آرمی چیف عاصم منیر اور اُن کے والد کے ڈیٹا تک رسائی کی روداد اور ایک اجنبی ’ملاقاتی‘ کا معمہ

وہ 17 اکتوبر 2022 کی صبح تھی اور شہریوں کی رجسٹریشن کے قومی ادارے ’نادرا‘ سے منسلک ڈپٹی ڈائریکٹر اپنے آفس میں معمول کے کام میں مصروف تھے۔ صبح کے لگ بھگ دس بجے اُن کے موبائل فون پر نادرا ہی کے ایک سینیئر ڈائریکٹر کا پیغام موصول ہوا۔

واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے گئے اس پیغام میں دو پاکستانی شہریوں کے قومی شناختی کارڈ نمبر درج تھے اور ساتھ یہ درخواست کی گئی تھی کہ اِن افراد کو جاری کردہ پاسپورٹ کی تفصیلات چیک کر کے فراہم کی جائیں اور ان افراد کی تصاویر بھی فراہم کی جائیں۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے اپنے بیان میں ڈپٹی ڈائریکٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ اپنے کام میں مصروف تھے اس لیے وہ موصول ہونے والے واٹس ایپ پیغام کا بروقت جواب نہ دے سکے چنانچہ ڈائریکٹر کی جانب سے دن 12 بج کر 17 منٹ پر دوبارہ یاد دہانی کا میسج بھیجا گیا اور ساتھ ہی ایک فون کال بھی جس میں انھیں مبینہ طور پر بتایا کہ جس شہری کا شناختی کارڈ نمبر چیک کیا جانا ہے دراصل ان کا ’نائیکوپ گم ہو چکا ہے‘ اور اس سلسلے میں تصدیق مطلوب ہے۔

نادرا کے متعلقہ محکموں میں کام کرنے والے چند افسران کو شناختی کارڈ پر جاری کردہ پاسپورٹ، فیملی ٹری (یعنی خاندان میں موجود دیگر افراد کے ڈیٹا تک رسائی) اور دیگر معلومات تک رسائی ہوتی ہے اور وہ ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ان چند افسران میں سے تھے۔

انکوائری کمیٹی کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ اُس وقت تک انھیں ’قطعاً‘ معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے اپنے نادرا لاگ اِن کی مدد سے کس پاکستانی شخصیت اور اُن کے والد کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی تھی اور یہ کہ ڈیٹا چیک کرنے اور نام پڑھنے کے بعد بھی انھیں ان شخصیات سے متعلق علم نہیں تھا چنانچہ انھوں نے انفارمیشن اپنے افسر کے ساتھ شیئر کر دی۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے بیان کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ انھوں نے یہ انفارمیشن اس لیے شیئر کی کیونکہ ’نادرا میں بطور ادارہ یہ کلچر رہا ہے کہ سینیئر افسران دفاتری امور اور دیگر معاملات کی سلسلے میں اس نوعیت کی تفصیلات مانگتے رہتے ہیں جو انھیں بروقت فراہم کر دی جاتی ہیں۔‘

انھوں نے انکوائری کمیٹی کو مزید بتایا کہ 17 اکتوبر 2022 کے روز پیش آنے والا یہ معاملہ روٹین کی بات تھی جسے وہ معمول سمجھتے ہوئے ’بھول‘ چکے تھے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں یہ وہی وقت تھا جب سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے قریب تھی اور 29 نومبر 2022 کو نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل مختلف سینیئر آرمی افسران کے نام مختلف حلقوں میں زیر بحث تھے۔

اس حوالے سے ہفتوں جاری رہنے والی چہ مگوئیوں کے بعد بالآخر نومبر کے مہینے میں سید عاصم منیر کو نیا آرمی چیف تعینات کر دیا گیا جنھوں نے 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی بری فوج کی کمان سنبھال لی۔

درحقیقت ڈپٹی ڈائریکٹر نے 17 اکتوبر کو یعنی عاصم منیر کی تعیناتی سے چند ہفتے قبل جو دو قومی شناختی کارڈ اپنے لاگ اِن کے ذریعے چیک کیے تھے وہ نادرا حکام کے مطابق موجودہ آرمی چیف عاصم منیر اور ان کے والد کے تھے اور جو پاسپورٹ نمبر انھوں نے اپنے سینیئر ڈائریکٹر کے ساتھ شیئر کیا تھا وہ عاصم منیر کا پاسپورٹ نمبر تھا جبکہ ان کے والد کے شناختی کارڈ پر کسی پاسپورٹ کا ریکارڈ اُس وقت نادرا کے سسٹم میں موجود نہیں تھا۔

یاد رہے کہ اس معاملے میں شروع ہونے والی انکوائری کے نتیجے میں نادرا کے جونیئر ایگزیکٹیو سے لے کر ڈائریکٹر لیول تک کے چھ افسران کو نوکری سے برخاست (ڈس مس) کیا جا چکا ہے اور نادرا نے سیکریٹریٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں ملوث افراد کے خلاف کریمینل یا فوجداری کارروائی کے لیے پٹیشن دائر کر دی ہے اور اس معاملے میں پہلی سماعت 18 مئی کو سینیئر مجسٹریٹ اسلام آباد، عباس شاہ کی عدالت میں ہونا تھی تاہم ڈسٹرکٹ کورٹس کی عمارت کی منتقلی کے باعث اب اس پر 17 جون کی نئی تاریخ دے دی گئی ہے۔

اگرچہ ڈپٹی ڈائریکٹر یہ ریکارڈ فراہم کرنے کے بعد اس بات کو بھول چکے تھے مگر انکوائری کمیٹی کو دیے گئے بیان میں انھوں نے کہا کہ 19 دسمبر 2022 کو یعنی آرمی چیف کی تعیناتی کے لگ بھگ 20 دن بعد انھیں اپنی معطلی کا لیٹر مل گیا۔

اُن کے علاوہ چھ دیگر افسران کو بھی معطل کیا گیا تھا اور ان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے بھی آرمی چیف اور ان کے اہلخانہ کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی تھی۔ معطلی کے کچھ ہی روز بعد ڈپٹی ڈائریکٹر کو ادارے کی جانب سے چارج شیٹ موصول ہوئی (یعنی ان پر عائد کردہ الزامات کی تفصیل)۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے اپنے بیان کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ چارج شیٹ موصول ہونے پر وہ یہ یاد کرنے سے قاصر رہے کہ یہ کن شناختی کارڈز کی بات ہو رہی ہے اور یہ کہ اس بابت انھیں کس افسر کی جانب سے درخواست موصول ہوئی تھی۔

انھوں نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ ’میں نے چارج شیٹ موصول ہونے کے بعد اپنا موبائل چیک کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس نے مجھے اس ڈیٹا تک رسائی کے لیے درخواست کی تھی۔ واٹس ایپ ریکارڈ میں معلوم ہوا کہ یہ درخواست کرنے والے سینیئر ڈائریکٹر تھے۔‘

یہ معلوم ہونے کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر نے ڈائریکٹر سے رابطہ کیا اور ان کے بقول ڈائریکٹر نے بھی اپنا موبائل چیک کیا مگر چونکہ انھوں نے اپنے واٹس ایپ پر ’ڈس اپیئر میسج فیچر‘ آن کر رکھا تھا، اس لیے وہ معلوم نہیں کر پائے کہ انھوں نے کب اس ڈیٹا کو حاصل کرنے کی درخواست کی تھی۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے بیان کے مطابق اگلا روز جمعے کا تھا جب ڈپٹی ڈائریکٹر بذات خود ڈائریکٹر کے دفتر خود چلے آئے اور انھیں درخواست کی کہ وہ ذہن پر زور دیں اور یاد کریں کے انھیں اس ڈیٹا تک رسائی کے لیے کس نے کہا تھا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ ’اس موقع پر ڈائریکٹر نے مجھے یہ بھی کہا میں بھی اپنے موبائل سے اس بات چیت اور پاسپورٹ نمبر کی تفصیلات کو ڈیلیٹ کر دوں مگر میں نے انکار کر دیا اور انھوں واضح بتایا کہ میں یہ سکرین شاٹس انکوائری کمیٹی کے سامنے بطور ثبوت پیش کروں گا۔‘

[pullquote]نامعلوم وزیٹر (ملاقاتی) کا معمہ[/pullquote]

مگر اب یہاں اہم سوال یہ ہے کہ ڈائریکٹر اس ڈیٹا تک رسائی کس کے احکامات یا درخواست پر کروا رہے تھے؟

انکوائری کمیٹی کو ڈائریکٹر نے اس کا جواب دیا جو انکوائری کمیٹی کی فائنل رپورٹ کے مطابق درست نہیں تھا۔

انھوں نے انکوائری افسران کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 17 اکتوبر 2022 کو ایک ملاقاتی (وزیٹر) اُن کے آفس آیا تھا جس نے یہ شناختی کارڈ نمبر انھیں دے کر فیملی رجسٹریشن سے متعلق ایک پیچیدہ سے معاملہ بتایا اور فیملی ٹری کے متعلق بات کی اور اسی وزیٹر کی درخواست پر تفصیلات چیک کرنے کے لیے انھوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر کو ڈیٹا تک رسائی کی درخواست کی تاہم انھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ انھوں نے ہی شناختی کارڈ نمبر ’غلطی‘ سے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھیجے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر سے پاسپورٹ نمبر پوچھنے سے قبل مبینہ طور پر ڈائریکٹر نے آرمی چیف کی فیملی کی تفصیلات جاننے کے لیے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے رابطہ کیا تھا۔ اگرچہ اسٹنٹ ڈائریکٹر نے انکوائری کمیٹی کو اس کی تصدیق کی تاہم ڈائریکٹر نے انکوائری افسران کے سامنے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسٹنٹ ڈائریکٹر سے اس ضمن میں کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ڈائریکٹر نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ انھوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر سے مدد فقط ’وزیٹر‘ کی درخواست پر عملدرآمد کے لیے طلب کی تھی۔ انھوں نے انکوائری کمیٹی کے سامنے یہ دعویٰ بھی کیا کہ درحقیت ڈپٹی ڈائریکٹر اور ان (ڈائریکٹر) کی اہلیہ کے نام ملتے جلتے ہیں اور وہ پاسپورٹ نمبر والا میسج درحقیقت وہ اپنی اہلیہ کو بھیجنا چاہتے تھے مگر غلطی سے ڈپٹی ڈائریکٹر کو چلا گیا!

انکوائری کمیٹی کی جانب سے ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں یاد ہے کہ وہ شخص کون تھا جس نے یہ تفصیلات ان کے آفس آ کر مانگی تھیں؟ جس کے جواب میں ڈائریکٹر نے کہا کہ ’نہیں، میں یہ سب حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہوں۔ میں روزے سے ہوں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ قومی شناختی کارڈ نمبر کس کا تھا۔‘

[pullquote]انکوائری کا نتیجہ کیا نکلا؟[/pullquote]

اس انکوائری کے نتیجے میں آرمی چیف کے ڈیٹا تک رسائی کا الزام ثابت ہونے پر جونیئر ایگزیکیٹو سے لے کر ڈائریکٹر لیول تک کے چھ افسران کو نوکری برخاست کر دیا گیا۔

انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں وہ تمام تر واقعات بیان کیے ہیں جس کے نتیجے میں اس ڈیٹا تک رسائی حاصل کی اور سینیئر ڈائریکٹر بھی اس میں ملوث تھے۔

اس کے نتیجے میں اب نادرا نے سیکریٹریٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں ملوث افراد کے خلاف کریمینل یا فوجداری کارروائی کے لیے پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور اس معاملے میں سماعت اب 17 جون کو ہو گی۔

ڈیٹا لیک پر ہونے والی اس انکوائری کمیٹی کے کنوینیئر نادرا کے سینیئر افسر علی جواد تھے جبکہ ممبران میں ایم اینڈ ای ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) تنویر احمد اور ڈی جی پاک آئی ڈی سہیل جہانگیر شامل تھے۔

انکوائری کمیٹی کی پروسیڈنگز کے مطابق ڈائریکٹر کو چارج شیٹ دی گئی جس کے جواب میں انھوں نے عائد کردہ الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ نادرا میں 2011 سے کام کر رہے ہیں اور دوران سروس وہ کبھی غیرقانونی کام میں ملوث نہیں ہوئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی سائل فیملی ٹری سے متعلق اپنا کوئی بھی مسئلہ لے کر ان کے ڈیپارٹمنٹ آتا ہے تو اس کی مدد کے لیے پاک آئی ڈی ڈائریکٹوریٹ رابطہ کرنا ایک معمول کا کام ہے۔

انھوں نے ڈیٹا تک رسائی کی تردید کرتے ہوئے استدعا کی کہ سروس کے ان کے سابقہ ریکارڈ اور بے بنیاد الزامات میں کوئی شواہد موجود نہ ہونے کی بنا پر اُن کے خلاف چارج شیٹ واپس لی جائے۔

انکوائری پروسیڈنگز کے مطابق چارج شیٹ کے جواب میں موصول ہونے والے اس جواب کے بعد انکوائری کمیٹی نے انھیں اِن پرسن بلایا اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ڈائریکٹر نے ڈپٹی ڈائریکٹر کو شناختی کارڈ نمبر ’غلطی‘ سے بھیجنے کی تصدیق ہے اور کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ’کسی شک کی گنجائش کے بغیر‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈائریکٹر نے غیرقانونی طریقے سے شہریوں کا ڈیٹا حاصل کیا۔

[pullquote]ڈیٹا تک رسائی کس کے احکامات پر کی جا رہی تھی؟[/pullquote]

اس سوال کا جواب نادرا کی جانب سے کی جانے والی انکوائریوں سے شاید نہ مل پائے کیونکہ اس معاملے میں چھان بین کا نشانہ بننے والے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس معاملے میں نادرا کے وہ افسران بھی ملوث تھے جنھیں گذشتہ تین ماہ کے دوران ’باعزت‘ طریقے استعفے لے کر ادارے سے رخصت کر دیا گیا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سات اپریل کو وزارت داخلہ کو لکھے گئے ایک خط میں شہریوں کے ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی کے معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات آئی ایس آئی یا ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) سے کروانے کی سفارش کی تھی۔

یاد رہے کہ ایم آئی پہلے ہی اس معاملے کی چھان بین کر رہی ہے اور اس ضمن میں کئی سینیئر افسران سے پوچھ گچھ بھی کی گئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چیئرمین نادرا طارق ملک نے بتایا کہ ان کے ادارے نے اپنے ملازمین کی حد تک انکوائری مکمل کر لی ہے اور تمام ملوث اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ناصرف انھیں نوکری سے فارغ کیا گیا بلکہ نادرا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے افسران کے خلاف کریمینل کارروائی کے لیے قانونی راستہ بھی اپنایا ہے۔‘

[pullquote]ڈیٹا تک رسائی کیوں حاصل کی گئی؟[/pullquote]

نادرا کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق آرمی چیف اور ان کے اہلخانہ کے ریکارڈ تک رسائی کے بعد اس ریکارڈ کو ایف آئی اے، ایف بی آر، فیڈرل ایمپائز ہاؤسنگ اتھارٹی اور نجی بینکوں سے تفصیلات حاصل کرنے کی غرض سے استعمال کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے ریکارڈ کے ذریعے اس خاندان کی ٹریول ہسٹری معلوم کی گئی۔

ان کے مطابق اسی طرح معلومات استعمال کر کے ٹیکس ریکارڈ اور زمین جائیداد کا کھوج لگانے کی کوشش بھی کی گئی تاہم اس افسر کے مطابق نادرا وہ واحد محکمہ ہے جس نے اس حوالے سے ہونے والی غیرقانونی کارروائی میں ملوث افراد کے خلاف انکوائری کی اور اس معاملے کو اپنی حد تک منطقی انجام تک پہنچایا۔

[pullquote]کیا شہریوں کا ڈیٹا محفوظ ہے؟[/pullquote]

یہ تحریر پڑھنے کے بعد آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر فوج کے ایک حاضر سروس جرنیل (جو اب آرمی چیف ہیں) اور ان کے خاندان کا ڈیٹا محفوظ نہیں تو کیا نادرا میں موجود آپ کا یا کسی عام شہری کا ڈیٹا محفوظ ہے؟

اس کا جواب انکوائری رپورٹ میں درج یہ الفاظ ہو سکتے ہیں کہ ’نادرا میں بطور ادارہ یہ کلچر رہا ہے کہ سینیئر افسران دفاتری امور اور دیگر معاملات کی سلسلے میں اس نوعیت کی تفصیلات مانگتے رہتے ہیں جو انھیں بروقت فراہم کر دی جاتی ہیں۔‘

تاہم 27 اپریل 2023 کو چیئرمین نادرا طارق ملک کے دستخط سے جاری کردہ ایک نوٹس میں نادرا ملازمین کو شہریوں کے ڈیٹا کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس نوٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی ملازم کسی شہری کے فیملی ٹری تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں رکھتا اور اگر کسی خاندان کے فیملی ٹری تک رسائی حاصل کرنا ضروری ہو تو اس متعلقہ خاندان کے کسی فرد کا بائیومیٹرکس فراہم کرنا لازمی ہے۔

اس نوٹس میں ملازمین کو بتایا گیا ہے کہ غیرقانونی طریقے سے کسی کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کون سے سزائیں مل سکتی ہیں۔

چیئرمین نادرا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں نگرانی کا ایک جامع نظام وضع کر دیا گیا ہے جس کی روشنی میں حالیہ دنوں میں 171 انکوائریاں کی گئی ہیں جن کے نتیجے میں 131 ملازمین کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

ان ملازمین پر یہ الزام ثابت ہوا تھا کہ انھوں نے بغیر اجازت لوگوں کے پرائیوٹ ڈیٹا تک رسائی حاصل کی تھی۔ اسی طرح ’اجازت آپ کی‘ نامی سروس کا اجرا کیا گیا ہے جس کی مدد سے شہریوں کو ان کے نادرا میں موجود ڈیٹا تک رسائی کی صورت میں نوٹیفیکیشن موصول ہو جاتا ہے اور اس ضمن میں ان کی اجازت حاصل کی جاتی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اُردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے