جنگ کے بادل پاکستان کے افق پرچھا چکے ہیں اور شاید یہ میرا آخری خط ہو پتا نہیں یہ خط آپ کو ملے بھی یا نہیں بہرحال آپ کو اپنا احوال بھیجنے کا فریضہ تو ادا کرنا ضروری ہے نا۔ امی آپ ہمیشہ کہتی تھیں کہ بیٹا یہ جان وطن کی امانت ہے جب بھی وقت پڑے تو کبھی پیچھے مت رہ جانا ورنہ میں دودھ نہیں بخشوں گی آپ کو فخر ہونا چاہیئے آج صبح منہ اندھیرے ہونے والے دشمن کے حملے کا ہم نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ دشمن اپنی طاقت کے نشے میں مست ہماری سرحد کی جانب چلا آرہا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ ہمیں پھونک مارکرچراغ ِ سحری کی مثل بھجادے گا پر ہمارے اور اپنے درمیان موجود واضح فرق کو بھول گیا تھا امی! اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ اپنی طاقت پرنازاں میدانِ جنگ میں آیا ہواہے اور ہم اپنے جذبہ ایمانی کی بنا پر اس کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند حائل ہیں۔
امی جان ایک میں ہی کیا یہاں آپ جیسی کتنی ہی عظیم ماؤں کے فرزند موجود ہیں جو کہ اس پاک سرزمین کے دفاع میں اپنی جان نچھاور کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں اور اسی جذبے کے تحت ہم نے دشمن کے حملے کا شیرانہ دلی سے جواب دیا ہے۔ میں کیا بتاؤں آپ کو اس وقت کا منظرجب دشمن کےتوپ خانے کی گھن گرج ہماری فضاؤں میں گونجی اورہم نےاس بزدل دشمن کو جواب دینا شروع ہوا تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ موت عقاب کی صورت دشمن کے تعاقب میں ہے دشمن نے ہزار گولے برسائے لیکن ہماری ہمت کی دیوارنہ ڈھا سکے گویا یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم موت بن کردشمن کے تعاقب میں ہیں اوراپنے زعم میں مست ہماری موت بن کر آنے والے خوفزدہ ہوکرالٹے قدموں بھارت کی سمت دوڑے چلے جارہے تھے۔
امی اس وقت سمجھ آیا کہ یہ وطن ہمیں کس قدرعزیز ہے ایک جانب دشمن کی بڑی رجمنٹ تھی تو دوسری جانب ہماری مختصر کمپنی لیکن ہم میں سے ہراک جوان کا حوصلہ اس قدربلند تھا کہ ہم تو شہادت کی آرزو دل میں لئے بڑھ بڑھ کر دشمن پرجھپٹ رہے تھے لیکن موت تھی کہ ہمیں اپنی بانہوں میں سمیٹنے کے بجائے ہمارے قدموں کی خاک کو چوم کردشمن کو خاک میں ملا رہی تھی۔
امی اطلاعات ہیں کہ جنگ طویل ہوگی اور بھارت کی اس جارحیت کا بھرپورسبق سکھایا جائے گا نجانے کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب میں آپ کو نہیں دیکھ پاؤں گا آپ کے ہاتھوں کو نہیں چوم سکوں گا اگرواقعی ایسا ہو آپ وعدہ کریں کہ آپ روئیں گی نہیں بلکہ فخر سے ہرایک کو بتائیں گی کہ آپ کا یہ بیٹا پاک فوج کے اس ہراول دستے میں شامل تھا جس نے دشمن کے پہلے اورشدید وارکو اپنے سینے پر روکا۔
مجھے اندازہ ہے کہ میرے بعد آپ کو یقیناً کچھ پریشانیاں لاحق ہوں گی لیکن امید ہے کہ چھوٹا سمجھداری کے ساتھ گھرکے معاملات سنبھال لے گا آپ نے گذشتہ خط میں لکھا تھا کہ آپ نے میرے لئے کسی لڑکی کا انتخاب کیا ہے اسے بتا دیجئے گا کہ میں نے اپنی منزل کا انتخاب کرلیا ہے میرے ماتھے کا مقدرشادی کا سہرا نہیں جرات کا تمغہ ہے جسے وصول کرنے شاید آپ کو آنا پڑے۔
میں پھرکہتا ہوں امی جان معلوم نہیں جنگ کے اس ماحول میں یہ خط آپ تک پہنچے یا نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ میرے جذبات سے آشنا ہیں میں نے جب کبھی بھی آپ کو ستایا ہو آپ کی نافرمانی کی ہوتواس کے لئے مجھے معاف کردیجئے گا۔
خدا حافظ
امی جان
06 ستمبر 1965 میدانِ جنگ میں شہید ہو جانے والے گمنام سپاہی کا آخری خط۔