آج کی فضا میں جہاں نیا خیال ، نئی بات، تجزیے کا نیا ڈھنگ کم نظر آتا ہے، وہاں ایک ہی انٹرویو میں بہت سی دلچسپ اور فکرافروز باتیں پڑھنے کو مل جائیں تو ایک سرشاری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ دانشور، فلسفی، صوفی اور ادیب احمد جاوید کے تازہ ترین انٹرویو کا میں نے پچھلی نشست میں حوالہ دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ممدوح نے چند صفحات میں کئی اہم موضوعات پر بڑی خوبصورتی سے اتنا کچھ پیش کر دیا ہے کہ ان پر کئی نشستوں میں بحث ہوسکتی ہے۔ کرنٹ افئیرز پر گپ شپ، بحث و تمحیص اور گفتگو اپنی جگہ، مگر کبھی کبھی بنیادی ایشوز پر بھی غور ہونا چاہیے اور کچھ وقت ان کے لیے بھی نکالا جائے۔
[pullquote]صحافی اے اے سید نے انٹرویو میں بڑا بنیادی سوال پوچھا کہ آپ کے کہنے کے مطابق بلحاظ نظام تعلیم، نظام اخلاق اور نظام انصاف ہم بانجھ پن کا شکار ہیں، ایسے حالات میں تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ احمد جاویدکا جواب تھا: ”تبدیلی کے تین ماڈل سامنے موجود ہیں۔ یہ تینوں ماڈل (تبلیغی جماعت، جمہوریت کے ذریعے غلبہ دین کی جدوجہد اور طاقت کے ذریعے تبدیلی لا کر خلافت قائم کرنے کے خواہش) اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے باوجود بے اثر، بے نتیجہ اور ناکام ہیں۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی مذہب میں تبلیغی جماعت سے بڑا دعوتی نیٹ ورک موجود نہیں، لیکن اس کے کام کا مسلمانوں کے اجتماعی وجود پر کوئی اثر نہیں پڑا اور مسلم زندگی کو چلانے والا نظام تبدیل نہیں ہوا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑے دائرے میں ناکام ہے، البتہ چھوٹے چھوٹے (انفرادی) دائروں میں کامیاب ہے۔ اسی طرح دین کی سیاسی تعبیر کر کے غلبہ دین کی وہ جدوجہد جس میں جمہوریت کو ذریعہ مان لیا گیا ہے، جسے آج کل کی اصطلاح میں مذہبی سیاسی جماعتیں کہتے ہیں، یہ (جماعتیں) بھی مضحکہ خیز صورت اختیار کر چکی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا بڑا اور شاید سب سے مضبوط نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس ایک بڑی فکر بھی ہے، کارکنوں کا اخلاص اور عمل کی قوت بھی؛ جو ایک سیاسی جماعت کی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ ان کے پاس ہیں، ان کا ایک بیانیہ بھی ہے، اس بیانیہ کو عمل میں لانے کے لئے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی فوج بھی موجود ہے اور اپنی جماعت کو چلانے والا ایک فیئر ڈسپلن بھی حاضر ہے۔ یہ تمام خوبیاں رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی پہلے دینی شناخت یا تشخص رکھنے میں کامیاب ہوئی، اس کے بعد اس میں غائب ہوگئی۔ سیاسی وجود یا شناخت کچھ حاصل ہوئی، لیکن اب سیاست سے بھی غائب ہوگئی ہے۔ موجودہ صورت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی کوئی دینی وقعت رہ گئی ہے نہ سیاسی اہمیت۔ یہ گویا ایک ماڈل کی مکمل ناکامی کانمونہ ہے‘‘۔
[/pullquote]
”تیسرا ماڈل غلبہ بذریعہ طاقت برائے قیام خلافت ہے۔ یہ تحریک مایوسی (desperation) اور گویا احتجاج میں اٹھی ہے۔ پچھلے دونوں ماڈلز کی مسلسل اور مکمل ناکامی کے مشاہدے کے بعد یہ رد عمل ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں عالمگیر سطح پر تبدیلی کا ایک میکنزم ہوتا ہے، جس کی حق اور باطل دونوں کے ترجمانوں کو پابندی کرنا پڑتی ہے۔ یہ جو تیسرا ماڈل یا گروپ ہے، ان کا المیہ یہ ہے کہ جو موجودہ یونیورسل میکینکس آٖف چینجز ہیں، ان سے کسی بھی طرح کا تعلق نہیں رکھتے۔ ایک عالمگیر مزاج کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی سے خود کو لاتعلق رکھ کر دنیا میں تبدیلی لانے کا خواب دیکھنا گویا ناممکن کو ممکن فرض کر لینا ہے۔ عسکریت پسند جماعتیں یا خلافت کے قیام کے پرامن جدوجہد کرنے والی تحاریک، یہ سب اپنے زمانے کی روح سے لڑ رہی ہیں اور روحِ عصر سے لڑائی کامیاب نہیں ہوتی۔ اسلام نے غلامی کے رد کے لیے اس زمانے میں خود بھی یہ کچھ نہیں کیا تھا (اسی وجہ سے غلامی کو بتدریج کم اور ختم کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ع خ ) جمہوریت آج پوری دنیا کے اجتماعی لاشعور کا عقیدہ بن چکی ہے۔ اس سے بلاوجہ کی لڑائی چھیڑ کر، لوکل تبدیلی لانے کے لیے پوری دنیا کو اس کی اساس سے ہٹانے کی کوشش کرنا ایک ناسمجھی کا کام ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ ذہن میں آتے ہی ناکام ہو جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ گروہ جو بھی کر رہا ہے، وہ عسکریت پسندی کی شکل میں کر رہا ہے۔ عسکریت پسندی قدیم زمانے کی بناوٹ کے مطابق تو تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی تھی، لیکن جدید دنیا کی ساخت یہ ہے کہ کسی گروپ کی عسکریت پسندی (مسلح جدوجہد) سوشل یا ریاستی سطح کے چیلنج کا باعث نہیں بن سکتی ۔اس لیے جو لوگ عسکریت پسندی میں ملوث نہیں، مگر ان کے مقاصد سے متفق ہیں، ان کے لیے یہ ایک المیہ بھی ہے۔ یہ ایک دہشت کا سا تصور ہے کہ آپ اپنے ذہن میں کھلے ہوئے پھول کو باہرکی زمین میں اگانے کے لیے اس زمین میں آگ لگا رہے ہیں اور پہلے سے کھلے پھولوں کو پائوں تلے روند رہے ہیں۔ یہ پست ذہنیت کی علامت ہے‘‘۔
” ہمیں حقیقت میں جس ماڈل کی ضرورت ہے، وہ بنیادی طور پر تو دعوتی ہے، اس میں کچھ طاقتور عناصر ظاہر ہے کہ سیاسی
ہوں گے۔ دعوت اور سیاست کو ملا کر معاشرے کو اپنی بنیادی اقدار پر ری سٹرکچر کرنے کی کوشش کرنا ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری غالب مذہبی قوتیں معاشرتی انقلاب لانے کے بجائے ریاستی سٹرکچر میں تبدیلی لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ عالم اسلام میں کام کرنے والی دیگر اسلامی تحریکوں کی خامی بھی یہی ہے۔ اخوان المسلمون ہو یا الجزائر کی اسلامک فرنٹ وغیرہ وغیرہ۔ سیاسی جدوجہد کرنے والی یہ سب جماعتیں ایک سی ہیں۔ سب نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں۔ انسانوں میں دیر پا انقلاب کی ہر قسم فرد سے شروع ہوتی ہے، معاشرے میں اپنے حق پر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے نتیجے میں ریاستی نظام خود بخود بدلنے لگتا ہے۔
[pullquote]ہمارے ہاں معاشرے کو بدلنے کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں، فرد کو بدلنے کا تصور ہے جسے تبلیغی جماعت استعمال کر رہی ہے۔ مسلم معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ مسلم معاشرے کے قیام کو اپنا مقصد بنا کر اس کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنا، اس کی تحریک چلانا۔۔۔۔۔ یہ ہماری دستیاب مذہبی جماعتوں کا موضوع یا مقصد نہیں ہے، جو ایک بہت بڑی کمی ہے۔ (یہ بات سمجھ لینا چاہیے) اب ہماری تہذیب یعنی مسلم تہذیب کی تجدید یا بقا کا کوئی بھی کام ہو گا تو وہ اپنی صورت اور معنویت میں معاشرتی ہوگا، سیاسی یا ریاستی نہیں ہوگا۔ سب سے ضروری یہ سمجھنا ہے کہ دین کس طرح کی اجتماعیت ہم سے طلب کرتا ہے۔ اس طلب کو درست انداز میں سمجھ کر، اسے اپنی ذہنی اور اخلاقی قوتوں سے عمل میں لانا۔۔۔۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلم معاشرے کا ایک نمونہ بھی مسلمان پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان پر مغرب کی یلغار ہی نہیں رک جائے گی بلکہ مغرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوجائے گا۔
[/pullquote]
مغرب کو
ایک روحانی معاشرے کی پیاس لگی ہوئی ہے، وہاں کے حساس اور ذہین طبقات یہ محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم روحانی بنیادوں پر ایک فلاحی اور انسانی معاشرہ بنا کر دکھا دیں تو مغربی معاشرہ فتح ہوسکتا ہے۔ ہم اس کو تو روتے ہیں کہ عالم اسلام میں ایک بھی حکومت اسلامی نہیں، لیکن اس بات کی کسک محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت عالم اسلام میں ایک بھی معاشرہ اسلامی نہیں‘‘۔
عسکریت پسندی کے ضمنی نقصانات اور تباہ کاری کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں احمد جاوید نے جو تبصرہ کیا، وہ ہمارے ہاں کے سخت گیر مذہبی سوچ والوں کو غور سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ کہتے ہیں :”مغربی تہذیب کے غلبے سے بچنے کا ایک راستہ تصادم کا ہے کہ چونکہ مغربی تہذیب کے پھیلائو میں اس کی قوت کا بہت عمل دخل ہے، اس لیے اس پھیلائو کو روکنے کے لیے بھی قوت (مسلح جدوجہد) استعمال کی جائے۔ مسلم تہذیب اپنی کچھ پاکٹس میں طاقت کے ذریعے مزاحمت (Power Resistance) کر رہی ہے کہ ہم جنگجوئوں کے ذریعے اس کا راستہ روک لیںگے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کچھ تنکے اکٹھے ہو کر سونامی کوروکنے کا منصوبہ بنائیں۔ یہ انتہائی لغو خیال اور بے معنی طرز عمل ہے۔ یہ جنگجوئی اور عسکریت پسندی مغرب کے غلبے کی قبولیت میں اضافہ کر رہی ہے، یعنی مغربی تہذیب کو اخلاقی جواز فراہم کر رہی ہے۔ تہذیبوں کے پھیلائو میں جو سب سے بڑے جواز معاون ہوتے ہیں، ان میں سے ایک جواز ان کی اخلاقی برتری کا ہے۔ اب مغرب کے خلاف تشدد کا رویہ اور دہشت گردی کے واقعات جتنے بڑھتے جائیںگے، مغرب کے جسم پر ان سے ایک خراش بھی نہیں آئے گی، بلکہ ان کی طرف ہمارا رویہ بدلنے لگے گا اور ہم (یعنی عوام ) ان کی اخلاقی برتری کے قائل ہونے لگیں گے۔ اس سے ان کے پھیلائو کا راستہ اور ہموار ہوتا جائے گا‘‘۔
بشکریہ روزنامہ دنیا