عقلیں، توندیں اور تضادات

’’ہماری زندگی کیا ہے، ہوا پہ رقص کرنا ہےنہ جینا ہے نہ مرنا ہے‘‘

شاید ہی کبھی کسی انسانی معاشرہ میں اتنے تضادات اور ڈبل سٹینڈرڈز رہے ہوں جتنے ہمارے حصے میں آئے اور یہ تضادات بھی اتنی قسموں کے ہیں کہ کمپیوٹر بھی کنفیوژ ہو جائے مثلاً بچپن سے لے کر اس بڑھاپے تک مسلسل سنتا آ رہا ہوں کہ….. ’’کھجور کھانا سنت ہے‘‘ لیکن آج تک کسی پیر فقیر علامہ صاحب سے یہ کبھی نہیں سنا کہ حق کے لئے طائف کے پتھر کھانا بھی سنت ہے، شعب ابی طالب کےفاقے برداشت کرنابھی سنت ہے، ہجرت کے دکھ اٹھانابھی سنت ہے، غزوہ احد میں زخم کھانا بھی سنت ہے اور غزوہ خندق میں خالی پیٹ پر پتھر باندھنا بھی سنت ہے، لیکن یاد ہے کہ صرف اتنا کہ کھجور کھانا سنت ہے اور اگر کھجور ’’عجوہ‘‘ ہو تو سبحان ﷲ اور ’’ٹیلنٹ‘‘ کی انتہا یہ کہ ’’عجوہ‘‘ میں بھی زعفران اور بادام وغیرہ ٹھونس کر لاشعور میں موجود ملاوٹ کا شوق پورا کرلیا۔ ’’عجوہ‘‘ کا اصل ذائقہ ہی کھا گئے۔

اس معاشرہ، ماحول میں ’’علم‘‘ کے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، اس سے وہ کروڑوں بچے بھی واقف ہیں جنہیں سکول تک نصیب نہیں لیکن چشم بددور ’’علامے‘‘ گنے نہیں جاتے جبکہ وہاں نہ ایڈیسن علامہ، نہ نیوٹن علامہ، نہ آئن سٹائن علامہ۔ خدا جانے یہ کہاں ’’مینوفیکچر‘‘ ہوتے ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی میں ہر بالغ ملک کے تمام مسائل سے نہ صرف بخوبی واقف ہے بلکہ اس کے پاس ہرمسئلہ کا حل بلکہ فوری حل بھی موجود ہے۔ بھوک کے بحر بیکراں میں کروڑ پتی بننے کےسستے نسخے،’’علم‘‘ کے ہول سیلرز علامے، محبوب چشم زدن میں آپ کے قدموں پر، ویزے دہلیز پر دھرے ہیں، لیکن زمینی حقائق لہک لہک کر گا رہے ہیں۔

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

حیرت ہے کہ جسے خود اپنا ذاتی بلڈ گروپ جاننے کے لئے بھی لیب ٹیسٹ کی ضرورت ہے، وہ بھی عالم ہے اور رہ گیا تازہ تازہ نظریاتی اور انقلابی، ووٹ کو عزت دلانے اور ووٹر کی دم میں نمدا کسنے اور تین بار وزیر اعظم رہنے والا اک شخص جو حال ہی میں اک ایسے افغان مشیر سے انگلینڈ میں ملا جس نے پاکستان کے خلاف ایسی مغلظات بکیں جنہیں لکھنا ممکن نہیں۔ یہی کم ظرف بدزبان بعد میں بھارتی خفیہ اہلکاروں سے بھی ملا۔ ملنے والا پاکستانی ’’قائد اعظم ثانی‘‘ کہلانے کا شوقین ہے تو قائد کا اک قول یاد آتا ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔

’’دولت چلی جائے تو سمجھو کچھ بھی نہیں گیا، صحت چلی جائے تو سمجھو بہت کچھ گیا اور عزت چلی جائے تو سمجھ لو سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا‘‘۔ لیکن یہ وہ ’’کلاس‘‘ ہے جس نے سب کچھ الٹ کے رکھ دیا، ان کو یقین ہے کہ . . . . .

’’عزت چلی جائے تو سمجھو کچھ بھی نہیں گیا، صحت چلی جائے تو چکر دے کر انگلینڈ جا کر صحت خرید لو، لیکن اگر دولت چلی جائے تو سمجھو سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا‘‘۔

یہ وہی صاحب ہیں جو ایک زمانہ میں بے نظیر بھٹو کو ’’میڈ ان انگلینڈ‘‘ کاطعنہ دے کر خود کو ’’میڈ ان پاکستان‘‘ کہا کرتے تھے۔ آج اولادوں، جائیدادوں سمیت وہیں بیٹھے ہیں اور ’’نواسے شریف‘‘ کو وہاں پڑھتے اور پولو کھیلتے دیکھ کر وہ دن یاد کرتے ہیں جب خود اپنے برف خانے کے ارد گرد گلِی ڈنڈا اور پٹھو گرم کھیلا کرتے تھے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر کسی طرح قائد اعظم کو یہ علم ہو جاتا کہ 2021 تک پاکستان کی آدھی سے زیادہ عمر فلاں فلاں دو خاندان کھا جائیں گے تو ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا۔

قائد کا ایک اور قول ہے . . . . ’’کام، کام، کام‘‘۔ سماعت کی کمزوری کے باعث انہیں ’’حرام، حرام، حرام‘‘ اور اگر پکڑے جانے کا خوف ہو تو باہر کھسک لو اور ’’آرام، آرام، آرام‘‘ پر عمل کرو اور جب ممکن ہو تو پاکستان پر بھونکنے والے افغان مشیر کے ساتھ قومی سلامتی پر مکالمہ کرو۔

بات شروع ہوئی تھی تضادات سے لیکن ذرا دور نکل گئی تو واپس چلتے ہیں۔ آج کل میں شدید قسم کے کنفیوژن کا شکار ہوں۔ عثمانی ترک جنہوں نے چھ سو سال پلس تین براعظموں پر حکومت کی، ان کے بانیوں بارے ٹی وی پر سیریلز سپرہٹ جا رہے ہیں۔ ان ڈراموں میں ترک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ شیرنیوں کی طرح آپس میں بھی لڑ رہی ہیں، دشمنوں کےساتھ بھی نبرد آزما ہیں،گھوڑے بھی دوڑا رہی ہیں، تیر تلوار بھی چلا رہی ہیں تو ظاہر ہے یہ سب کچھ ’’چادر چاردیواری‘‘ میں تو نہیں ہو رہا اور آپ اسے ’’ڈرامہ‘‘ کہہ کر نظر انداز بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ تاریخی سچائیاں ہیں۔ ترکوں کی تاریخ پڑھنا میرے محبوب ترین مشاغل میں سے ایک ہے اور اس موضوع پر بیسیوں کتابیں میری ذاتی لائبریری میں موجود ہیں سو مجھ جیسے کودن کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ’’حجاب یا انقلاب‘‘

چلتے چلتے پیر منیر نیازی یاد آئے جو کہا کرتے تھے کہ یہاں خاک ترقی ہونی ہے جہاں آدھی آبادی کو گھروں میں قید کرکے باقی آدمی آبادی ڈانگیں پکڑ کر گھروں کے باہر ان کی حفاظت میں مصروف ہے۔ ہماری بھی کیا قسمت ہے کہ کچھ قوموں کی رہنمائی ’’عقلیں‘‘ کرتی ہیں اور کچھ بدنصیبوں کی رہنمائی ’’توندوں‘‘ کے سپرد ہے جبکہ توندوں میں صرف اوجھڑیاں ہوتی ہیں اور اوجھڑیوں میں؟

کاش کوئی ’’ایسا کرنٹ‘‘ میرے ہاتھ لگ جائے جو مریض کو صدیوں پر محیط ’’کومے‘‘ سے واپس لا سکے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے