتا آتا ہے۔ میں کالج میں ایتھلیٹ تھا اور ہمیشہ 200 میٹر کی دوڑ جیتی تھی سو دوڑنے کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ جیسے ہی میںنے ’’ایکشن‘‘ کالفظ سنا مجھے پر لگ گئے۔ ڈائریکٹر صاحب ’’کٹ کٹ‘‘ کرتے رہ گئے۔ مایوس امیاچکرورتی میرے پاس آئے اور کہا ’’تم اتناتیز دوڑے کہ کیمرے میں صرف دھندلا سا نشان آیا ہے‘‘۔ امیا چکروری نے سمجھایا کہ منظر کیمرے میں موجود فلم پر ریکارڈہوتا ہے اور کیمرے کی مخصوص رفتار ہوتی ہے۔ تین یا چار مرتبہ کٹ کرانے کے بعد شاٹ او کے ہوگیا۔ ’’جوار بھاٹا‘‘ 1944 میں ریلیز ہوئی اور ناکام قرار پائی۔

قارئین! یہ ہے برصغیر کے سنیما کے دیومالائی کردار، دلیپ کمار کے آغاز کی کہانی خود ان کی زبانی جوان پر لکھی گئی کئی انگریزی اردو کتابوں میں محفوظ ہے۔ باقی ان شاﷲ کل سہی۔ (جاری ہے)

(جاری ہے)

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے