’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘

’تاشقند کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے فرداً فرداً تمام سربراہانِ مملکت اور وزرائے خارجہ سے ہاتھ ملایا لیکن بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے مصافحہ نہیں کیا جبکہ شنکر کے ساتھ کھڑے روسی وزیر خارجہ سے غیررسمی گفتگو بھی کی‘‘۔

انسانی یادداشت بھی عجیب شے ہے۔ تاشقند کانفرنس میں ہونے والا یہ واقعہ مجھے برسوں پیچھے لے گیا جب چین کے معماروں میں سے ایک، اور پاکستان سے خصوصی محبت رکھنے والے عظیم رہنما چو این لائی ZHOU ENLAIزندہ تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ جنیوا کانفرنس کے دوران چو این لائی کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ امریکی وفد کا سربراہ سیکرٹری آف سٹیٹ جان فوسٹر، چو این لائی کو سخت ناپسند کرتا اور ان کے بہت خلاف تھا اور کسی قیمت پر چین کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ کانفرنس کے دوران لائونج میں اس کا سامنا چو این لائی کے ساتھ ہو گیا۔ چو این لائی نے مصافحہ کرنے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا تو جان فوسٹر نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ کانفرنس کے پہلے اجلاس کے بعد فوسٹر جنیوا سے چلا گیا اور اس کی جگہ جنرل بیڈل سمتھ امریکی وفد کی سربراہی کرنے لگا۔ ایک روز چو این لائی لابی میں پہنچے تو بیڈل سمتھ کو بیٹھے دیکھا جو اپنی پیالی میں کافی انڈیل رہا تھا۔ چو این لائی نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ بیڈل سمتھ نے بھی ذرا مختلف انداز میں وہی حرکت دہرائی جو جون فوسٹر کر چکا تھا۔

اس نے ہاتھ ملانے سے زبانی انکار تو نہیں کیا لیکن عمل سے یہی ثابت کیا کہ وہ ’’مصروف‘‘ ہے کیونکہ اس کے بائیں ہاتھ میں تو جلتا ہوا سگار پہلے سے ہی موجود تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس نے فوراً کافی کی پیالی اٹھا لی تاکہ یہ ظاہر کر سکے کہ اس کے دونوں ہاتھ ہی خالی نہیں اور وہ مصافحہ کرنے سے معذور ہے۔ مدبر چو این لائی نے تب بھی کسی ناگوار ردِعمل کا اظہار نہیں کیا اور ہاتھ ملائے بغیر ہی اس کے سامنے بیٹھ کر اس کی خیریت دریافت کرنے لگے۔ بیڈل سمتھ کو نہ چاہتے ہوئے بھی چو کی باتوں کا جواب دینا پڑا اور آخر کار چو این لائی نے بیڈل سمتھ کا دل جیت لیا اور وہ چو کو پسند کرنے لگا۔ اس کانفرنس کے دوران ہی اک اور موقع پر چو این لائی لابی میں کسی اور سے محو گفتگو تھے کہ بیڈل سمتھ وہاں پہنچ گیا، چو این لائی کے پاس آیا اور خود مصافحہ کیلئے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا ’’میں آپ کی مدبرانہ سوچ اور دانشمندی سے بہت متاثر ہوا ہوں اور آپ سے دوبارہ مل کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے‘‘۔ چو این لائی کی رگِ ظرافت پھڑکی اور مسکراتے ہوئے کہا:

’’آپ کو یاد ہو گا جب ہم پچھلی بار ملے تھے تو میں نے مصافحہ کیلئے آپ کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا لیکن آپ کے دونوں ہاتھ خالی نہیں تھے اور ہم ہاتھ نہیں ملا سکے تھے‘‘ بیڈل سمتھ خفیف سی ہنسی ہنسے بغیر نہ رہ سکا اور بڑی گرمجوشی سے چو این لائی کا بازو دبا کر آگے نکل گیا۔ چو این لائی کی اس بردباری کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیڈل سمتھ ہمیشہ کیلئے ان کا مداح بن گیا چنانچہ جب کانفرنس میں ہند چینی مسئلہ زیر بحث آیا تو چو این لائی نے اس کے حل کیلئے ایک تجویز پیش کی۔ بیڈل سمتھ نے دو ٹوک انداز میں اس تجویز کا خیر مقدم کیا۔ اس کی اس حمایت پر امریکی وفد کے اندر بحث چھڑ گئی۔ یہ تھی چو این لائی کی ڈپلومیسی اور اب چلتے چلتے اس عظیم چینی سیاست دان اور مدبر کا بستر مرگ پر رویہ، انداز اور اسلوب۔

چو این لائی کینسر سے لڑتے لڑتے نڈھال ہو کر ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ 7جنوری 1976کی رات کے پہلے پہر انہوں نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ ڈاکٹرز، نرسیں ان پر جھکی ہوئی تھیں۔ پوچھا ’’یہ رات کا وقت ہے؟‘‘ ’’جی ہاں جناب‘‘۔ ’’اس وقت ٹائم کیا ہے؟‘‘ ‘‘گیارہ بجے ہیں‘‘۔ ’’تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو؟‘‘عظیم قائد نے پوچھا تو جواب آیا:

’’آپ کی دیکھ بھال اور خبر گیری کیلئے‘‘

چو این لائی نے مدہم آواز میں آخری حکم جاری کیا ۔۔۔

’’اب تم میرے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ جائو اور باقیوں کی دیکھ بھال و خبر گیری کرو تاکہ ان میں سے کسی کو بچا سکو‘‘۔

8جنوری 1976کی صبح 9بجکر 57منٹ پر عظیم چینی انقلاب کا عظیم رہنما اپنے آخری سفر کیلئے روانہ ہو گیا۔

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے