نوجوان لڑکی ہی مسلمان کیوں ہوتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال کئی ایسی خبریں سننے میں آتی ہیں کہ کسی غیر مسلم نوجوان لڑکی نے اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان سے شادی کی اور ان خبروں میں کے بعد عموما ایک جیسا ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس میں لڑکی کا خاندان جبری اغوا کا الزام عائد کرتا ہے، عموما لڑکی کے متضاد بیانات ملتے ہیں اور لڑکے والے اسے اسلام کی کامیابی سے گردانتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ہی اپنا مذہب تبدیل کرتی ہے اور وہ مسلمان لڑکے سے شادی کر لیتی ہے اور پھر ایسی شادیوں کا مستقبل کیا ہوتا ہے؟ کوئی پورا خاندان یا مرد کیوں مذہب تبدیل نہیں کرتے؟ ان واقعات کی بنیاد پر ایسے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن میں چند سوال یہ بھی ہیں کہ کیا یہ نوجوان بچیاں دونوں مذاہب کے مطالعے کے بعد اپنا مذہبی رجحان تبدیل کرتی ہیں یا پسند کی شادی کرنے کیلئے مذہب تبدیل کیا جاتا ہے؟

معاشرتی مسائل انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں یا پھر جبرا مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے؟ یہ چند بنیادی سوال ہیں جو اس صورتحال میں جنم لیتے ہیں۔حال ہی میں بونیر میں مذہب تبدیلی کے بعد شادی کا ایک واقعہ پیش آیا جس کی بنیادی وجہ لڑکی کی دماغی حالت ٹھیک نہ ہونا بتایا جا رہا ہے تاہم کچھ دیگر واقعات قابل ذکر ہیں۔

جن میں مارچ 2012 سندھ کے ضلع گھوٹکی اور جیکب آباد میں پیش آنے والے واقعات ہیں کہ جن کے مطابق ضلع گھوٹکی کی رنکل کماری اور جیکب آباد کی رہائشی ڈاکٹر لتا نے مذہب تبدیل کرتے ہوئے شادیاں کیں تو ان کے اہلخانہ کے مطابق ان کو اغوا کر ان سے زبردستی شادیاں کی گئیں اور جبراّ ان کے بیانات ریکارڈ کروائے گئے جن کو بعد ازاں ٹی وی پر بھی نشر کیا گیا تھا۔

تاہم ڈاکٹر لتا جو اب ڈاکٹر حفصہ کہلاتی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ انکی شادی 2011 میں نادر بیگ سے ہوئی جس میں ان کی مرضی اور پسند شامل تھی۔ جس کے بعد ڈاکٹر لتا کے اہلخانہ نے شدید دبائو ڈالا تاہم انہوں نے کہا کہ وہ عاقل، بالغ، تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں۔

انہوں نے سوچ سمجھ کر پہلے اسلام قبول کیا اور نوجوان انجینئر نادر بیگ سے اپنی پسند سے شادی کی جبکہ ڈاکٹر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ سب ہوس پرستی کی عکاسی ہے اور نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے مسلمان بنایا جاتا ہے۔ بوڑھی عورتوں اور مردوں کو مسلمان کیوں نہیں بنایا جاتا؟

اسی طرح رنکل کماری عرف فریال بی بی نے سندھ کے علاقے میرپور ماتھیلو کے بااثر آدمی نوید شاہ سے شادی کی تھی جس پر رنکل کماری کے ماموں راج کمار نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ رنکل کماری کو نوید شاہ نے اغوا کیا اور لڑکی کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔

رنکل کماری

اس کیس میں پہلے پہل تو لڑکی نے عدالت میں کہا اسےدارالامان جانا ہے اور نہ ہی مسلمان ہونا ہے لیکن بعد ازاں رنکل کماری نے مجسٹریٹ اور میڈیا کے سامنے کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نوید شاہ سے پسند کی شادی کی۔ تاہم رنکل کا خاندان یہ الزام عائد کرتا رہا کہ نوید شاہ کو گدی نشین سابق رکن (اسوقت موجوہ رکن) قومی اسمبلی میاں عبدالحق کی سرپرستی حاصل ہے اور اس نے رنکل کو اغوا کر کے جبری شادی کی ہے۔تاہم سندھ ہائی میں بھی لڑکی کا یہی موقف رہا کہ اس نے پسند کی شادی کی ہے۔ اس کے بعد دارالامان میں اپنی ماں سے ملاقات پر بھی لڑکی کا موقف یہی رہا۔

ایک اور قابل ذکر واقعہ میگھوار کی انجلی کا ہے جس کا موجودہ نام سلمی ہے۔ جب اس کے ساتھ پیش آیا تو لڑکی کے والدین نے جبری شادی کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت میں سرٹیفکٹ پیش کیا تھا جس کے مطابق انجلی کی عمرساڑھے گیارہ سال تھی۔

جس پر عدالت نے اسے کراچی کے دارالامان بھیجنے کا حکم دیا اور پھر 2015ء میں سندھ ہائی کورٹ کے سامنے انجلی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اب وہ اٹھارہ سال کی ہے، اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ریاض سیال سے بخوشی شادی کی ہے۔

وہ اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ جس پر عدالت نےسلمی (انجلی) کو والدین سے ملاقات کروانے کے بعد اسے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اس موقع پر سندھ کے کئی شہروں میں میگھواڑ برادری نے احتجاج کرتے ہوئے اس بات پر شکوہ کیا تھا کہ ’’ہندو اراکان اسمبلی جو اکثر اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ، دلتوں سے زیادتی پر خاموش رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ حیدر آباد کی رویتا میگھوار، گھوٹکی کی دو بہنوں ارینا اور روینا، مسیحی لڑکی آرزو راجہ کی بھی اسی سے ملتی جلتی کہانیاں ہیں۔

[pullquote] پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار [/pullquote]

مذہب تبدیلی اور جبری شادیوں کے الزامات پر جب قومی رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار سے وجوہات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا قانون تو بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں قانون پرعمل درآمد نہیں ہوتا۔ انہوں نے کچھ بنیادی نکات کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ہندو برادری میں جہیز کی لعنت بہت زیادہ ہے اور جہیز نہیں ہونے کی وجہ سے سینکڑوں لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی اور وہ گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجاتی ہیں۔

پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار

اس کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ ہندو مذہب میں ذات پات کا ہے۔ اُونچی ذات کا ہندو نچلی ذات کے ہندو سے شادی نہیں کرتا جس کے باعث برادری میں شادی نہیں ہو پاتی اورپھر ایسے مسائل کیوجہ سے ہندووں لڑکیوں کے بھاگ کر شادی کرنے کے رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔

ڈاکٹر رمیش کے مطابق ہندو برادری میں پنچائت کی بڑی اہمیت ہے لیکن پنچائت بھی ابھی تک اہم معاملے پر کوئی حکمت عملی نہیں بنا سکی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پنچائت بغیر جہیز کے بغیر شادیاں کراونے کا فیصلہ کرے تو نصف سے زیادہ مسائل فوری حل ہو جائیں گے۔

اس لئے جب اس قسم کے گھمبیر مسائل ہوں گے تو پھر ان ہندو نوجوان لڑکیوں میں بغاوت پیدا ہونا فطری عمل ہے اور وہ اپنے نام نہاد اصولوں اور ضابطوں کو توڑ دیتی ہیں اور مذہب تبدیل کر کے شادیاں کرتی ہیں۔ ڈاکٹر رمیش کا ماننا ہے کہ حیرت انگیز طور پر مذہب تبدیل کر کے ہونے والی شادیاں کامیاب رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی لڑکی اپنا مذہب تبدیل کرتی ہے تو اسے شادی بھی کرنی پڑتی ہے کیونکہ انھیں معاشرے میں جینے کے لئے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے پاس شوہر کے سہارے علاوہ کوئی دوسرا اپشن باقی نہیں رہتا.

[pullquote]تبدیلی مذہب کے بعد شادی کی کیا عمر مقرر کی گئی ہے؟[/pullquote]

علمائے کرام اور قانونی ماہرین کے مطابق جب لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح ہو سکتا ہے۔ اگر کم عمری میں بھی نکاح کیا گیا ہو تو رخصتی اسی وقت ہوگی جب لڑکی بالغ ہوگی۔ طبی حوالے سے تو 13،14 سال کی لڑکی بالغ ہوجاتی ہے تاہم ملک کے مروجہ قانون کے مطابق بلوغت کی عمر 18 سال مقرر ہے۔ اس لئے اس سے کم عمری میں نکاح نہیں ہو سکتا۔

[pullquote]18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی سے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟[/pullquote]

چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کے مطابق 18 سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکا شادی نہیں کر سکتے۔ اس کی خلاف ورزی کی سزا 2 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے اور خلاف ورزی میں معاونت کرنے والوں کو بھی دو سال کی سزا ہوسکتی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کہتے ہیں اسلام قبول کرنے کےلیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے تاہم جبراً کسی کا مذہب تبدیل نہیں کروایا جاسکتا۔

ان کا ماننا ہے کہ شرعی طور پر اس سے 18 سال سے کم عمر لڑکی سے نکاح ہوسکتا ہے لیکن رخصتی ملکی قانون کے مطابق 18 سال کی عمر پوری ہونے پر ہی ہو سکتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جس طرح کسی کو جبراً مسلمان نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح جبراً کسی کو اسلام قبول کرنے سے بھی نہیں روکا جا سکتا۔

چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اسلام میں جبری شادی اور جبری مذہب کی تبدیلی کی کوئی اجازت نہیں اور جبر کے ساتھ نکاح واقعہ ہی نہیں ہوتا۔

چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی

پاکستان میں مذہب تبدیل کر کے شادی کرنے کے حوالے سے سینٹر فار سوشل جسٹس کے اعداد و شمار بتائے ہیں کہ 2013 سے 2020 تک 162 لڑکیوں نے مذہب تبدیل کر کے شادی کرنے کے واقعات سامنے آئے اور سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جن کا تناسب 51.85 فیصد ہے، سندھ میں ہونے والے واقعات کا تناسب 43.83 فیصد، 1.23 فیصد کا تعلق وفاق سے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں مذہبی تبدیلی کا ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

اس کے ساتھ جس مذہب کے افراد نے سب سے زیادہ اسلام قبول کیا وہ ہندو ازم ہے جبکہ عیسائی دوسرے، سکھ تیسرے اور کیلاشی چوتھے نمبر پر ہیں۔سینٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق پاکستان میں بسنے والی ہندو اور عیسائی برادری کی طرف سے سب سے زیادہ جبری مذہب تبدیلی اور جبری شادی کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ سندھ میں ہندو جبکہ پنجاب میں مسیحی لڑکیاں مذہب تبدیل کرکے پسند کی شادی کرلیتی ہیں۔

[pullquote]مذہبی تبدیلی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں[/pullquote]

انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ انہیں جبری تبدیلی مذہب کی بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ہندو کارکنان کے مطابق ایسی شکایات کی تعداد ہزاروں میں ہے تاہم آزاد ذرائع کے خیال میں یہ شکایات سینکڑوں میں ہو سکتی ہیں اور اس طرح کے زیادہ واقعات سندھ میں رونما ہوئے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز ن

جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ ’پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں اور کچھ ادارے ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایسے بہت سے افراد جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں، انہیں بلا کر انٹرویوز کیے جس میں بالکل مختلف حقائق سامنے آئے ہیں۔ جن لڑکیوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے کہا کہ ان پر کوئی جبر نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن کپل دیو کا کہنا ہے کہ صرف جوان لڑکیاں ہی اسلام کی تعلیمات سے کیوں متاثر ہوتی ہیں؟ بڑی عمر کی عورتیں اور مرد متاثر کیوں نہیں ہوتے؟انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والی لڑکیاں بیٹی اور بہن کیوں نہیں بنتیں صرف بیویاں کیوں بنتیں ہیں؟

[pullquote]ہندو کیا چاہتے ہیں؟[/pullquote]

ہندو چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہب کی تبدیلی کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے، ایک طریقہء کار وضع ہونا طاہئیے جس کا اطلاق ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں پر ہونا چاہئیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے