2015 کی بات ہے قریب دو درجن اردو اخبارات و جرائد میں ایک خبر چھپی، جس کا موضوع تھا "ایان علی کا مولانا طارق جمیل سے رابطہ”. یہ خبر کیا تھی الف لیلی کی ایک داستان تھی! جس میں ایک سپر ماڈل کا ایک مولانا کے ہاتھ پر تائب ہونا اور رونا دھونے کا بیان کیا گیا تھا . آئیے آج اس قصے کی حقیقت میں اآپ کو بتاتی ہوں .
یہ اُن دنوں کی بات تھی جب ہم لاہور، کراچی، اسلام آباد میں اپنے خلاف قائم ان گنت جعلی مقدمات بھگت رہے تھے اور اس سلسلے میں تقریباً ہر روز ہوائی سفر کر تے تھے.ایک دن ہم لاہور Airport پر فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک نوجوان نے ہماری سیکیورٹی سے ہم تک رسائی چاہی .یہ نوجوان چہرے سے مذہبی رجحان کا حامل دکھائی دیتا تھا. ہم خود کیونکہ مذہب کی جانب مائل ہیں اور دینی لوگوں کا احترام کرتے ہیں لہذا ہم نے سیکیوریٹی سے اس نوجوان کو آگے آنےکی اجازت دینے کا کہا .
اس نوجوان نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ مولانا طارق جمیل کے قریبی دوست اور معتقد ہیں .اس نوجوان نے بغیر وقت ضائع کیے بتایا کہ یہ اُس کی خوش قسمتی ہے کہ اُس کی ہم سے ملاقات ہو گئی . نوجوان کے مطابق اُس نے مولانا طارق جمیل کو کئی مرتبہ ہمارے لیے زار و قطار دعائیں مانگتے دیکھا ہے اور یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے، اللہ تعالی اس کی مشکلیں آسان فرمائے.
سچ پوچھیے تو ایک ایسے وقت میں جب ہمارے خلاف غلیظ ترین کردار کشی کی مہم ایک قومی مشغلہ بن گیا تھا، یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کوئی عالمِ دین ہمارے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے. ہم نے اس نوجوان سے کہا کہ جب بھی اُس کی مولانا سے ملاقات ہو وہ اُن کا ہماری جانب سے بے حد شکریہ ادا کرے .جواباً اُس نوجوان نے کہا کہ مولانا اِس وقت حرمین شریفین میں ہیں اور اگر ہم چاہیں تو وہ اُن سے فون پر بات کروا سکتا ہے تاکہ ہم خود اُن کا شکریہ ادا کریں اور اپنے لیے دعا کا کہیں.
ہم پہلے ہی مذہبی جذبات سے مغلوب تھے . فورا حامی بھر لی . اُس نوجوان نے کوئی نمبر ملایا مگر وہ Attend نہ ہوا . اِس پر اُس نوجوان نے ایک ٹیکسٹ میسج کے ذریعے مولانا کو آگاہ کیا کہ وہ اس وقت ہمارے ساتھ ہے.
ٹیکسٹ میسج جانے کے قریب نصف منٹ کے اندر اندر مولانا کی کال آ گئی. اُس نوجوان نے فون ہمارے حوالے کیا تو ہم نے مولانا کا غائبانہ دعاؤں کے لیے شکریہ ادا کیا اور مزید دعاوؤں کی درخواست کی .جواباً مولانا نے بتایا کہ ہم مسلسل اُن کی دعاؤں میں شامل ہیں اور وہ ہمارے انتہائی خیر خواہ ہیں.
اس کے بعد مولانا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ حرمین شریفین سے واپسی پر مجھ سے کراچی میں ملاقات کریں . میں بنیادی طور پر Introvert ہیں اور زیادہ Socializing کے عادی نہیں ہوں ، اس لیے مولانا سے کوئی وعدہ کرنے کی بجائے محض انشاء اللہ کہنے پر ہی اکتفاء کیا. مگر مولانا اس انشاء اللہ پر راضی نہ ہوئے اور ملاقات کے لیے پُر زور اصرار کیا . ہم نے Courtesy میں کہا کہ چلیں آپ واپس آئیں گے تو ہم Coordinate کر لیں گے،مگر مولانا اس پر بھی راضی نہ ہوئےاور اصرار کیا کہ آپ اپنا نمبر دیں ہم Coordinate کریں گے.کیونکہ فلائٹ کا وقت قریب تھا اور میں نے اپنے ایک Staff کا نمبر دے دیا اور عازمِ سفر ہو گئے.
دھچکا ہمیں اگلے روز لگا جب یہ مختصر نجی گفتگو انتہائی ڈرامائی انداز میں کئی اخبارات کی زینت بنی . اخبارات میں چھپنے والی خبر کے مطابق ہم مولانا سے گفتگو کے دوران اشک بار رہے، توبہ کرتے رہے اور اپنی نمازوں روزوں اور تلاوت کا حساب دے کر خود کو اچھا مسلمان ثابت کرتے رہے.یہ مکمل لغو، جھوٹ و من گھڑت کہانی تھی جس کا Source واضح تھا. ہم توبہ کے لیے کسی مولانا کے طلب گار نہ تھے اور نہ ہیں .
میں نے مولانا کو ایک مذہبی شخصیت جان کر احترام ضرور دیا تھا مگر انہوں نے اسے ایک بے ڈھنگی Self Projection & Marketing کے لیے استعمال کیا. ان کا یہ طرز عمل Classic. Evangelists سے مشابہت رکھتا تھا جو صدیوں سے مذہبی جذبات سے مغلوب لوگوں کا اپنی ذات کے لیے استحصال کرتے آئے ہیں.
اس واقع کے کچھ ہفتے بعد مولانا حرمین شریفین سے واپس پاکستان تشریف لائے اور پھر ہمارے Staff کے نمبر پر اُن کی کالوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا. تب تک ہم مولانا سے بد ظن ہو چکے تھے لہذا کچھ عرصہ ٹال مٹول کی اور پھر مجوراً اُن کا نمبر Block کرنا پڑا . ہمیں Personally جاننے والے جانتے ہیں کہ علماء کے لیے ہمارے دل میں ایک خاص احترام ہے جس کا اظہار ہم گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں.
مولانا کے ہمارے بابت رویے کے باوجود ہم نے اُن کا بطور عالم احترام ملحوظ خاطر رکھا اور اُن کے خلاف ٹرولنگ ہوتی دیکھ کر اُن کا ساتھ بھی دیا.
اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم اس مسند کی تضحیک نہیں چاہتے تھے جس پر مولانا براجمان تھے. مگر آج جب انہوں نے ایک ایسے شخص کی حمایت میں کذب بیانی کی جو اپنی سیاست میں اسلام کا توہین آمیز استعمال جائز سمجھتا ہے تو وہ اس مسند سے خود ہی برخاست ہو گئے. جس کا اعلان تبلیغی جماعت نےبھی کر دیا ہے.
اب مولانا کی کرم فرمائیوں سے قوم خصوصاّ خواتین کو آگاہ کرنا ضروری ہے. افسوس کہ حبِ جاہ، نمود و نمائش اور بادشاہوں کے قرب نے ایک عالم کا یہ انجام کیا . شاید اسی لیے امامِ اعظم نے علماء کو ان فتنوں سے دور رہنے کے لیے کہا تھا. اللہ رب العزت ہم سب کو آزمائشوں سے دور رکھے آمین