اتنی نہ بڑھا پاکی ٔداماں کی حکایت…

پلاٹوں کی سیا ست پاکستان میں نئی نہیں ہے۔ چاہے سیا ستدان ہوں یابیو رو کریٹس،فوجی حضرات، اعلیٰ عدلیہ کے ارکان ہو ں یا ہمارے بعض صحا فی بھائی، سبھی نے اس بہتی گنگا میں ہا تھ دھوئے ہیں ۔بہر حا ل آوے کا آ وا بگڑا ہو ا نہیںہے، ایسے باضمیر لو گ بھی ہیں جنہو ں نے پلاٹو ں کی خرید وفروخت کے ذریعے راتوں رات امیر ہو نے کی اس اند ھی دوڑ سے خو د کو دور رکھا ہے۔میرے والد حمید نظامی مر حوم اس اصول پر شدت پسندی کی حد تک عمل کرتے تھے۔جب فروری 1962ء میںان کا انتقال ہو ا تو ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے جو متروکہ وقف املاک کے کلیم کے حوالے سے مشہورگلوکارہ اقبال بانو کو الاٹ ہواتھا۔ ٹیمپل روڈ جو حمید نظامی کی خدمات کی بنا پر ان کے نام سے منسوب ہو گئی ، صفا نوالہ چوک میں اٹھا رہ کنال پر مشتمل یہ کو ٹھی بانیٔ نوائے وقت بڑی آ سانی سے الاٹ کراسکتے تھے۔ اس ضمن میں ان کے عزیز قریبی دوست ڈاکٹر شبر حسن اور ڈاکٹر مبشر حسن نے جن کا تعلق پانی پت سے تھا ،پیشکش کی لیکن نظامی مر حوم نے معذرت کرلی۔ بعد ازاں میر ی والدہ مرحومہ نے اس کو ٹھی میں سے 2کنال کا پلاٹ قیمتاًحا صل کیا جس پر ہم نے اپنا مکان تعمیر کیا ۔اپنے والد مرحوم کے اسی اصول پر قائم رہتے ہو ئے، میں نے بھی رعائتی نرخوں پر کو ئی پلاٹ حا صل نہیں کیا ۔ آج کے دور میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے یا اپنی حیثیت کی بنا پر سستے داموں پلاٹ حاصل کرکے اسے کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچ دینے کو معیو ب نہیں سمجھا جاتا۔ قیام پاکستان کے فوراًبعد متروکہ وقف املاک اونے پونے داموں خریدلینے کی وبا عام ہو گئی تھی جس میں سیا ستدانوں ،بیوروکریٹس اور ان کے حواری بااثر طبقوں نے خوب ہا تھ رنگے۔آہستہ آ ہستہ یہ روایت فوج میںبھی سرایت کر گئی اور ایوب خان نے بیراجوں کے آ س پاس سیراب ہونے والی زمینیں فو جیوں اور غیر فو جیوں میں تقسیم کر کے اس کا آغاز کیا اور ڈی ایچ اے کا لو نیوں کے ذریعے تویہ ایک باقاعدہ کاروبار بن گیا ۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ مادر وطن کی حفاظت کے لیے جانیںنچھاور کرنے والے فو جی، پلاٹوں کے حق دار نہیں،ان کے علاوہ عام جوانوں کوبھی رہنے کی جگہ فراہم کرنا ریاست کا فرض ہے۔لیکن جن عناصر نے اس کوذریعہ ٔمعا ش بنا لیا، انہوں نے ہماری معاشرتی اقدار کو بھی متا ثر کیا۔

[pullquote]محترمہ عائشہ صدیقہ آغا نے اپنی کتاب ‘ملٹری ان کا رپوریٹیڈ‘ میں جوانہوں نے پرویز مشرف دور میں لکھی‘ ان ہو شر با حقائق کا ذکر کیا ہے۔ فوج کے رفا ہی کاموں کے لیے کاروباری ادارے بنانا کسی حد تک تو قابل قبول ہے لیکن فوج کا کام پراپرٹی ڈیلنگ بہرحال نہیں ہے ۔ محترمہ عائشہ صدیقہ کی کتاب کی رونمائی بھی جنرل پرویز مشرف نے رکوا دی تھی۔ مجھے یا د ہے کہ ا نہوںنے اخباری ایڈیٹروں کواسلام آباد مدعو کیا،وہ ایک جمہو ری حکومت کا تختہ الٹ کرتازہ تازہ چیف ایگزیکٹوبنے تھے،انہوں نے ہمیں بتا یا کہ فوج میں پلاٹ سراسر میرٹ پر دیئے جا تے ہیں،وہاں ایک پو ائنٹ سسٹم رائج ہے جس کے تحت افسروں کو رینک،مدت ملا زمت اور کارکردگی کی بنا پر پلاٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کی بات اصولی طور پر درست تھی، یقینا عمومی طور پر ایساہی ہو تا ہے لیکن بعض مواقع پر لالچ پورے ادارے کی ساکھ متاثر کر سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے، فوج کے ایک سابق سربراہ کو الاٹ ہو نے والا پلاٹ ان کی اہلیہ کو پسند نہیں آیا تو انھوں نے موقع پر جا کر ازخود اپنے لیے پسندیدہ پلاٹ چننے کو معیوب نہیں سمجھا ۔اسی طرح مشرف دور میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے نیب کے چیئرمین کے طور پر لاہو ر کے کنٹو نمنٹ میں اپنا ایک پلاٹ جما عت اسلامی کے ایک رہنما، جو پراپرٹی کاکام کرتے ہیں کے بھائی کے ہاتھ فروخت کر دیاجس پر ان کی اصول پسندی کا بھا نڈا اس وقت کے جما عت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے پریس کا نفرنس کرتے ہو ئے بیچ چو راہے پھوڑ دیا ۔
[/pullquote]

سیاستدان بھی اس علت سے مبرا نہیں ہیں۔ ضیا ء الحق کے غیر جما عتی انتخا بات سے آنے والے قومی اسمبلی کے ارکان کی وفاداریاں خریدنے اور میچور کرنے کیلئے انھیں پسندیدہ پلاٹ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے ہر سیا ستدان کو اس کی اہمیت کے مطابق اور سیاسی قد کا ٹھ کے مطابق پلاٹ دیا جاتا رہا۔ زیا دہ بھاری بھر کم سیاستدان کو مرضی کے کارنر پلاٹ الاٹ کیے جا تے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنے کے دور میں بھی جیالوں کو فراخدلی سے پلاٹوں سے نوازا گیا ۔ لاہور کی شادمان کالونی اس کی منہ بولتی تصویر ہے۔ صحا فیوں کو جن کی تنخو اہیں انتہا ئی قلیل ہو تی تھیں،میرٹ پر صحا فی کالونی میں پلاٹ دینا جا ئز ہے، لیکن میاں نواز شریف نے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے دور میں اپنے منظور نظربعض صحافیوں پر نوازشات کی انتہا کر دی ۔

آ ج کل متروکہ وقف املاک ٹرسٹ پر صدیق الفاروق کے روپ میں ایک انتہا ئی ایما ندار شخص فائز ہے جو امانت میں خیا نت نہیں کرنے دیتا، تاہم سابقہ دور میں متروکہ وقف املاک ٹرسٹ کی زمین اور فلیٹ بے دردی سے اونے پو نے منظو ر نظر افراد کو بانٹے گئے۔مکان بنا نے کے لیے پلاٹ حا صل کرنا یقینا معیوب بات نہیں، اس ضمن میں ریاست کی طرف سے میرٹ اور برابری کی بنیا د پر سہو لت دینا بری بات نہیں ہے۔لیکن اس سہو لت کے نا جا ئز استعمال کے ذریعے کئی کئی پلاٹ حا صل کیے جا ئیں اور اسے کاروبار بنا لیا جائے تو یہ عمل امانت میں خیا نت کے مترادف ہے۔ مقا م شکر ہے کہ مو جودہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف جو نہ صرف خود ایماندار ہیں بلکہ اپنے اردگرد بھی کسی بد عنوانی کو برداشت نہیں کرتے۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفا ق پرویز کیا نی کے بھائی کامران پرویزکیا نی کے خلا ف نیب نے62ارب رو پے کے ڈی ایچ اے ویلی فراڈ کی تحقیقا ت شروع کر دی ہے اور اس سلسلے میں گرین لائٹ آ رمی چیف راحیل شریف نے ہی دی ہے۔نیب کے چیئرمین قمر الزمان چو ہدری تو اس معاملے میں ایک قدم آ گے اور دو قدم پیچھے چل رہے تھے، لیکن اس ضمن میںآرمی چیف جنرل راحیل نے دو ٹو ک مؤقف اختیا ر کیا ۔

سابق آرمی چیف جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھائی بریگیڈئیر (ر) امجد پرویز کیانی کا دعویٰ ہے کہ کیانی برادران کو ڈی ایچ اے سٹی سکینڈل میں بدنام کیا جا رہا ہے،اشفاق کیانی کا ان کے کاروبار سے کچھ لینا دینا نہیں۔امجد کیانی نے کہا کہ ہمارے بارے میں انفرادی طور پر بات کرنے کے بجائے ہر معاملے میں جنرل اشفاق کیانی کا اس طرح حوالہ دیا جاتا ہے جیسے انہوں نے ہمارے کردہ اور ناکردہ کاموں میں مدد یا معاونت فراہم کی ہو۔امجد کیانی نے الزام عائد کیا کہ کیانی برادران کو بدنام کرنے کیلئے لمبے عرصے سے بالخصوص سوشل میڈیا پر منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ امجد کیانی کا دعویٰ ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان کے برادر اکبر جنرل کیانی کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ان کے مطابق اصل ٹارگٹ فوج کے سابق سربراہ ہیں۔تاہم اپنے پروگرام میں، میرے اس استفسار پر کہ اس سازش کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں؟ انہوں نے معنی خیز خاموشی اختیار کر لی۔امجد کیانی کی یہ وضاحت اپنی جگہ درست،لیکن وہ کیانی برادران کو بدنام کرنے والے ان پردہ نشینوں کو بے نقاب کر دیتے اور ان کے نام منظر عام پر لے آتے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا اور عوام جو اس حوالے سے ہیجانی کیفیت سے دوچار ہیں ان کی بھی کچھ تشفی ہو جاتی۔

ایک اور اطلا ع کے مطابق ایک پراپرٹی ٹائیکون جو اس سارے قضیے کے مرکز ی کردار ہیں ، وعدہ معاف گو اہ بننے پر رضا مند ی ظا ہر کر رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وہاں ایک انتہائی درخشاں مثال قائم کی ہے جہا ں آوے کا آ وا ہی بگڑا ہو۔ اس معاملے کی اگر غیر جانبدارانہ ،بے لا گ اور دوٹوک تحقیقات ہو ئی تو اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام منظر عام پر آئیں گے۔ ماضی کے بر عکس اب پاک فوج کے بارے میں کو ئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت۔

کامران کیانی جو اس سارے قضیے کے مرکزی کردار ہیں، ان کومتحدہ عرب امارات میں پناہ لینے کے بجائے لاہور آ کر اپنی پوزیشن صاف کرنی چاہیے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ویسے بھی کیانی برادران کیا سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے جنرل کیانی کے بطور آئی ایس آئی کے سربراہ اور چھ برس فوجی سربراہی کے دوران ان کی پوزیشن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا؟اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت…

بشکریہ روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے