ایک سال میں 5 خواتین کو قتل کر کے خودکشی کا رنگ دیا گیا۔

ضلع غذر کے گاوں سنگل میں جماعت دہم کی 16 سالہ طلبہ ریحانہ( فرضی نام )کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر کے خودکشی کا رنگ دیا گیا ۔

ایس پی غذر شاہ میر کے مطابق جنوری 2022 سے ستمبر 2022 کے درمیان 21 خودکشی کے واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں جس میں پولیس تفیش اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں 5 قتل کیس سامنے آئے ہیں۔

قتل کرنے والے افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس سے مزید تحقیقات جاری ہے۔

مرحومہ سکینہ ساکن ہاتون کے والدہ جمیلہ بیگم نے بتایاکہ ان کی بیٹی جو دو بچوں کی ماں تھی کو ان کے شوہر نے اپنے ہی کمرے میں معمولی بات پہ تکرار کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کیا اور ہمیں اطلاع دی گئی کہ آپ کی بیٹی سکینہ( فرضی نام) نے خود کشی کر لی ہے۔

چند منٹ پہلے ہی بیٹی کے ساتھ موبائل فون پہ بات ہوئی تھی جو کچھ دن کے لئے ہمارے پاس آنے کا کہہ رہی تھی اور یہ کہہ کر کال کہ میں کپڑے پیک کر رہی ہوں ابھی اپ کے طرف نکلنے والے ہیں لیکن کچھ ہی دیر کے بعد ہمیں یہ بتایا گیا کہ سکینہ اب دنیا میں نہیں رہی اس کیس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور ہم انصاف کے طلبگار ہے۔

صرف سکینہ ہی نہیں بلکہ بہت ساری خواتین کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کا رنگ دے کر کیس کو دبایا جاتا ہے ۔ اسی طرح تحصیل یاسین میں بھی دو خواتین کو گھریلوں جھگڑے کے بعد قتل کر کے خودکشی ظاہر کی گئی۔

یاسین میں ساس سسر کی تشدد کے بعد 30 سالہ فریدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کا رنگ دیا گیا ۔۔

[pullquote]والدین کیا کہتے ہیں [/pullquote]

گاوں داماس سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ نوجوان کریم شاہ نے گھر سے باہر درخت میں رسی ڈال کر خودکشی کی ۔25سالہ نوجوان کریم شاہ کے والد نذر شاہ نے بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے کو کراچی میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا تھا کرونا وبا کے بعد بیٹا گھر آیا اور یہاں پر تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھ رہا تھا .

میرے گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی اپنی جمع خرچ بیٹے کی تعلیم پر صرف کیا مگر اج بیٹے نے ہمیں یہ تحفہ دیا بڑھاپے میں ہمارا سہارا بننے کے بجائے خودکشی کر بیٹھے جو کہ ہمارےلئے ناقابل بیان صدمہ ہے.

حکومت اس لعنت سے آج کل کے بچوں میں شعوربیدار کرے اور خودکشی حرام ہے اس کے روک تھام کے لیے عملی اقدامات اٹھا ئے .

[pullquote]محکمہ پولیس گلگت بلتستان کا موقف [/pullquote]

اسی طرح جنوری 1978 سے اکتوبر 2022 تک ضلع غذر میں 321 خودکشی کے واقعات رونما ہوئے جس میں جس میں 137 مرد اور 175 خواتین شامل ہے.

