جی بی کا ٹرانزیشنل پلان اور پیپلزپارٹی کی عجلت

گلگت بلتستان کی 74سالہ زہن سازی اور کھینچاتانی کے بعد جو چیز ممکن ہے وہ صرف عبوری صوبہ ہی ہے۔ آزادی یا بغاوت یا پھر پاکستان کے زیر انتظام میں آنے کے بعد سے اب تک گلگت بلتستان پورے کو جس طریقے سے اور جس رخ کی طرف کھینچا گیا ہے اس کا خمیازہ گلگت بلتستان کے عوام بھگت رہے ہیں اور اس کا نقصان خود ریاست پاکستان کو ہوتا رہا ہے۔ اگر شروع دن سے گلگت بلتستان کوواضح پالیسی کے تحت چلایا جاتا تو آج شاید عالمی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ کوئی شاہ محمود قریشی،سرتاج عزیز یا پھر حناربانی کھر نہیں بلکہ خالد خورشید، حفیظ الرحمن یا پھر مہدی شاہ لڑرہے ہوتے۔

ماضی کے بھول بھلیوں میں گئے بغیر تحریک انصاف کی حکومت کو یا پھر وزراء کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ تقاضوں کو پورا کرکے آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اہم فورم تک پہنچنے کے بعد وزراء کی ٹیبل پر آکر معاملہ التواء کا شکار ہوا ہے، یہ التواء وقت گزاری کا نہیں بلکہ اس پر مزید کام کرنے کا ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی سے جس وقت عبوری صوبے کی قرارداد منظور ہورہی تھی اس روز سپیکر جی بی اسمبلی سید امجد علی زیدی کو جان بوجھ کر بھگایا گیا تاکہ نذیر ایڈوکیٹ قرارداد کی ووٹنگ پر نہیں رہے بلکہ اسمبلی اجلاس کی صدارت کرے۔ چونکہ اسمبلی میں سپیکر اس وقت تک ووٹنگ میں حصہ نہیں لیتا ہے جب تک قرارداد پر ووٹ برابر نہ ہوں، تب سپیکر کا ووٹ حتمی ہوجاتا ہے، اسی لئے نذیر احمد ایڈوکیٹ کو صدارت کے لئے بھیجا گیا جس کے باعث قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی ورنہ شاید متفقہ منظور نہیں ہوتی۔

تحریک انصاف کی حکومت کو تقاضے پورے کرنے کا کریڈٹ ضرور مل رہا ہے لیکن قرارداد منظور ہونے سے لیکر اب تک تقریباً ایک سال مکمل ہوگیا ہے وزیراعلیٰ نے اپنے کابینہ کو نہ صرف اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا ہے بلکہ ان سے گفت و شنید تک نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعلیٰ جب جب اسلام آباد جاتے واپسی پر کابینہ کو بریف کرتے اور کم از کم حکومتی اراکین پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بناتے جو بوقت فروغ نسیم کی کمیٹی میں پیش ہوتے اور اپنا مدعا پیش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور تمام وزراء کے سامنے حتمی ڈرافٹ اچانک آگیا۔ٹرانزیشنل پلان کے لئے کمیٹی قائم ہونا ہی اس امر کی دلیل ہے کہ تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 2009 میں پیپلزپارٹی کے صدارتی آرڈر کے وقت بھی ایک ٹرانزیشنل پلان بنا تھا مگر وہ پلان جی بی پہنچنے تک دو مہینے لگ گئے اور اس پلان میں جی بی کا کوئی فرد واحد بھی نہیں تھا۔

مسلم لیگ ن اس معاملے میں مکمل طور پر خاموش ہیں لیکن پیپلزپارٹی عبوری صوبے کے حوالے سے جس عجلت کا مظاہرہ کررہی ہے وہ حیران کن ہے۔ پیپلزپارٹی کے صدر امجد ایڈوکیٹ صاحب ایک زمانے میں متنازعہ حیثیت کی بحالی کے لئے جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کرچکے تھے، پھر کبھی متنازعہ کہنے والوں کو غدار قرار دیا پھر حق حاکمیت اور حق ملکیت پر عجیب و غریب سی تحریک شروع کردی، جہاں کبھی حق حاکمیت سے دستبردار ہوتے رہے پھر کبھی حق ملکیت سے دستبردار ہوتے رہے۔ اسلام آباد سے بذریعہ شاہراہ قراقرم پہنچنے والی خبروں کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے عبوری صوبے کے لئے متعین کمیٹی کی پہلے اپوزیشن اراکین سے ملاقات ہوئی اور اس ملاقات کا دورانیہ محض دستخط کرنے تک کا رہا ہے، اس دستخط میں نہ کوئی حق حاکمیت تھی نہ کوئی حق ملکیت تھی اور نہ ہی کچھ اور تھا۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ نے غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ سارے معاملات فائنل ہوچکے ہیں اب کمیٹی کی بھی ضرورت نہیں ہے اور جی بی اسمبلی کے اجلاس کی بھی ضرورت نہیں ہے صرف اعلان ہونا چاہئے، لیکن اگلے روز جب اجلاس شروع ہوا تو اس میں پیپلزپارٹی کی سیکریٹری اطلاعات اور رکن اسمبلی سعدیہ دانش تشریف فرما تھی اور ممکن ہے کہ اپنی تجاویز کو پیش کی ہوں گی۔

جی بی کو اب تک بغیر کسی فریم ورک میں رکھنے کا نقصان دونوں جانب ہوا ہے۔ گلگت بلتستان میں سیاسی نرسری پیدا نہیں ہوسکی۔ سیاسی نرسری نہ بننے کی وجہ سے قیادت کا فقدان رہا۔ قیادت نہیں ہونے کی وجہ سے غیر معمولی معاملات میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کہیں پر بھی نہیں ہوسکی۔بنیادی ضروریات اور انفراسٹرکچر کے علاوہ بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن پر سرے سے کوئی کام ہی نہیں ہوسکا ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے حالیہ دنوں جی بی کے عوام کو اپنی زمینوں کا تحفظ کرنے کی جو ہدایت کی تھی اس کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی کہ یہاں پر ملکیتی زمینیں لوگوں کی نہیں ہے بلکہ محکمہ مال والوں کی ہے۔ جی بی کے چند اضلاع کے علاوہ کسی ضلع کا بندوبست مکمل نہیں ہے۔ اس وقت گلگت کی محض ایک کلومیٹر کے رقبے پر چار علاقوں کا دعویٰ ہے اور حکومت یا کوئی ایسی مشینری نہیں ہے جو اس تصفیہ کا حل سامنے لاسکے۔ رواجی قوانین اور ملکی قوانین کہیں پر متصادم ہیں تو اس کا کوئی ٹھوس حل نہیں ہے سوائے احتجاج کے۔

دیامر کے جنگلات پر روز اول سے باقی اضلاع کی حسد رہی ہے کہ وہاں تو جنگل لوگوں کا اپنا ہے لیکن باقی علاقوں کے جنگل سرکار کے ہوگئے ہیں، یہی وہ مقام تھا کہ جس میں دیامر کے لوگوں نے تحریری ضمانت مانگی تھی اور آج دیگر کے مقابلے میں مزے کررہے ہیں۔آج وہ مرحلہ ضرور پہنچا ہے کہ دیگر اضلاع کے جنگل پر سوال کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے علاقائی زبانوں کا مستقبل پنڈولم کی طرح جھول رہا ہے، انہیں نہ نصاب میں شامل کرنے کو کوئی تیار ہے اور نہ ہی کسی لسان شماری میں ان کو شمار کیا جاتا ہے۔عبوری صوبہ بن رہا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا لازمی جزو ہے پھر کیا یہاں پر کسی بھی دوسرے صوبے کی طرح 1951کا سٹیزن ایکٹ لاگو رہے گا پھر استصواب میں شامل ہونے والوں کو الگ کون کرے گا؟مسئلہ محض گندم سبسڈی یا ٹیکسز کا نہیں ہے بلکہ شناخت کا ہے۔ گلگت بلتستان کی سرحدوں کا سوال ہے جو آج بھی جہاں سے موقع مل رہا ہے وہاں سے غیر محفوظ ہوکر سکڑرہی ہیں۔مسئلہ یہاں پر اس مفاد کا ہے جس کے تحت لوگوں میں تقسیم پیدا کی جاتی ہے۔ مسئلہ ان متاثرین کا ہے جو 1948میں اپنی زمینیں حکومت پاکستان کو دینے کے بعد آج تک دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔

مسئلہ بین الاقوامی مصدقہ و تسلیم شدہ حقوق کا ہے جو ایک قطرہ پانی سے لیکر ایک مٹھی مٹی تک اور ایک پتھر تک ہے۔مسئلہ رانا شمیم جیسے ججز کا ہے جو کنٹریکٹ ملازمت پر حکومت پاکستان سے پنشن بھی لیتے ہیں اور اپنے مفاد کے لئے اس علاقے کو پاکستان سے باہر تصور کرتے ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ سپریم اپیلٹ کورٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟ اگر اس کو ختم کردیا گیا تو کتنے مہینوں کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی معزز جج کا دیدار ہوگا؟اور کیا یہ ملازمت پیشہ علاقہ سپریم کورٹ کے وکلاء کے پاس بھاری فیس کے عوض کیس لڑے گا۔ تاریخی حوالوں کا سوال لٹکا ہوا ہے جن کا جواب کسی فرد نے نہیں بلکہ ریاست پاکستان نے دینا ہے اور وضع کرنا ہے۔ مسئلہ جی بی کی اسمبلی کا ہے جس کا اجلاس ہی فرمائشی طور پر بلایا جاتا ہے اور بغیر کسی وجہ کے غیر اعلانیہ مدت تک ملتوی ہوتا ہے۔ مسئلہ اختیارات کا ہے جس میں چیمپیئنز خفیہ معاہدے کررہے ہیں۔مسئلہ ڈومیسائل کا ہے جس کی کوئی تعریف و توضیع نہیں ہے۔

مسئلہ فرقہ واریت کا ہے جو بوئی گئی ہے۔مسئلہ تاریخ کا ہے جسے مسخ کردیا گیا ہے۔ مسئلہ ثقافت اور رواج کا ہے جو جرم بن چکا ہے۔تحریک انصاف کے رکن و ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈوکیٹ، وزیر خزانہ جاوید منوا، وزیر قانون سہیل عباس،وزیر صحت حاجی گلبر خان، وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حاجی شاہ بیگ سمیت جس جس نے فورم پر آواز بلند کی ہے ان تمام رہنماؤں کو سلام ہو، جنہوں نے آفت زدہ صورتحال پر ٹھہراؤ لایا ہے اور سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے اور عجلت کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔
ایسا نہ ہو کہ عبوری صوبہ بھی کل صفیہ چوہدری کے شعر کی طرح چیخ اٹھے
میں چیخ رہا تھا کہ ابھی عیب ہیں مجھ میں
جب چاک سے عجلت میں اتارا گیا مجھ کو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے