روز کی طرح وہ اور اس کا دوست گلی کی نکڑ پہ کھڑے تھے ، جہاں سے آتی جاتی خواتيں کی نظر شماری ہو رہی تھی۔ ان دنوں امتحانات سے فراغت کے باعث اس کا پسنديدہ مشغلہ یہی تھا۔
آج تو وہ باقاعدہ پرچی بھی پھینک رہا تھا۔ خواتين پہ فقرے بھی کسے جا رہے تھے، کچھ لڑکياں گھبرا جاتی، جسے ديکھ کر وہ لطف اندوز ہو رہا تھا۔اس کے دوست نے جب ديکھا کہ آج تو يہ حد ہی پھلانگ رہا ہے تو اسے منع کيا۔
يار بس کر دے بہت زيادہ ہو گيا ہے! ہمارے گھر ميں بھی بہن بيٹياں ہيں۔
ابے چپ! وہ میری طرف منہ کر کے غصے سے بولا۔
ہمارے گھر کی عورتيں اس طرح شتر بے مہار نہيں پھرتیيں، وہ گھر ميں ہی رہتی ہيں۔ باہر جانا اشد ضروری ہو تو مرد کے بغير گھر سےنہيں نکلتيں، پردہ دار ہيں وہ۔
اور ان کو ديکھو يہ تو بن سنور کر اکيلی نکلتی ہی اس ليے ہيں کہ مرد ان کو ديکھ کر آہيں بھريں، ستائش کی نظروں سے ديکھيں، سراہيں، تعريف کريں۔ سو ميں کر رہا ہوں يہ کہاں اور ہمارے گھر کی خواتين کہاں؟
شام کو گھر جاتے ہوئے وہ کافی مسرور تھا کہ آج اس نے بہت سی پرچياں پھینکی تھیں، جن پہ اپنا رابطہ نمبر لکھا تھا۔ اسے يقين تھا کوئی نہ کوئی لڑکی ضرور اس سے رابطہ کر لے گی۔
پھر اچانک اسے ياد آیا صبح ماں نے کہا تھا جلدی واپس آ جانا، بہن کو بازار لے جانا اسے کچھ کام ہے، ليکن اب کيا ہو سکتا تھا وہ بھول چکا تھا۔
[pullquote] اس اثنا ميں گھر کے قريب پہنچتے ہی گيٹ کے پاس جو منظر اس کے سامنے تھا وہ اس کی نگاہوں کے ليے نا قابل یقین تھا۔ اس کی بہن اس کے اسی دوست (کہ جوصبح اسے منع کر رہا تھا ان حرکتوں سے) کے موٹرسائیکل سے اتر رہی تھی اور ان کی بے تکلفی بتا رہی تھی يہ ملاقات پہلی نہيں ہے۔
[/pullquote]