ٹرین کراچی سے روانہ ہوئی، ہم دو تھے، دونوں رفقائے کار(کولیگ) اور دوست بھی! غالباً لاہور اور راولپنڈی کے درمیان کوئی سٹیشن تھا۔ شام ڈھل چکی تھی اور رات اپنا بستر کھول رہی تھی۔ رفیقِ کار نے کہا ”تم بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ میں کچھ توجہ کتاب پر مرکوز کرتا جو جھولی میں کھلی پڑی تھی اور کچھ پلیٹ فارم کی چہل پہل دیکھتا۔ اچانک خیال آیا کہ باہر نکلوں اور ٹانگیں سیدھی کروں جو بیٹھے بیٹھے اکڑ سی گئی تھیں۔ ٹہلتے ٹہلتے کیا دیکھتا ہوں کہ ہم سفر ایک سٹال پر کھڑا کھانا کھا رہا ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس کی پشت میری طرف تھی۔ جو بات نوٹ کرنے والی تھی یہ تھی کہ وہ ایک حیرت انگیز سرعت کے ساتھ کھا رہا تھا۔ میں الٹے پائوں واپس آ کر نشست پر بیٹھ گیا۔ ٹرین نے وسل دی تو وہ واپس آیا۔ اُس نے ذکر کیا نہ ہی میں نے آنے والے تین عشروں کی رفاقتِ کار کے دوران جتایا، تا ہم اُسی وقت اُس کا ایک پروفائل ذہن میں بن گیا۔ گھر کی اٹھان اچھی ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔ جو تنگ دل نہ ہو وہ کہتا ہے اٹھو یار کچھ کھا پی لیں، یا سٹال سے کھانا لے آتا ہے۔ جبھی تو فرمایا گیا کہ ایک فرد کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ محمد اسد اسلام قبول کرنے کی داستان میں لکھتے ہیں کہ فلسطین میں سفر کر رہے تھے۔ ریل رُکی تو سامنے بیٹھا ہوا بدو پلیٹ فارم سے روٹی لے کر آیا۔ اس کے دو حصے کیے۔ ایک محمد اسد کو پیش کیا۔ یورپ کے رہنے والے اسد کے لیے یہ رویہ نیا اور عجیب تھا۔ لینے میں ہچکچاہٹ کی تو بدو نے کہا تم بھی مسافر ہو، میں بھی، تو تردد کیسا؟ یہ پہلا دروازہ تھا جو اسد کے دل میں عربوں کی طرف، یا یوں کہیے کہ اسلام کی طرف کھلا!
رفیقِ کار کا پروفائل اس واقعہ سے ذہن میں خود بخود بن گیا۔ رفاقتِ کار کے اگلے تین عشرے اس پروفائل کی تصدیق کرتے رہے۔ کھانا ہمیشہ اس قدر سرعت سے کھاتے کہ یا وحشت! ماتحتوں کو نوکری سے نکال کر فاتحانہ مسرت محسوس کرتے۔ یہاں صرف اِن دو پہلوئوں کا ذکر ہی کافی ہے!(باقی زیر تعمیر خود نوشت میں!!) تو پھر کیا نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ مزاج، شخصیت اٹھان، تربیت، فیملی بیک گرائونڈ، جینز(Genes)، یہ سب کچھ ظاہر سے نہیں معلوم کیے جا سکتے۔ خوش قامتی، خوش لباسی، چہرے کی معصومیت، دل کشی، بجا، مگر یہ تو معاملات ہیں جو اٹھان، تربیت، خاندانی پس منظر اور جینز کی اصل حقیقت واشگاف کرتے ہیں۔ مجبوری میں بھی دستِ سوال دراز کرنے میں ہچکچاہٹ، ملازموں کے خورونوش کا خیال، ماتحتوں پر اتنی ہی شفقت جتنا اوپر والوں کا احترام، مری کے رہنے والے خاندانی پس منظر کا بیان کرتے وقت کہا کرتے ہیں کہ سیب کے درخت پر سیب ہی لگیں گے۔ فردوسی نے محمود غزنوی پر یہی تو طنز کیا تھا ؎
اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تا بزانو بُدی
بادشاہ کی ماں اچھے خاندان کی ہوتی تو بادشاہ مجھے اس قدر نوازتا کہ سیم و زر گھٹنوں تک ہوتا!
تخت و تاج اور لباسِ فاخرہ کا تہذیب اور شائستگی سے کیا تعلق؟ سقراط کے سامنے ایک شخص، خوبرو، خوش لباس، اتراتا ہوا آیا تو سقراط نے کہا کچھ بولیے تا کہ آپ کی قابلیت معلوم ہو۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجیے کہ پطرس بخاری نے کیا کہا تھا۔ پطرس دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ ایک صاحب آئے پطرس نے اوپر نگاہ کیے بغیر کہا تشریف رکھیے، ملاقاتی نے کہا ”میں ایم این اے ہوں‘‘ پطرس کام کرتے رہے اور کہا: ”تو پھر آپ دو کرسیوں پر تشریف رکھیے‘‘!
گفتگو کی سواری دوسری سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ مہار کھینچتے ہیں اور اصل موضوع کو پلٹتے ہیں۔ پروفائل ملکوں کا اور قوموں کا بھی بنتا ہے۔ ظاہری حسن، بڑے بڑے منصوبے، دمکتی وسیع شاہراہیں، ساحلوں پر جلوہ افروز محلات، نہروں کے کنارے خوش نما وسیع رہائش گاہیں، حکمرانوں کا تزک و احتشام۔ یہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود، قوم کی ذہنی پختگی، ملک کی ترقی، اِس ظاہر پر انحصار نہیں کرتی! جدہ، رباط، قاہرہ، دوحہ، تاشقند، اشک آباد، لاہور اور کراچی کے محلات قابل رشک ہیں۔ ایسے کہ اوباما اور ڈیوڈ کیمرون کیا، ملکہ الزبتھ کے نصیب میں بھی نہیں، مگر ان میں سے کسی ایک ملک میں بھی رول آف لا ہے نہ فرد کی عزت یقینی ہے۔
ہمارے ملک کا پروفائل کیسا ہے؟ عالی قدر ہے یا اسفل؟ بلند مرتبہ ہے یا پست؟ آسمان کی طرف جا رہا ہے یا کھائی کی طرف؟ چہرہ تابناک ہے یا اس پر نحوست صاف دکھائی دے رہی ہے؟ گزشتہ ہفتے ہمارا ملکی پروفائل لاہور میں ایک بار پھر منظرِ عام پر آ گیا۔ ہمارے سربراہِ حکومت کے صاحبزادے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیرونِ ملک سے لاہور پہنچے۔ وی آئی پی لائونج کے راستے لفٹ میں داخل ہوئے تو بجلی بند ہو گئی۔ لفٹ جہاں تھی، وہیں رک گئی۔ آپ کا کیا خیال ہے شہزادے کو کتنی دیر لفٹ میں رکنا پڑا؟ گھنٹہ؟ آدھا گھنٹہ؟ نہیں، پانچ منٹ نصف جس کے اڑھائی منٹ ہوتے ہیں! پھر کیا ہوا؟ سول ایوی ایشن حکام کی، اخباری زبان میں، دوڑیں لگ گئیں۔ کچھ جنریٹروں کی طرف لپکے، کچھ نے یو پی ایس کے گوڈے گٹے پکڑے، لفٹ چلائی گئی، صاحبزادے اور اہلِ خانہ باہر نکلے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ اُس کے بعد تین واقعات رونما ہوئے۔ اول، صاحبزادے نے موقع پر عملہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ دوم، مشیر برائے ہوا بازی نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔ سوم، اس واقعہ پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
اب یہاں ایک عام شہری کے پست اور تخریبی ذہن میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ اول، صاحبزادے نے عملے پر شدید برہمی کا اظہار کس حیثیت سے کیا؟ اُن کے پاس سرکاری عہدہ ہے نہ سیاسی منصب۔ وہ ایک شہری ہیں، کیا کوئی اور شہری برہمی کا اور وہ بھی شدید برہمی کا اظہار کر سکتاہے؟ دوم، بجلی بند ہونے کی ذمہ داری ایئر پورٹ کے افسروں یا کارکنوں پر کیسے عاید کی جا سکتی ہے؟ برہمی کا نشانہ انہیں بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ صاحبزادے کو اس برہمی کا اظہار اپنے بزرگوں پر کرنا چاہیے تھے جو تین دہائیوں سے صوبے پر حکمرانی کر رہے ہیں، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کی قدرت رکھتے رہے ہیں اور اب بھی یہ قدرت ان کے پاس ہے۔ اس طویل عرصہ میں وہ اتنا بھی نہیں کر سکے کہ کم از کم ایئر پورٹوں، ہسپتالوں، ریلوے سٹیشنوں اور تعلیمی اداروں میں برقی رو کا تعطل نہ ہونے پائے۔ سوم، عوام اس صورت حال سے ہر روز کئی بار گزرتے ہیں۔ کاش! صاحبزادے کو شعری ذوق ہوتا کہ بقول میرؔ ؎
اس سے راہِ سخن نکلتی تھی
شعر ہوتا ترا شعار اے کاش!
تو عوام ان کی خدمت میں ڈرتے ڈرتے عرض کرتے ؎
اے شمع! تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
چہارم، اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بجلی بند ہونے سے ڈیڑھ گھنٹہ تک کام متاثر ہوتا رہا اس دوران جنریٹر بھی نہ چلے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تین پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ تین پروازوں کے مسافر سینکڑوں کی تعداد میں ہوں گے! کیا مشیر ہوا بازی نے اس کی بھی رپورٹ طلب کی؟ اور کیا اس حوالے سے بھی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی؟ نہیں! یقینا نہیں؟ اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تہذیب سے دور ہیں۔ مہذب وہ نہیں ہوتا جو امیر ہو، مہذب وہ ہوتا ہے جو قانون کا پابند ہو۔ خواہ وہ فرد ہو یا قوم یا ملک! لاکھوں کروڑوں مسلمان، سروں پر بستر اور کاندھوں پر پوٹلیاں رکھے جن ملکوں کی طرف قافلہ در قافلہ، ہجرت کر رہے ہیں، ان ملکوں کے پروفائل میں ذرائع روزگار کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ قانون کی حکمرانی ہے، رول آف لا ہے۔ ان ملکوں میں سربراہ حکومت یا سربراہِ ریاست کا صاحبزادہ عملے پر برہمی جھاڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا! وی آئی پی لائونج اگر ہو بھی تو، استعمال کرنے کا مجاز نہیں۔ ان ملکوں کے ہوائی اڈوں پر وی آئی پی لائونج، ایئر لائنوں کے ہیں۔ آپ کے پاس بزنس کلاس یا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ ہے تو استعمال کر سکتے ہیں۔ یا قیمت ادا کیجیے اور لائونج استعمال کیجیے۔ ان ملکوں میں مشیر اور وزیر، رپورٹ اس لیے طلب کرتے ہیں اور ان ملکوں میں انکوائری کمیٹیاں اس لیے تشکیل پاتی ہیں کہ عوام کو کیوں زحمت اٹھانا پڑی؟ تین پروازیں تاخیر کا کیوں شکار ہوئیں؟ ان
ملکوں میں، ایسا ہو جائے تو مسافروں سے معذرت کی جاتی ہے۔ جاپان میں ٹرین تین منٹ تاخیر سے پہنچی تو ایک ایک مسافر سے فرداً فرداً معافی مانگی گئی۔ یہ ہے تہذیب! یہ ہے شائستگی! یہ ہے پروفائل کی تابناکی! شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی خاندانی بادشاہتوں میں اور پاکستان کے مقتدر خاندانوں کی بادشاہت میں کیا فرق ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ سندھ میں شاہی خاندان کی صاحبزادیاں ووٹ ڈالنے نکلتی ہیں تو پروٹوکول عروج پر ہوتا ہے۔ راستے مسدود کر دیئے جاتے ہیں۔ گاڑیوں کے میلوں لمبے قافلے جلال و جمال دکھا رہے ہوتے ہیں۔ بلیاں جہازوں پر سوار ہیں۔ ان کے لیے گاڑیاں الگ مخصوص ہیں۔ پنجاب میں پانچ منٹ لفٹ میں رہنا پڑا تو غلام ہر طرف بھاگنے لگ گئے اور یوں لگا جیسے صحرا میں اچانک بگولوں کا رقص شروع ہو جائے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور جمہوریت ہے تو احمق ہے ، گائودی ہے۔ جمہوریت آپ کے قریب ہے، بس اگلے موڑ پر رکی کھڑی ہے۔ ان خاندانی بادشاہتوں سے جان چھڑائیے تو جمہوریت آگے بڑھے۔ پروفائل کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مستقبل میں جھانکا جا سکتا ہے۔ یہ پروفائل ہی تو تھا جس کی بنیاد پر عقل مندوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اقتصادی راہداری میں ضرور رخنہ اندازی ہو گی، گند پڑے گا، سو پڑا۔ جب استاد بچے کو کہتا ہے کہ تم امتحان میں پٹ جائو گے تو اس کے سامنے بچے کا پروفائل ہوتا ہے ورنہ اسے طالب علم سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں پروفائل تھیوری سے بڑے بڑے سیریل قاتل پکڑے جا رہے ہیں۔ مجرم کا پروفائل تیار کیا جاتا ہے۔ وہ پروفائل جس پر منطبق ہو جائے، وہ پکڑا جاتا ہے۔ آپ ایمرجنسی میں جن چند مخصوص دوستوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں، ان کا پروفائل آپ کے ذہن میں ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہنچ جائیں گے۔ جن سے آپ رابطہ نہیں کرتے، ان کا پروفائل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے، رابطہ نہ کیجیے۔!
ہمارا موجودہ ملکی پروفائل بتا رہا ہے کہ صاحبزادوں اور صاحبزادیوں پر مشتمل ایک اقلیت اس ملک سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ عوام ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پروفائل تبدیل کرو! اللہ کے بندو! ملک کا پروفائل بدلو۔ اس سے پہلے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کی تیسری نسل تمہاری گردنوں پر سوار ہو جائے!
بشکریہ روزنامہ دنیا