[pullquote]
فیاض راجہ رواں ماہ سے آ ئی بی سی اردو کے لئے "فیاضیاں ” کے عنوان سے با قاعدہ”ڈائری ” لکھا کریں گے۔ ان کی ڈائری کا ” قسط وار سلسلہ” قارئین ہفتے میں ایک دن ہماری ویب سائٹ پر پڑھ سکیں گے۔
فیاض راجہ کی ” ہفتہ وار ڈائری ” بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور جوانی کے دلچسب، انوکھے، جذبات سے بھرپور اور سب سے بڑھ کر ” سچے ” واقعات اور ذاتی تجربات پر مشتمل ہے۔ جس میں روزمرہ کے گھریلو واقعات سے لیکر ادب، کھیل، سیاست، شوبز، سلگتے سماجی اور سیاسی مسائل پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
بطور صحافی، ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی کے روزمرہ مشاہدات کو ڈائری کی صورت قارئین کے سامنے پیش کرنا یقینا پاکستان میں ایک نیا تجربہ ہے۔ادارہ آئی بی سی اردو فیاض راجہ کو خوش آمدید کہتا ہے ۔
ادارہ آئی بی سی اردو
[/pullquote]
(قسط اول)
سوچتا ہوں لکھا کروں مگر کیا لکھا کروں یہ سمجھ نہیں آتا، گزشتہ 15 برسوں کے واقعات اور تجربات کا تو بطور صحافی مشاہدہ کیا اور اکثر کا خود حصہ بھی رہا مگر واقعات کی زبانی ترتیب ہے کہ ہاتھ میں ہی نہیں آرہی شاید وجہ یہ رہی ہو کہ سب کچھ اس تیزی سے وقوع پذیر ہوا کہ یاداشت جواب دیتی نظر آتی ہے۔ ہاں ڈائری کچھ مدد کرسکتی ہے جو اس دوران بے قاعدگی سے لکھی گئی۔ باقاعدگی سے ڈائری لکھنے کا اغاز 1992 میں میٹرک کے بعد کیا تھا۔ مسلسل 8 برس یہ سلسہ جاری رہا پھر اس کے بعد بے قاعدگی یوں عود کر آئی کہ سب کچھ ہی ساتھ لے گئی۔ جانے کیوں ڈائری پر لکھے الفاط کی بجائے اپنی یاداشت پر ہی بھروسہ کرنے کو جی کرتا ہے۔ کچھ لکھنے کو سوچوں تو یادیں ہاتھ پکڑ کر بار بار 1981 کے ماہ جنوری میں لے جاتی ہیں۔
میری پیدائش فروری 1976 کی ہے ۔ لاہور میں گزرا عمر کا پہلا سال دھندلکوں میں لپٹا نظر آتا ہے۔ 77 سے 79 کا عرصہ کوئٹہ میں گزرا۔ ابو جی کی پوسٹنگکوئٹہ کی تھی۔ ان دنوں کی صرف دو یادیں ہی دل گدگداتی ہیں، ایک دسمبر کے مہینے میں کوئلوں کی انگیٹھی کے سامنے بیٹھنا اور دوسرا "مانی ” کے ساتھ گھر کے دروازے سے لیکر سامنے والے درخت تک برفیلے راستے پر دوڑ لگانا۔ 79 میں ابو جی کی پوسٹنگ راولپنڈی میں ہوگئی۔ 80 کا صرف یہی یاد ہے کہ اس دوران ہم نے کرائے کے بہت سے مکان بدلے۔ والد صاحب ریٹائرمنٹ لے کر زیادہ پیسہ کمانے سعودی عرب چلے گئے کیونکہ امی جی کی خواہش تھی کہ اپنا گھر ہونا چاہیئے۔ 1981 میں راولپندی کی پیپلز کالونی کی مسجد مائی جان والی گلی میں ہمارا کرائے کا مکان تھا، مالک مکان دو بھائی تھے۔ بڑے ملک صاحب اور چھوٹے ملک صاحب۔۔۔ شور مچانے اور بے وقت کھیل کود پر اکثر بڑے ملک صاحب سے ڈانٹ پڑ جاتی تھی۔
اسی محلے میں پہلے اسد سے دوستی ہوئی اور پھر کاشف اور عاطف، دو بھائیوں سے گاڑی چھننے لگی۔ اپریل 1981 میں میری آواری گردیوں کو لگام دینے کے لئے مجھے المدثر گرائمر اسکول میں داخل کردیا گیا۔ گھر پیپلز کالونی میں تھا ور اسکول جان کالونی میں۔۔۔ امی جان مجھے روزانہ اسکول چھوڑبے جاتی تھیں۔ ان دنوں کی ایک یاد نے اب تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ابو جان اپنے مکان کے لئے سعودی عرب میں سخت محنت کر رہے تھے اور امی جان ہم 8 بہن بھائیوں کو تن تنہا پال پوس رہی تھیں۔ وہ والد صاحب کی بھییجی ہوئی رقم میں سے بھی کچھ نہ کچھ بچا لیتی تھیں تاکہ اس بچت کو اپنا گھر خریدنے کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ بات دور نکل گئی۔ میں اس یاد کا ذکر کر رہا تھا جو آج بھی میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کر دیتی ہے اسکول کے راستے میں ایک بیکری پڑتی تھی جس کے شوکیس میں انواع و اقسام کی رنگ برنگی پیسٹریاں رکھی ہوتی تھیں، میں روزانہ پیسٹری لینے کی ضد کرتا تھا اور روزانہ ہی وہ دکاندار مجھے کہتاتھا کہ یہ کھانے کی چیز نہیں، یہ کاغذ کی ہیں اور صرف سجانے کے لئے رکھی ہیں۔ شاید وہ میری امی جان کی آنکھوں میں لکھی التحجا پڑھ لیتا تھا۔۔۔برسوں بعد جب میں نے اس بیکری سے چار پیسٹریاں خریدیں تو قسم لے لیجئے مجھ سے ایک بھی نہ کھائی گئی۔
اس زمانے کا ایک قصہ اور بھی ہے۔ ہمارے گھر کی چھت سے سامنے والے گھر کا کچا صحن نظر آتا تھا۔ روزانہ شام کو عصر کے بعد بلی آنکھوں اور طوطے کے ناک والی لڑکی، غالبا جس کا نام ساجدہ تھا، بھینس کا دودھ دوہتی تھی۔ میں اپنے گھر کی چھت کی جالیوں سے پتہ نہیں کیوں اسے چھپ چھپ کر دیکھتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں؟؟؟
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)