گزشتہ ہفتے میں نے اپنی فیس بک پر ملکہ ترنم نور جہاں کی تصویر لگائی ہم دونوں ایک ٹیبل پر بیٹھے ہیں اور بہت خوشگوار موڈ میں ہیں۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ میں نے اور امجد اسلام نے پروین شاکر کی لاہور آمد پر ان کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں شہر کے کم وبیش سب نامور ادیبوں نے شرکت کی۔پروین شاکر نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس عشائیے میں ملکہ ترنم کو بھی مدعو کریں وہ ہم سب کی فیورٹ تھیں اور اس تقریب میں ان کی آمد ہم سب کے لئے باعث مسرت تھی چنانچہ انہیں مدعو کیا گیا اور وہ تشریف لائیں !
فیس بک پر ڈاکٹر نجیب جمالی نے پوچھا کہ تصویر میں آپ دونوں خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں یہ کیا’’چکر‘‘ ہے اور دوسرے اس تقریب کی وجہ تسمیہ کیا تھی وجہ تسمیہ تو میں نے بتا دی اور یہ جو ہم ’’خوش وخرم زندگی ‘‘ گزارتے نظر آ رہے تھے تو وجہ صاف ظاہر ہے۔ میرے اس موڈ کی وجہ تو برصغیر کی نامور گلوکارہ کی ہم نشینی تھی اور میڈم کی بھی یقیناً کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی ہم دونوں بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے مگر چونکہ میں یکے از میزبان تھا تو مجھے دوسرے مہمانوں کو بھی اٹینڈ کرنا تھا چنانچہ میں اٹھ کر پچھلی میز پر چلا گیا جہاں احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد اور دوسرے اکابرین تشریف فرما تھے اس پر مہربان میڈم نے گردن پیچھے کو موڑ کر گپ شپ شروع کر دی اس دوران اشفاق احمد کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے میڈم سے کہا…..
’’آپ کی گردن کو بل پڑ جائے گا آپ ادھر ہی تشریف لے آئیں ‘‘ چنانچہ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے دوبارہ ان کی صحبت نصیب ہو رہی تھی، وہ اس دن بہت چہک رہی تھیں ملکہ پکھراج سے ان کی چشمک تھی چنانچہ باتو ں باتوں میں کہنے لگیں ملکہ کی بیٹی طاہرہ سید کا بیان اخبار میں آیا ہے کہ ’’ میں ساری عمر اپنی ماں کےسائے تلے رہی ہوں ‘‘ یہ سن کر نور جہاں نے پنجابی میں کہا ’’ہائے وچاری ، فیر تےساری عمردُھپ وچ سڑی ناں‘‘یعنی’’ ہائےبیچاری پھرتو ساری عمر دھوپ ہی میں جلتی رہی ناں‘‘ جس پر سب نے قہقہہ لگایا اور کچھ دیر بعد اندازہ لگایا کہ میڈم ویسے تو جب موڈ میں ہوں ان کی صحبت میں بیٹھے افراد کے چہروں پر یا تو دائمی مسکراہٹ نظر آتی ہے اور درمیان ہی درمیان میں قہقہے بھی گونجتےہیں ۔سو اس روز میڈم اسی موڈ میں تھیں اور خاص بات یہ تھی کہ کوئی چٹکلہ چھوڑنے کے بعد ہنستے ہوئے میری طرف دیکھتی تھیں کہ اس کی کماحقہ داد کوئی مزاح نگار ہی دے سکتا ہے یا ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو ۔
پروین شاکر اس شام بہت خوش تھیں میں ان کی ٹیبل پر گیا تو انہوں نے خواہ مخواہ کے تکلف سے کام لیتے ہوئے اس شام کیلئے میرا اور امجد کا بہت شکریہ ادا کیا ۔جو مجھے اچھا نہیں لگا میں نے کہا پروین آپ سے ہمارا رشتہ محبت کا ہے اور یہ ساری عمر برقرار رہے گا سو ہم اس خوبصورت شاعرہ کو کبھی فراموش نہ کر سکے۔ جب ایک ٹریفک حادثے میں ان کا انتقال ہوا تو میں اور امجد اسلام آباد گئے وہاں ان کے بارہ تیرہ سالہ بیٹے مراد سے ملاقات ہوئی جسے وہ جوتے خود پہنایا کرتی تھیں اس روز وہ بہت پر اعتماد نظر آ رہا تھا اور گھر کے کسی بزرگ کی طرح آنے جانے والوں کو خوش آمدید اور رخصت کر رہا تھا اب وہ اس سرپرستی سے جو نکل گیا تھا جس میں اس کے جوتے اس کی ماں پہنایا کرتی تھی ۔
میڈم نور جہاں کی بات درمیان ہی میں رہ گئی مجھ سے سوال چونکہ صرف میری اور میڈم کی خوشگوار تصویر کے حوالےسے پوچھا گیا تھا سو دوبارہ ادھر آتا ہوں ۔میں شاید اس وقت چالیس پینتالیس کے پیٹے میں تھا اور میری شکل و صورت آج کی نسبت تھوڑی بہت تو بہتر تھی۔میڈیم اور اس ٹیبل کے مہمانوں کو ذرا جلدی جانا تھا چنانچہ میں اور امجد میڈم کو کار تک چھوڑنے ان کے ساتھ گئے کار میں بیٹھتے ہوئے میڈم نے مجھے مخاطب کیا اور کہا آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو اپنے ہاتھ کی پکی بریانی کھلاتی ہوں میں نے میڈم کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور کہا میں نے ابھی مہمانوں کو رخصت کرنا ہے ۔میرا وعدہ ہے میں آپ کی بریانی چکھنے آپ کی طرف ضرور آئوں گا اس پر انہوں نے کمال محبت کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ’’میں آپ کا انتظار کروں گی آپ میرا فون نمبر لکھیں‘‘ یہ سن کر امجد بولا ’’میڈم میرے پاس آپ کا نمبر ہے میں عطا کو دے دوں گا‘‘ امجد کی یہ فراخ دلانہ آفر سن کر میڈم نے امجد کو مخاطب کیا اور پنجابی میں کہا ’’توں اپنا نمبر اپنے کول رکھ، عطا صاحب تسی نمبر لکھو‘‘ (تم اپنا نمبر اپنے پاس رکھو عطا صاحب آپ میرا نمبر لکھیں)
میں پاک وہند کی اس عظیم مغنیہ کے ساتھ گزرا ہوا یہ وقت کبھی نہیں بھولوں گا تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ میں میڈم سے اپنا کیا وعدہ پورا نہ کر سکا، حالانکہ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا جو میں نے گنوا دیا اس کے علاوہ میں نے میڈم کی بریانی کی تعریف بھی بہت سنی ہوئی تھی افسوس میں اس سے بھی محروم رہا !
جب ہم نے میڈم کو رخصت کر دیا تو اشفاق صاحب کے چہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’ذرا امجد کو بلائو ،بڑا پھنے خاں بنتا تھا‘‘ حالانکہ امجد ان کے پہلو میں کھڑا تھا۔
بشکریہ جنگ