آزادی صحافت چھوڑیں جان کی فکر کریں

ایک زمانہ تھا کہ اخبار بکتے تھے تب نظریات کے نام پر جنگ ہوتی تھی اب مفادات کی جنگ ہو تی ہے ۔عراق پر حملے سے پہلے نیو یارک ٹائمز کی خبرقارئین کے لئے صحیفے کی حیثیت رکھتی تھی ۔عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی خبر نے طبل جنگ بجا دیا ۔امریکہ نے کھربوں ڈالر اس جنگ میں جھونک دیئے ۔وہاں سے ایٹمی ہتھیار تو نہیں نکلے البتہ داعش بر آمد ہو گئی ۔فائدہ صرف سرمایہ داروں کو ہوا جن کا فارمولہ ہے کہ ہر بربادی میں مواقع چھپے ہو تے ہیں۔

اب نیو یارک ٹائمز سمٹ گیا اس کی سرکولیشن محدود ہو گئی ۔مگر اس کے مالکان کو اس سے غرض نہیں کیونکہ انھوں نے دس سال میں اتنا مال بنا لیا جتنا نیویارک ٹائمز ایک صدی میں نہ بنا پاتا ۔

دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اب میڈیا ایک بڑا بزنس بن چکا ہےمگر یہاں بھی اب خالص میڈیا گروپوں کی جگہ وہ گروپ لے رہے ہیں جن کے دیگر کاروباروں کو میڈیا کی چھتری درکار ہے ۔بڑے بڑے سرمایہ کار وں نے میڈیا ہاؤ سزکھول لئے ہیں ۔جو اس میدان میں اترے ان کے کاروباروں نے دن دوگنی اور رات چونگنی ترقی کی ا س کو دیکھتے ہوئے کچھ دیگرگروپ بھی میدان میں کودنے والے ہیں ۔ ان گروپوں میں ایڈیٹر نام کی پوسٹ اب میڈیا مینیجر میں تبدیل ہوچکی ہے ۔

Pakistan_live_tv

ایک بڑے اخباری گروپ کے ایڈیٹر کو گزشتہ دنوں اس لئے نوکری سے نکال دیا گیا کہ مالک نے ایسے وقت اخبار کی لیڈ تبدیل کرنے کی فرمائش کی جب اخبار آدھا چھپ چکا تھا ۔ان میڈیا گروپوں میں رپورٹروں کے فرائض ِ منصبی میں مالکان کی مختلف محکموں میں رکی ہوئی فائلوں کو حرکت میں رکھنا ہوتا ہے ۔ انھیں نوکری دیتے وقت یہ بتا دیا جاتا ہے کہ کن ادروں اور شخصیات کے خلاف خبر نہیں دی جا سکتی ۔ایک دور تھا جب اس لسٹ میں صرف حساس ادارے ہی آتے تھے مگر اب یہ لسٹ اتنی پھیل چکی ہے کہ اس میں ایف بی آر سے لے کر مدرسے تک سب آتے ہیں۔

جس ٹی وی پروگرام کی ریٹنگ کے چرچے ہو رہے ہوتے ہیں اور عوام اینکر کی دلیری پر داد دے رہے ہوتے ہیں شام کو وہی اینکر اپنے مالک کے ساتھ پنڈکے چوہدری کی چوکھٹ پر کورنش بجا ئے کھڑا ہوتا ہے اور اپنے دام لے کر اٹھتا ہے ۔ پنڈ کے چوہدری بھی جان گئے ہیں کہ سب سے دشمنی مول لی جا سکتی ہے مگر مراثی کے ساتھ نہیں ۔ سنا ہے ہیجڑوں اور بھکاریوں میں اگر کہیں لڑائی ہو جائے تو اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ ان کے حلقے میں کیوں آئے ۔ان لڑائیوں کا دائرہ اب میڈیا تک بھی پھیل گیا ہے ۔

ایک میڈیا گروپ جو بڑے طمطراق سے وارد ہو رہا تھا اس کی بولتی اس کے بولنے سے پہلے ہی بندکر دی گئی۔کارپوریشنیں سفید ہاتھی بن کر قومی خزانے کو چاٹ رہی ہیں مگر ان کی نجکاری اس لئے نہیں کی جاتی کہ لاکھوں لوگ بیروزگار ہو جائیں گے ۔مگر بول کا حقہ پانی پھر بھی بند کر دیا گیا اور اس سے وابستہ کم از کم ایک لاکھ لوگ بے روزگارہو گئے ۔ مگر چونکہ سب مراثیوں ،ہیجڑوں اور بھکاریوں نے ایکا کر لیا تھا اس لئے پنڈ کے چوہدریوں کے پا س اورکوئی رستہ نہیں تھا ۔بول کے بعد سنا ہے کراچی کے ایک بڑے بروکر کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ اس کے بعد سےسٹاک مارکیٹ ہچکولے کھا رہی ہے ۔

بانئ پاکستان نے کہا تھا کہ The press and the Nation rise and fall Together۔ مشرف دور میں ملک نے ترقی کی تو میڈیا کی بھی چاندی ہوئی ۔مگر اب چاند ماری ہو رہی ہے اور میڈیا بھی اس کا بڑا حصہ دار ہے ۔ ریاست بھی انہدام کا شکار ہے اور پریس بھی ۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ نے امریکی قوم کو جنگ میں دھکیل کر اسے چودہ کھرب ڈالر کا مقروض کردیا مگر چند سرمایہ دار کھرب پتی بن گئے ۔یہاں بھی چند لوگ کھرب پتی بن رہے ہیں اور باقی دیوالیہ ،امریکہ کی جگہ چین لے رہا ہے بحرلکاہل سے لے کر بحیرہ عرب تک ۔جو بولے گا اند ر ہو جائے گا ۔

[pullquote]پنڈ کے چودہری نے تمام مراثیوں کو آگاہ کر دیا ہے ،مراثیوں کو اس بات پر اعتراض نہیں وہ تو صرف اپنے دام بڑھانا چاہتے ہیں اور اپنے ناجائز کاروباروں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوتی ہے جب میرے ساتھی آزادی صحافت کے نعرے لگاتے ہیں ۔آزادی صحافت نام کی چیز مالکان نے اپنے مفادات کے عوض گروی رکھ دی ۔اب صرٖف صحافیوں کی جان بچی ہے جو داعش جیسے گروہوں کے نشانے پر ہے ۔مالکان مال بچانے کی فکر میں ہیں اور صحافی جان بچانے کی ۔۔۔۔۔؟[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے