”شفیق الرحمان کی کتابیں پڑھ کر شوخ رنگوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے سرخاسرخ، نارنجی، یاقوتی اور زعفرانی“۔ کرشن چندر
کہتے ہیں کہ کتاب انسان کا بہترین ساتھی ہے۔ کتاب تنہائیوں میں آپ کا بہترین رفیق ہے لیکن شفیق الرحمن کی کتابوں کے لئے اس میں تھوڑی رد و بدل کی ضرورت ہے۔ اگر آپ شفیق الرحمن کی کتاب پڑھ رہے ہیں تو آپ کی تنہائی کسی دور افتادہ جھیل کے کنارے بسر ہوگی یا آپ شام کے وقت شفق کی روشنیوں کا نظارہ کریں گے یا کبھی دوستوں کی محفل سے لطف اندوز ہو رہے ہونگے۔
شفیق الرحمن رومانوی افسانہ نگار ہیں لیکن ان کے افسانوں میں آپ کو مزاح کی جھلک نظر آتی ہے۔ پیار و محبت کے قصے لیکن ایسے کہ محبوب کا ملنا محال ہے۔ کرنیں پڑھ کر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ وہ پیار و محبت کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں۔
دوسری طرف ان کے ہاں ایسے کردار ہیں جن کی محبت پلک جھپکتے بدل جاتی اور وہ ہر دفعہ یہ طے کرتے ہیں کہ اس دفعہ ان کی محبت سچی ہے۔ شیطان کے کردار کو جس طرح سے پیش کیا گیا ہے، ان کی بےقاعدگی، ہر بدلتے لمحے محبت اور مختلف چیزوں کے بارے میں ان کے تبصرے پڑھ کر قاری ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کرکٹ میچز کے ذکر کے بغیر شفیق الرحمن ادھورا ہے۔ ایک میچ کی منظر کشی جس مزاحیہ انداز سے کرتے ہیں، آپ کے چہرے پہ بلا اختیار مسکراہٹ بکھیر لیتا ہے۔ بڈی جیسے کردار کی تخلیق کےلئے شفیق الرحمن داد کے مستحق ہیں۔
نیلی جھیل( حماقتیں) میں جس طرح دوسرے کنارے کی منظر کشی کی گئی ہے، قابل دید ہے۔ ایک پل کےلئے انسان اسی سما میں کھو جاتا ہے۔ شفیق الرحمن کی ایک خاصیت یہ ہے کہ کہ ان کے کرداروں سے انس ہو جاتا ہے اور کرداروں کی پسند ناپسند میں آپ ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ نیلی جھیل میں دوسرے کنارہ دیکھنے کی تڑپ قاری کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جتنی کہ ان کرداروں کے دل میں ہے۔ ذرا ملاحظہ ہو:
”سورج غروب ہو رہا تھا کہ یکایک دوسرا کنارہ جگمگا اٹھا، وہاں بادل کے ٹکڑوں اور دھند نے ایسا رنگین اور خوشنما محل بنا دیا کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہم نے رستم کو اشارے سے محل دکھائی، “کون کہتا ہے کہ وہ کنارہ بھی ایسا ہی ہے، وہ دیکھو“۔ بھر سب کچھ نیلا ہو گیا، آسمان، جھیل، بادل اور فضا اور دوسرا کنارہ۔ “ (حماقتیں)
شفیق الرحمن مایوس نہیں ہوتے۔ یہ ان کو پڑھ کہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ زندگی کی رنگینیوں سے بے خبر نہیں اور زندگی کی بھول بھلیوں سے بھی واقف ہیں۔ اپنے کرداروں کے ذریعے وہ زندگی کا پیغام دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ:
"یہ رنج و غم سب وقتی چیزیں ہیں۔ بلکل نا پایدار، نہ تو خوشی ہی دیر تک رہتی ہے نہ اداسی۔ بلکہ ایسی محبوب ہستیوں کی یاد ہمیشہ کے لئے دل میں محفوظ رہتی ہے، اور ایسے مسرور لمحوں کی یاد بھی جو کبھی مسکراہٹوں میں بسر ہوے تھے۔ یہی یاد زندگی کی ویرانیوں میں رفیق بنتی ہے۔ سب کچھ اجڑ جانے پر بھی زندگی کی تاریکیاں انہی کرنوں سے جگمگا اٹھتی ہیں۔ یہ جھلمل جھلمل کرتی ہوئی پیاری پیاری کرنیں“۔ (کرنیں)
ان کا انداز بیاں اور کہانی کو آگے بڑھانے کے فن میں ان کا ثانی نہیں۔ حماقتیں اور کرنیں ان کی تخلیق کا عروج ہے۔ ان کے کردار آپ کو اپنے دوستوں کے حلقوں میں ملیں گے۔ آپ ان کرداروں کو اپنے بچپن سے جوڑیں گے اور آپ کی یادیں نکھر جائیں گی۔ کبھی آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ آپ کے بچپن کی کہانی لکھ رہے ہیں اور کبھی کہ وہ آپ کے کسی قریبی دوست کا ذکر کر رہے ہیں۔
ایک دفعہ آپ پڑھنا شروع کرتے ہیں تو آپ کتاب سے چمٹ جاتے ہیں اور کچھ دیر کےلئے دریاؤں کے پاس یا جھیل کے کنارے سے ہو آتے ہیں۔