دینی مدارس کے اخراجات اور شرح خواندگی میں کردار

پاکستان میں کم وبیش 35 سے 38 ہزار دینی مکاتب ،مدارس اور دارالعلوم قائم ہیں اور اُن میں زیر تعلیم طلباء و طلبات کی تعداد 35 سے 38 لاکھ تک بتائی جاتی ہیں ۔ یہ تمام مدارس رہائشی بچوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ ایک محتاط تحقیق کے مطابق 70 فیصد ایسے مدارس ہیں ،جہاں بچے صبح پڑھنے آتے ہیں اور شام گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔ پورے پاکستان میں رہائشی مدارس کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو وہ بھی سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزراوں کی تعدادمیں موجود ہیں ۔ ویسے تو ان تمام مکاتب فکر کے مدارس کا اپنا مرکزی نظم موجود ہے ، جسے وفاق المدارس (بورڈ)کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں معروف پانچ وفاق کے علاوہ حالیہ دنوں میں دس مزید نئے بورڈ وفاق کا قیام عمل میں آیا ہے یعنی اس طرح اب پندرہ دینی وفاق موجود ہیں جو مسالک کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ میں اس حوالے سے بہت پہلے اپنے گزشتہ کالمز اور مضامین میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں ۔

بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ اس وقت جتنی بھی تعداد کے مدارس ہیں اور ان میں رہائشی بچوں کے مدارس ہوں یا غیر رہائشی مدارس ، سب ہی اپنے اپنے تئیں جو تعلیمی نصاب پڑھا رہے ہیں اس کا معاوضہ یا فیس کسی بھی بچے کے والدین سے نہیں لیا جاتا ہے۔ گویا یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان تمام ہی دینی مدارس میں، چاہے قرآن کی ناظرہ و حفظ کی تعلیم ہو یا پھر مختلف درجات کتب کے مدارس ہوں ۔ تمام ہی مدارس میں 8 سے 10 سال تک بالکل مفت تعلیم کا نظام ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر مدارس میں نصابی کتب بھی مفت میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ گو کہ اس کا تناسب بہت کم ہے۔

اب ہم آتے ہیں اصل موضوع کی جانب کہ ان مدارس کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ انہیں کہاں سے فنڈنگ آتی ہے ؟ ان تمام دینی مدارس کا بقیہ نظام جس میں انتظامی معاملات کے اخراجات اور تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی تنخواہیں بھی کہاں سے ادا کی جاتی ہیں اور ادارہ کا مہتمم کیسے پورا کرتا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو بے شمار لوگ دینی مدارس کی مخالفت میں بطور اعتراض پوچھتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو دینی مدارس کے نظام اور طریقہ کار سے واقفیت نہیں رکھتا ہے یقینا وہ تشویش میں ضرور مبتلا ہوتا ہے۔ لیکن جو اس نظام کو چلانے والے ہیں وہ کم از کم اس بات پر مطمئن نظر آتے ہیں کہ ان کانظام کے چلانے میں اہل خیر حضرات کا بہت بڑا تعاون شامل ہے۔جس پر کسی کو بھی شک نہیں ہونا چاہیئے ؟ لیکن پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان بھر میں ہزاروں دینی مدارس کے اخراجات کا تخمینہ کیا ہوسکتا ہے ؟ آخر اتنے بڑے نظام کو کتنے مخیر حضرات کا تعاون حاصل رہتا ہے ؟ کیا انہیں کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت کہیں سے کوئی عطیہ دیا جاتا ہے؟ یہ تو خیر تحقیق طلب مسئلہ ہے جو ریاستی تحقیقی اداروں کا موضوع ہے۔ البتہ حیران کن اور دلچسپ مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام پر دینی مدارس کا ماہانہ اور سالانہ تخمینہ کتنا بنتا ہے؟

پاکستان کی دیہی آبادی جو کہ 60 سے 70 فیصد پر مشتمل ہے اور وہاں عمومی طور پر دینی تعلیم کے سب سے پہلے مسجد قائم کی جاتی ہے۔ جہاں ابتدائی قرآنی تعلیم دینے کا تصور موجود ہے ۔یعنی اسے رفتہ رفتہ مدرسہ کی بھی شکل دے دی جاتی ہے۔ایسے دینی مدرسہ کی جگہ علاقہ معززین کی جانب سے عطیہ ہو جاتی ہے یا پھر اہل علم اپنی کوشش سے اس جگہ کو باقاعدہ قیمت دے کر خریدتے ہیں۔اس کے بعد مسجد کی تعمیر کے لیے مسلسل چندہ کی اپیل کرنے کا تصور بھی عام ہے۔ یعنی ابتدائی مرحلے میں مسجد کا قیام ، اس کے ہی کسی گوشے میں مدرسہ کا وجود قائم ہونے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ جیسے جیسے وسائل بڑھنے شروع ہوجاتے ہیں تعمیر و توسیع پھیلنے لگتی ہے اور یوں مدرسہ کے علاوہ دیگر امور بھی آگے بڑھنے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر باقاعدہ مدرسہ کے لیے الگ سے جگہ مختص ہوجاتی ہے ۔پھر رہائشی بچے، اور عملہ کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ عمومی طور پر ایک رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جتنے زیادہ بچے زیر تعلیم اور رہائشی بچے جتنے زیادہ ہونگے ،اہل خیر حضرات کو اخراجات کے لیے متوجہ کرنا زیادہ مفید ثابت ہوسکے گا۔ دیہی علاقوں میں تو مالی تعاون سے زیادہ باقاعدہ اجناس کی صورت میں بھی تعاون کرنے کا رجحان عام ہے۔ یہی وجہ ہے اہل مدارس شہر کا رخ کرتے ہیں اور وہاں مخیر تلاش کرتے ہیں۔

اپنی حاصل کردہ تحقیق اور معلومات کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان بھر کےچھوٹے سے چھوٹے مدرسہ میں ہونے والے اخراجات کھانا پینا، اسٹیشنری، سفری اخراجات، بجلی، گیس، پانی اور کم سے کم عملہ کی تنخواہ کے تخمینہ کا جو اندازہ قائم کیا ہے اس تناسب پورے پاکستان کے دینی مدارس کا سالانہ اربوں روپے کا بجٹ بنتا ہے ۔ جو صرف اور صرف اہل خیر کے تعاون سے ممکن ہوتا ہے۔اور حیرت انگیز طور پر یہ تعاون ماہانہ بنیادوں پر مستقل قائم رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر کم سے کم طلبہ اور کم سے تدریسی اور غیر تدریسی عملہ کی تعداد اور دیگر چھوٹے اخراجات نکالیں تو حیران کن نتائج سامنے آئیں گے۔

یہ ذہن میں رہے مذکورہ بجٹ کا تخمینہ چھوٹے بڑے ہزاروں مدارس کے مالیات پر مشتمل ہے ، جن کا کم سے کم کل بجٹ سالانہ اربوں تک جا پہنچتا ہے ۔اگر اسے دو سے چار گنا کردیا جائے تو آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ تخمینہ کئی ارب تک پھیل جائے گا ۔ لیکن اس کے علاوہ بڑے شہروں میں ایسے بھی بڑے نامور مدارس ہیں ۔جنہوں نے اپنے ہی اداروں کی مزید کئی برانچز قائم کی ہوئی ہیں جوکہ مختلف علاقوں اور شہروں تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ ایسے مدارس اور ان کی برانچز ملا کر ، رہائشی بچوں کی تعداد 1 ہزار سے 5 ہزار تک یا اس سے بھی زیادہ کی گنجائش ہوتی ہیں ۔ جن کا صرف ایک سال کے اخراجات بمع تنخواہ کا بجٹ 1 سے 2 ارب تک پہنچ جاتاہے۔ لیکن ایسے مدارس معدودے چند ہی ہیں ۔ بنیادی ضرورت سب کی یکساں ہیں لیکن اخراجات سب کے مختلف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود تمام دینی مدارس اپنے وسائل اور زرائع سے جس میں سر فہرست اہل خیر کا تعاون شامل ہوتا ہے سے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں اوراخراجات پورے کرتے ہیں۔

پاکستان کے گاؤں دیہات میں دینی مدارس کی ایک کثیر تعداد ایسی بھی ہے ، جن کا بنک میں مالی حساب کا کھاتہ ” اکاؤنٹ” نہیں ہے اور وہ زیادہ تر نقد چندہ حاصل کرکے اپنےاخراجات پورےکرتے ہیں۔ دوسری جانب بعض بڑے مدارس ایسے بھی ہیں جن کے ایک سے زیادہ بنک ا کاؤنٹ موجود ہیں، اور وہ باقاعد ہر سال اپنے دینی ادارے کا پرائیویٹ آڈٹ کمپنی سےآڈٹ بھی کرواتے رہتے ہیں ۔ تاکہ حساب کتاب واضح اور ریکارڈ پر رہے ۔

سب سے اہم یہ بات ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی ہزاروں کی تعداد میں مکاتیب ، مدارس اور جامعات ہیں، وہ اپنے اپنے وفاق سے نصابی اور امتحانی نظم و نسق کے حوالے سے ملحق(رجسٹرڈ) ہوتے ہیں، لیکن انہیں اپنے مرکز وفاق کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی مالی تعاون نہیں ملتا ہے۔ اور نہ ہی مرکزی وفاق کسی مدرسہ کے مالی تعاون کا ذمہ دار ہوتا ہے۔لیکن دوسری طرف مختلف وفاقات اپنے ملحق مدارس سے سالانہ الحاق سند ، طلبہ کےسالانہ امتحان میں شامل ہونے کی فیس، حادثاتی اور ضروری فنڈز اور دیگر ضروری اخراجات و انتظامات کی مد میں مخصوص رقم وصول کرتے ہیں تاکہ منظم انداز سے یہ نظام چلتا رہے۔ یہی وجہ ہے ان مدارس کا تعلیمی ، انتظامی، تدریسی اور امتحانی نظام مضبوط اور مرتب انداز سے قائم ہے۔

اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں خواندگی کی شرح کو کم کرنے میں کیا دینی مدارس کا کوئی کردار نہیں ہے ؟ اور کیا شرح خواندگی کو کم کرنے کے لیے دینی مدارس حکومت سے کسی قسم کے بجٹ کا مطالبہ کرتی ہیں؟ جب کہ حیران کن انداز سے یہی دینی مدارس بغیر حکومتی فنڈز کے ہر سال لاکھوں بچوں کو تعلیم کے علاوہ مفت ان کی بنیادی ضروریات کوبھی پورا کرتی ہے۔جس میں تین وقت کھانا پینا اور کپڑے دینا بھی شامل ہوتا ہے۔ جب کہ صرف خواندگی کے حوالے سے یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے ۔خواندگی کی شرح پنجاب میں سب سے بہتر 71 فیصد ہے۔سندھ 69 فیصد، کے پی کے 60 فیصد اور بلوچستان میں 50 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ پنجاب میں 64فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ بلوچستان کی 87 فیصد،سندھ 78 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 69 فیصد خواتین پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں۔ پنجاب میں 46 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اور دوسری جانب حکومت کا سالانہ سرکاری تعلیمی اداروں کا بجٹ کا تخمینہ اربوں میں چلا جاتا ہے جہاں صرف ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے لیکن ان کی بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کیا جاتا ہے۔

میرا خیال ہے معترض ہونے والوں کے نزدیک دینی مدارس کس قسم کی تعلیم دیتے ہیں؟ اس بحث کو ایک طرف رہنے دیجئے۔ مگر کم از کم اس بات کا تو اعتراف بنتا ہے کہ بغیر حکومتی مالی تعاون کے پاکستان میں موجود ہزاروں دینی مدارس نہ صرف خواندگی کی شرح کو کم کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں بلکہ ان تمام رہائشی طلبہ کی بنیادی ضروریات کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ یقیناً یہی زمینی حقائق ہیں۔ جہاں ان اداروں کو چلانے والے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے دونوں ہی ایک خاص دینی جذبہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر سمت متعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مجموعی طور پر ان دینی اداروں سے وہ کارآمد افراد بھی تیار ہو سکیں جو نہ صرف عصری چلینجز کامقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہوں بلکہ ان کا حل بھی پیش کرنے کی بھر پوراہلیت رکھتے ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے