فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق برّی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے سزائے موت پانے والے نو شدت پسندوں کی سزا کی توثیق کر دی ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ نو مجرمان دہشت گردی سے متعلق جرائم میں ملوث تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت پانے والوں میں دسمبر سنہ 2009 میں راولپنڈی کی پریڈ لین مسجد اور ملتان میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دفتر پر حملوں میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔
جن مجرموں کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں محمد غوری، عبدالقیوم، محمد عمران، اقسن محبوب، عبدالرؤف گجر، شفقت فاروقی، محمد فرحان، محمد ہاشم اور سلیمان شامل ہیں۔
ان افراد کا تعلق کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان، کالعدم لشکر جھنگوی ، القاعدہ اور حرکت الجہاد الاسلامی جیسی شدت پسند تنظیموں سے بتایا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ محمد غوری والد جاوید اقبال تحریکِ طالبان پاکستان کا رکن تھا اور راولپنڈی چھاؤنی میں پریڈ لین کی مسجد پر حملے میں ملوث تھا۔
اس کے خلاف چار جرائم کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور فوجی عدالت نے اس سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔
سنہ 2009 میں پریڈ لین کی مسجد پر ہونے والے حملے میں اعلیٰ فوج افسران سمیت 38 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سزائے موت پانے والے عبدالقیوم ولد امیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حرکت الجہاد اسلامی پنجاب کا رکن تھا اور اسے دسمبر سنہ 2009 ملتان میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے میں ملوث ہونے پر سات جرائم کے تحت مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی گئی ہے۔
ملتان میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے میں نو افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہوئے تھے۔
سزائے موت پانے والے عبدالرؤف گجر، شفقت فاروقی، محمد فرحان، محمد ہاشم اور سلیمان کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے بتایا گیا ہے اور ان پر لاہور میں اہلسنت والجماعت پنجاب کے صدر شمس الرحمان معاویہ سمیت کئی افراد کے قتل کا جرم ثابت ہوا ہے ۔
بیان کے مطابق انھوں نے مجسٹریٹ کی عدالت میں اعترافِ جرم کیا جس پر انھیں سزائے موت سنائی گئی۔
شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے محمد عمران ولد عبدالمنان کو ٹی ٹی پی جبکہ اقسن محبوب ولد اصغر علی کو القاعدہ کا رکن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان دونوں کے خلاف چار چار جرائم کے تحت مقدمات چلے اور انھیں بھی سزائے موت سنائی گئی۔
ان پر قانون نافذ کرنے ولے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے الزامات تھے۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں132 بچوں سمیت 141 افراد کی ہلاکت کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔
سزائے موت کی مخالفت کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جسٹس پاکستان پروجیکٹ کے مطابق دسمبر 2014 سے دسمبر 2015 کے دوران پاکستان میں 300 سے زیادہ افراد کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا جن میں محض 63 افراد ایسے تھے جنھیں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے پر سزائے موت دی گئی۔