صفیں درست ہورہی ہیں، نفرتوں کے قلعے مضبوط کئے جارہے ہیں، عداوتوں کی پرانی فصلیں کاشت کرنے کے لئے سورۃ المنافقین کے شناسا چہرے نیا بھیس بدل کر ہجوم میں داخل ہوچکے ہیں…سنی، شیعہ فسادات کی آگ میں عالم اسلام کو خاکستر کرنے کے لئے برسوں سے خواہش کے اِس پودے کو تناور درخت بنانے میں جُتے وہی جانے پہچانے ’’اغیار‘‘ بھی مستعدی سے ’’ہمدردی ‘‘ کا ناٹک کرتے ہوئے کہیں ایک ملک کی پشت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں تو کہیں دوسرے ملک کے بازوؤں کو اپنے بازو میں سمیٹے ’’اتحادی‘‘ بننے کے لئے بے قرار و بے تاب ہیں…
مگر ہم کہاں جائیں؟ کیسے سعودی عرب کو چھوڑدیں جس نے دکھ کی ہر گھڑی میں ہمارے آنسوپونچھے، جب جب ہم اکیلے پڑے اُس نے ہمارا ساتھ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کبھی مال سے تو کبھی خیال سے ہر طرح سے خیال رکھا ، کاندھے سے کاندھاملا کر کھڑے رہنے کو اپنا ایمان گردانا،سیاسی و معاشی مسائل میں جہاں ہمیں اُن کی ضرورت پڑی اُنہوں نے کبھی انکارنہیں کیا…اور کیسے بھول جائیں اُس ایران کو جس نے سب سے پہلے میرے وطن کو تسلیم کیا، پاکستان کی سرحدوں کے تحفظ کے لئے ایک بہترین پڑوسی کا کردار ادا کرکے بارہا ہمارے دل جیتے، کسی نے اگر میلی آنکھ ڈالنے کی بھی کوشش کی تو پہلے ایران سے منہ توڑ جواب آیاکہ ہمارا پڑوسی اکیلا نہیں ہے ہم اُس کا ساتھ دینے کے لئے ہمہ وقت تیار اور چوکس ہیں…
تو پھر سوال یہ ہے کہ کیاہم کسی ایک طرف ہوجائیں؟کسی ایک ’’اتحاد‘‘ کا حصہ بن کر اتحاد ہی کو پارہ پارہ کردیں؟ کسی ایک مؤقف کو تسلیم کر کے دوسرے کی آہ و بکا پر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ؟کسی ایک کو حق بجانب مان کر اظہارِ حق سے باز آجائیں؟ یا پھر… دو مسلمان ممالک کے درمیان ’’مصالحت‘‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے خلیجی ممالک سے خلیج کو پاٹنے کی کوشش کریں! جو ہاتھ ایک دوسرے کو تھامنے سے کترا رہے ہیں اُنہیں تھام کر دنیا کی نظروں میں مسلمانوں کو گرنے سے بچالیں…جن کے سروں پر جنون سوار ہے ،اُنہیں کیوں نہ سمجھادیں کہ ’’دیکھو! ہمارے درمیان اب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں، قرآن سے اُن ہی کی تلاوت کی آواز آرہی ہے…پردہ فرماتے وقت اُنہیں یہ خدشہ نہیں تھا کہ ہم ’’شرک‘‘ میں مبتلا ہوجائیں گےبلکہ ایک ہی بات کا ڈر تھا کہ ہم دنیا کی محبت میں گرفتار ہوکر کہیں ایک دوسرے کی گردنیں نہ مار نے لگیں…زبان، نسل ، رنگ اور خطے کا غرور کہیں ہمیں وحدتِ ملی سے نہ کاٹ ڈالے، عرب و عجم کا تنازع کہیں پھر سے نہ اُٹھ کھڑا ہو…آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منشورِ انسانیت پیش کرتے ہوئے کیا حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ ـ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں ہے مگر تقویٰ کی بنیاد پر ‘‘…پھر تقوی کہاں گیا؟ داعش کے قصائی (مجھے اِسے ابوبکرالبغدادی کہنا اچھا نہیں لگتا کیونکہ ابوبکر جیسا عظیم نام اِس جیسے خارجی کو زیب نہیں دیتا)البغدادی کی تلوار تلے ذبح ہوگیا یا نسل پر تفاخر نے اُسے نوچ نوچ کر کھا لیا؟کہنے والے کہتے ہیںکہ سنی ، شیعہ فساد کا کوئی امکان نہیں مگر میں ایسے شتر مرغوں سے صرف اِسی قدر پوچھنے کی جسارت کرونگا کہ شام ، یمن اوربحرین میں کون سی جنگ جاری ہے ؟بشار الاسد کی نصیریت کس نظریے پر کاربند ہے اور داعشِ کے خوارج کس کے خلاف نہروان لڑنے کے لئےجمع ہوئے ہیں؟ یمن کے حوثیوں کے خلاف کون صف آرا ہے اور اِن حوثیوں کو کمک کون پہنچا رہا ہے ؟نہ جانے آنکھیں بند کرلینے سے یہ گمان کیسے سچ بن سکتا ہے کہ جو کھلی آنکھوں سے ہم دیکھ رہے ہیں وہ محض ایک خواب ہے…لڑانے والوں نے برسوں تحقیق کے بعد ’’سنی شیعہ تنازع‘‘ سے بہتر کوئی ہتھیار تلاش ہی نہیں کیا ہے جو سلامتی کی عمارت کو تیزی سے مسمار کر کے اسلام کے پیغام امن کا نام و نشان تک مٹادینے کے لئے کافی ہے ، کویت میں اُتر کے عراق کے خلاف سب سے پہلے جنگ لڑنے والوں نے خطے کی ’’گرمی‘‘ کی ’’بنیادی وجہ‘‘ کو بہت پہلے تسخیر کرلیا تھا، برسوںاِس پر کام جاری رہا اور پھر کبھی اُسامہ تو کبھی طالبان کے مختلف گروہ، کبھی صدام تو کبھی بشار الاسد، کبھی قذافی تو کبھی تیونس کا زین العابدین بن علی اور پھر اماراتِ اسلامی کا قیام اور البغدادی کی خلافت کا اعلان…سب کے تانے بانے ایک ہی جگہ جا کرملتے ہیں جہاں یہ تمام دریا ایک ساتھ گرتے ہیں…بلا شبہ ’’وہ‘‘ اپنا کام بہترین طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں لیکن تُف ہے ہم پر کہ ہم کیا کررہےہیں؟ ہمیں تو سکھایاگیا تھا کہ پوری انسانیت کو انسانی اقدار کی اعلیٰ مثال بن کر ’’دائرۂ اسلام‘‘ میں لے آؤ… مگر ہم تو اُنہیںجو اِس دائرے میں مدتوں پہلے آچکے ہیں اپنے مسالک کی قوت سے ’’دائرہ ٔ اسلام ‘‘ سے خارج کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، لبوں پر نام ہے سیدی، مرشدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور کام ہے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے والے یزید کا…سب سے پہلے جس مسلمان اور وہ بھی عشرہ مبشرہ کے ایک نقطۂ ایمان یعنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کودائرہ اسلام سے خارج کیاگیا اُنہیںقتل کرنے کاکام’’اقرا‘‘ نامی گروہ نے کیا جس کی قیادت عبداللہ ابن سبا (منافق) کررہاتھا پھر مولا مرتضی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف خوارج نے ’’لا حکم الا اللہ‘‘ نعرے کی بنیاد پر اعلان جنگ کیا اور مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا کہ ’’نعرہ تو حق ہے لیکن ارادہ باطل ہے ـ‘‘ لیکن یہ گروہ اپنے تئیں اور اپنے متشددانہ فہم کی بنیاد پر ’’دائرہ اسلام‘‘ تخلیق کر چکا تھا اور جو اُس دائرے میں اُن کی ’’نگاہِ ایمان‘‘ کی روشنی میں پورا نہیں اُترتاتھا۔
یہ خارجی اُسے ’’خارج‘‘ کرنے کیلئے ہر طریقہ استعمال کرتے یہاں تک کہ اُسے ذبح کرنے اور نعش کا مثلہ کرنے سے بھی باز نہ آتے…عبداللہ ابن سبا کو مدینے کے یہودیوں کی پشت پناہی حاصل تھی اور البغدادی کوصہیونیت کی تھپکیاں حاصل ہیں…مفاد کی خاطر ایمان لانے والے ’’منافقین‘‘ کل بھی گمراہ ہوکر غیروں کے ارادوں کی تلوار بنے تھے اور آج بھی دین کو بدنام کرنے کے لئے اُن ہی کے حلقہ بگوش ہیں…بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں مگر جھکے ہوئے سراُن کے سامنے ہیں جنہیں اللہ کے سامنے جھکانے کے لئےمیرے سیدی پردے سے دنیا میں تشریف لائے اور پردہ فرما کر اب پردے ہی سے اللہ کے حکم سے وہ دیکھ رہے ہیں کہ جو اللہ چاہتا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ فرمائیں…!!!
مجھے نہیں معلوم کہ کل کیا ہوگا مگر آج بتا رہا ہے کہ ہم نے کل کے لئےکیا تیار کر رکھا ہے ؟ مسالک اور مسالک میں بھی مسلک در مسلک در مسلک در مسلک ایک دوسرے کا لہو بہانے یا’’نعرۂ تکبیر‘‘ کی جگہ ’’نعرۂ تکفیر‘‘ بلند کرنےمیں عجیب سی لذت محسوس کرنے لگے ہیں، اللہ سے طالب ہیں کہ وہ غلطیوں کو معاف کردے مگر اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کی خامیاں تلاش کر کے اُس کی ذلت کا مزا لینے میں اتنے مگن ہیں کہ البغدادی کب سر پر آجائے واللہ نہیں معلوم…!
بشکریہ روزنامہ جنگ