ان خودکشی کے واقعات میں اب تک کے تحقیقات کے مطابق 11 قتل دوران تفیش سامنے آئے ہیں 94 مرد و خواتین نے گھریلوں تنازعات اور تشدد سے تنگ آکر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی جان لے لی۔

غربت سے تنگ اکر 8 افراد نے۔بیروزگاری سے دلبرداشتہ ہوکر ایک فرد نے ۔معاشرتی دباو سے 4افراد نے۔ذہنی تناو سے 100 افراد نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی جینے والے 10 افراد نے ڈپریشن میں مبتلا 11 افراد نے ۔

محبت میں ناکامی سے 9 افراد نے اور امتحانات میں فیل ہونے پر بھی 9 افراد نے ذہنی طور پہ اپ سیٹ 12 مردو خواتین نے نفسیاتی 15 مریضوں نے اور نامعلوم وجوہات کے بنا پر 16 افراد نے خود اپنی ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ۔

خودکشی کی کوشش کرنے میں ناکام ہونے والی اشکومن سے تعلق رکھنے والی 32 سالہ نیت زرین نے بتایا کہ میری شادی مجھ سے پوچھے بغیر طے کی گئی تھی میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی.

پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھا تھامگر میرے گھر والوں نے شادی کی تاریخ مقرر کر کے مجھے اطلاع دی شادی سے چھٹکارا پانے کے لئے میرے پاس خودکشی کرنے کے لئے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔

امان علی ساکن یاسین کی منگیتر تبسم نے بھی چاچا زاد کزن کے ہراساں کرنے پر خودکشی کی ۔امان علی نے بتایا کہ تبسم کی رضا مندی سے مجھ سے منگنی ہو چکی تھی .

منگنی کے بعد مجھےایک نامعلوم نمبر سے کال آئی اور دھمکی دی گئی کہ تبسم سے علیحدگی اختیار کرے وہ میری پسند پے جس پر گھر میں کافی ہنگامہ ہوا اور اسی لڑائی جھگڑے سے دلبرداشتہ ہوکر تبسم نے خود کو فائر کر کے ہمیشہ کی نیند سلا دیا ۔

غیر سرکاری تنظیم ماں فاونڈینشن گلگت بلتستان کی چئیرپرسن یاسمین افضل نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں خودکشی کے زیادہ تر واقعات پسند کی شادی نہ ہونے پر کی جا رہے ہیں.

اس حوالے سے ہم اپنی ٹیم کے ہمراہ ضلع غذر کے مختلف گاوں کا دورہ کیا اور وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی جس میں 30 مردوخواتین نے پسند کی شادی نہ ہونے پر خودکشی کی اور 6 خواتین نے گھریلوں جھگڑے کے باعث خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں.

بچوں کو اعلی تعلیم دلوانے کے بعد معمولی بات پر خودکشی کسی مسئلے کا حل نہیں والدین کو چائیے کہ وہ اپنے بچوں کی پسند سے شادی کروادیں تو کسی حد تک نوجوانوں میں خودکشی جیسی لعنت میں کمی آسکتی ہے اور اس کے لئے حکومتی سطح پر اسکول،کالجز ،یونیورسٹی، مساجد اور جماعت خانوں میں شعور و اگاہی کے سیشن دینے کی ضرورت ہے۔

خودکشی کے واقعات نہ صرف ضلع غذز میں بلکہ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں بھی خودکشی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔

اس حوالے سے محکمہ پولیس گلگت کی ایک رپورٹ کے مطابق 1978 سے لے کر 2022 ستمبر تک 412 مردوخواتین خودکشی کر چکے ہیں جن میں ضلع گلگت میں 31 خواتین اور 46 مردوں نے ضلع ہنزہ میں 15 مرد 13 خواتین ضلع دیامر میں 2مردو خواتین نے ضلع سکردو میں 15 مرد 6 خواتین نے ضلع شگر میں 4 مرد 2 خواتین خود کشی کر چکے ہیں ۔

[pullquote]وویمن پولیس سٹیشن غذر[/pullquote]

ایس ایچ او ویمن پولیس غذر عید نما کے مطابق ضلع غذر میں گھریلو تشدد کی شکار اور ڈپریشن اور محبت میں ناکامی کے بعد خواتین خودکشی کرنے پر مجبورہوجاتی ہیں ۔

گھریلو تنازعات اور گھریلو تشدد سے دلبرداشتہ ہوکر 15 شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا جبکہ ڈپریشن کی شکار 5 سے زائد غیر شادی شدہ نوجوان لڑکیوں نے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا.

انہوں نے مزید بتایا کہ م ج زوجہ ن خ 2012 میں گھریلوں تنازعات سے تنگ آکر زہر کھا کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا 22سالہ ن ولد پیر مدد شاہ نے زبردستی کی شادی سے دلبرداشتہ ہوکر گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرنے کی کوشش کی30 سالہ ن بانو زوجہ ایم نادر نے گھریلوں جھگڑے سے تنگ آکر2012میں زہر کھا ابدی نیند سو گئی۔

20 ن ولد ایم نبی نے بھی گھریلوں جھگڑے سے تنگ آکر2013 زہر کھاکر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا ،
30 سالہ مسماتہ زوجہ ع وکیل نے بھی گھریلوں تنازعات کے باعث2014 میں ز کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ،
32 سالہ ک ولد آر دین نے بھی گھریلوں جھگڑے سے تنگ آکر دریا میں کود کر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا ،
24 طالبہ چ ولد صاحب غلام نے بھی گھریلوں جھگڑے سے تنگ آکر زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ،
21 سالہ ح زوجہ ہمت ولی ذہنی دباؤ میں آکر خود خو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ،
25سالہ س قربان زوجہ نعیم جان نے بھی گھریلوں جھگڑے سے تنگ آکر زہر کھا نے پر مجبور ہوگئی جبکہ 30 سالہ گ ولد شمشیر خان ڈپریشن کی مرض میں مبتلا تھی گلے میں پھنڈا ڈال کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا.
16طالبہ سالہ کوثر ولد نور اسلام نا معلوموجوہات کی وجہ سے زہر کھا کر ابدی نیند سو گئی ،
30سالہ نسیمہ ولد محمد جان ڈپریشن میں مبتلا تھی نے دریا میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ،
14سالہ کلثوم ولد علی مدد نے بھی گھریلوں جھگڑے سے تنگ آ کر ( گولیاں جو زیادہ مقدار میں کھانے سے موت واقع ہوتی ہے) کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا،
20سالہ طالبہ مسماتہ ح ولد سمد خان نے بھی ذہنی دباو میں مبتلاتھی زہر کھانے پر مجبور ہوگئی،
25سالہ درزن س ولد صفت خان بھی ذہنی دباو میں تھی نے Red pills کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا،
22سالہ ر زوجہ فیروزخان نے بھی ذہنی پریشانی میں مبتلاہوکر Red Pills کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ،
30 سالہ س زوجہ محمد حسین نے بھی نامعلوم وجوہات کے بنا پر زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ،
30 سالہ ا زوجہ سید روزمن شاہ، 30 سالہ میرانہ زوجہ اختر حسین، 15سالہ وشمہ ولد احمد جان نے بھی گھریلوں تشدد سے تنگ آکر زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ،
30سالہ فرحانہ ولد شیر اکبر خان ، 30سالہ نازنین ولد نیت جان ، 32 سالہ نسرت بٹ زوجہ ذولفقار علی ، 25سالہ صائمہ زوجہ محمد ساجد ، 27سالہ فاریہ زوجہ دیدار شاہ ، 26 سالہ دینا ولد حضرت خان 20 سالہ سلیقہ زوجہ قاسم نے ذہنی پریشانی اور ڈپریشن میں مبتلا ہوکر زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردی،

ایس او ایچ او ویمن سٹیشن کے مطابق مئی اور جون کے درمیان 15 افرادنے خودکشی کی جس میں ابتدائی تحقیقات کے مطابق 4 خواتین کو قتل کر کے خودکشی کا رنگ دیا حال ہی میں بوبر میں شوہر نے بیوی کا گلہ گھونٹ کر ہنگ کیا تھا کہ بیوی نے خودکشی کی ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قتل کی آئی ہے جس کو گرفتار کر کے تحقیقات جاری ہے .

ابتدائی تحقیقات کے مطابق بیوی اور ساس میں لڑائی جھگڑا اور ساس کی جانب سے بیوی پر الزامات لگائے شک کے بنا پر شوہرنے گلہ گھونٹ دیا جبکہ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اس کا شوہر نشے میں بھی تھا .

[pullquote]آغا خان یونیورسٹی کراچی کا کردار[/pullquote]

گلگت بلتستان میں خودکشی سے بچاؤ اور حکمت عملی کے حوالے سے آغاخان یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پبلک ہیلتھ کے نمائندہ وفد پر مشتمل دماغی صحت اور خودکشی سے بچاؤ کے سینئر ماہرین کی ٹیم نے گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا .

اس موقع پر اے کے یو کے وفد نے مینٹل ہیلتھ سٹریٹیجی پر کام کرنے اور سائنٹفک طریقے سے خودکشی کے پہلوؤں پر تحقیقات کرنے پر اتفاق کیا اور خودکشیوں کی تدارک اور روک تھام کیلئے ایکشن پلان مرتب کرنےمیں اپنا کردار ادا کرینگے ۔

گاوں جپوکے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ انم واحد سیکنڈ ائیر کی طلبہ تھی انم واحد کی سہیلی کے مطابق انم واحد پیپرز اچھے نہیں ہونے پر پریشان تھی اور اسی پریشانی میں انم وحد نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کی۔

[pullquote]ماہرین نفسیات کیا کہتے ہیں؟[/pullquote]

ماہر نفسیات ڈاکٹر جان عالم نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں نفسیاتی مریضوں کے تعداد میں دن بہ بدن اضافہ ہورہا ہے اور ایسے مریض خودکشی کے جانب مائل ہوتے ہیں ۔

ہم ایسے مریضوں کی کونسلنگ کرتے ہیں اور اللہ کے فضل سے ہماری کونسلنگ اور علاج سے مریض صحت یاب ہورہے ہیں گلگت بلتستان کے ہر ضلع میں ماہر نفسیات کا ہونا ضروری ہے .

تاکہ ماہر نفسیات مریضوں کی کونسلنگ کرہنگے تو خودکشی کے واقعات میں کمی آئے گی اور زندگی سے نفرت کرنے والے دوبارہ زندگی کے برف لوٹ آیینگے۔

[pullquote]حکومتی اقدامات [/pullquote]

سیکرٹری سوشل ویلفئر نجیب عالم نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے روک تھام کے حوالے سے سروے کرنے کے بعد جامع رپورٹ مرتب کی جائے گی اور گلگت بلتستان کے اسکولزکالجز میں شعور و اگاہی کے سیشن دئیےجائینگے.

علمائے کرام اور واعظ کی خدمات سے بھی استفادہ حاصل کرتے ہوئے جماعت خانوں اور مساجد میں بھی شعور و اگاہی کے سیشن رکھے جائینگے جہاں پر بچوں بچیوں اور والدین کی ذہنی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد بھی ہوگا ۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے گلگت بلتستان میں بڑھتے بڑھتے ہوئے خودکشی کے حوالےسے سنیئر وزیر کرنل ر عبیداللہ بیگ کے سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے کر خودکشی کے وجوہات پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔

اس حوالے سینئر وزیر کرنل ر عبیداللہ بیگ نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے ہر ضلع کا دورہ کر کے خوکشی کے وجوہات اور محرکات جاننے کے بعد ان کے حل کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائینگے .

ضلع غذر کا دورہ کر کے وہاں پر مختلف سٹیک ہولڈر سے سیشن رکھ کر جائزہ لیا گئا ہے مزید اس حوالے سے ہماری ٹیم تحقیقات کر رہی ہے بہت جلد تفصیلی رپورٹ میڈیا کے ساتھ شئیر کرینگے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے