دو باتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے تو اسلام نظام معیشت کو چلانے میں کیا راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اور اگر اسلام کے بتائے گئے قوائد و ضوابط کو لاگو کیا جاتا ہے تو کیا یہ انسانیت کے لیے نفع بخش ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والی اشتراکی تحریک اور اشتراکی نظام کہ ناکامی کے بعد کیا اسلامی معاشی نظام دنیا کے لیے نیا معاشی نظام بن سکتا ہے۔ کیا جدید دنیا کی معیشت کو چلانے کے لیے اسلام کا نظام کار آمد ہے یا نہیں۔
اس تحریر میں اسلام کے معاشی و معاشرتی نظام کے بنیادی خدوخال اور انسانیت پہ ان کے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بنیادی طور پر اسلام کا نظام عدل و انصاف پہ مبنی ہے۔ اسلام ہر شعبہ ہائے زندگی میں انسان کے استحصال کا راستہ روکتا ہے۔ اور انسانی وقار اور فلاح کےلیے ہدایات دیتا ہے۔ سب سے پہلے تو اسلام اپنے پیروکاروں کی فکری تربیت کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ یہ دنیا ایک عارضی چیز ہے یہاں ایسے رہو جیسے ایک مسافر۔ اسلام مال و دولت بنانے کو غلط نہیں کہتا۔ اسلام دولت بنانے کے طریقے کار اور استعمال پہ احکامات جاری کرتا ہے جو فکری بھی ہیں اور عملی بھی۔
اسلام دولت کے غرور سے بچنے کی بارہا تلقین کرتا ہے اور امرا کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ غرباء اور مساکین پہ دل کھول کر خرچ کریں اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کریں۔ فکری تربیت اور احکامات کے علاوہ اسلام عملی طور پہ بھی ایسے قواعد و ضوابط لاگو کرتا ہے جن کے سبب دولت کے حصول کی مد میں پیدا ہونے والی برائیوں کی روک تھام کی جاتی ہے۔ مثلاً اسلام میں رشوت لینے اور رشوت دینے والوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنا اور ڈاکہ ڈالنے والے کو قتل کرنے کی سزا ہے۔ اس طرح کی سزاؤں کے علاؤہ اسلام کا نظام زکوٰۃ اور عشر نچلے طبقات کےلیے بہت اہم ہے۔ اسلام کے مطابق ایک خاص نصاب سے زیادہ مال و دولت رکھنے والے افراد کو ہر سال اپنی دولت پہ اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینا لازم ہے۔ اور اسلام اس حکم پہ بڑی سختی سے عمل درآمد کرواتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے منکرین زکوۃ کے خلاف علم بلند کیا اور انہیں اسلام کے احکامات کے تابع کیا۔ اسی طرح سونا چاندی، مال مویشی کی بھی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے اور قرآن پاک بار بار اس کی تلقین کرتا ہے۔ عشر یہ ہے کہ زیر کاشت زمین کہ پیداوار میں سے غرباء کا حصہ نکالنا۔ بارانی علاقوں میں دسویں بوری اور میدانی علاقوں میں بیسویں بوری اللّٰہ کی راہ میں وقف کی جاتی ہے۔ اس طرح ہر سال زکوٰۃ اور عشر کی مد میں وافر اناج اور رقم مستحقین میں تقسیم کی جاتی ہے جس سے ان کو ایک آسودہ زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ وراثت کی تقسیم کے حوالے سے بھی اسلام کے واضح احکامات موجود ہیں اگر ان پہ عمل کیا جائے تو کسی کو کوئی شکایت نہ رہے اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہو۔
اسلام سود کو اللّٰہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ قرار دیتا ہے اور سود پہ مکمل پابندی عائد کرتا ہے۔ اس طرح سودی قرضہ جات کے ذریعے لوگوں کی جائیداد اور مال ہڑپ کرنے کا راستہ بند کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اگر موجودہ دور میں بھی اسلامی نظام نافذ کر دیا جائے تو یہ انسان فلاح و بہبود کے بہت اہم اقدام ہو گا۔ اور انسانیت چند ساہو کاروں کے چنگل سے نجات حاصل کر لے گی۔