[pullquote]میں چٹیاں فجراں لبدی آں
مینوں گھپ اندھیرے لبد ے نے۔۔۔
مینوں دل دا محرم نئیں ملیا،
مینوں یار بہتیرے لبدے نے۔۔۔[/pullquote]
لاہور کے شاہی قلعے کی سیڑھیاں چڑھتے سمے مجھے پر ایک اجنبیت طاری تھی۔ ان دیواروں سے میرا یارانہ اور عشق کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔ ہم نے کئی پل خلوت میں بِتائے تھے۔ ہمارے تو دکھ اور اکیلا پن بھی سانجھا تھا پھر یہ اجنبیت کی بو کیسی تھی۔۔۔ دیواروں نے آج مجھ سے نظریں پھیر رکھی تھیں۔۔۔
اسی اثناء میں میں نے ساتھ چلتے اجنبی کو بغور دیکھا مگر ساتھ ہی عقب سے آواز آئی۔ ۔ ۔
‘کر دی نہ تو نے بھی بے وفائی، لے آئی نہ ایک گوشت پوست کے بنے مرد کو ہمارے سامنے۔۔۔ بنا دیا نہ تونے اس کو ہمارا رقیب۔۔۔ کر دیا نہ تو نے ہمیں اکیلا۔۔۔’
قلعے کی سب سے اونچی دیوار نے سب کی رہنمائی کرتے ہوئے روٹھے محبوب کی طرح گِلہ کیا۔ ۔ ۔
‘ نہیں نہیں۔ ۔ ۔ یہ تمہارا رقیب نہیں ہو سکتا، یہ تو ایک عام سا شخص ہے۔۔۔ “
میں اپنی صفائی میں منمنائی۔۔۔
قلعے کی سب سے اونچی دیوار نے زور کا قہقہہ مارا۔۔۔
“یہ شخص عام ہے؟؟؟ دیکھ کیسے سینہ تان کر چل رہا ہے تیرے ساتھ۔ آج سے پہلے تو تُو کبھی کسی کو نہ لائی ہم سے ملوانے”
میں نے شرمندگی سے گردن جھکا لی اور کُن آنکھیوں سے اس شخص کی جانب دیکھا۔ ۔ ۔ وہ شخص جس کے لمس سے میرا وجود نا آشنا تھا، وہ شخص جس کے بدن کی خوشبو نے کبھی میرے نتھنوں کو نہ چھوا تھا۔۔۔ وہ شخص اجنبی تھا مگر یہ کیا کہ بالا ہی بالا وہ قلعے کی ان دیواروں سے زیادہ عزیز اور محبوب ہو گیا تھا۔
میں نے شرمندگی سے دیوار کی جانب معذرت خوانہ نظروں سے دیکھا۔ میں ابھی اقبالِ جرم کے لیے الفاظ تلاش کر ہی رہی تھی کہ قلعے کی دیواروں نے وین ڈالنا شروع کر دیا۔۔۔ پہلے پہل چھوٹی دیواروں نے سسکیاں بھرنا شروع کی پھر ان کی دیکھا دیکھی اونچی دیواروں نے بھی ضبط کا دامن چھوڑ دیا۔ پورا قلعہ سینہ پیٹ پیٹ کر رو رہا تھا۔۔۔
‘تو نے بے وفائی کی ہے ہم سے۔۔۔ بے وفا۔۔۔ بے وفا۔۔۔”
دیواروں کی سسکیاں اب چیخوں میں بدل گئی تھیں۔ ۔ ۔ میں نے ڈر کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے اور آنکھیں بند کر لیں۔ ۔ ۔
شور اور سسکیاں بڑھنے لگیں۔ دیواروں کی آہ و پکار نے پورے قلعے کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔۔۔
میں نے وحشت سے آنکھیں کھولیں، سامنے اجنبی تھا۔ ۔ ۔ اپنے تمام ہتھیاروں سے لیس مجھے فتح کرنے کیلئے۔۔۔ یہ جانے بغیر کہ میں تو کب کی فتح ہو چکی۔ ۔ ۔ قلعے کی زمین نے میرے پاؤں مضبوطی سے تھام لیئے۔ ۔ ۔
‘ جانا مت تو۔۔۔ ڈریو مت تو۔۔۔ چیخنے دے ان بے جان دیواروں کو تو۔۔۔ وین کرنے دے۔۔۔ ان کے نصیب میں ہی رونا ہے۔۔۔ تو نے کیوں دل لگایا تھا ان دیواروں سے۔۔۔ دیکھ اس اجنبی کو۔۔۔ دیکھ اس کو۔۔۔ دیکھ اس کو۔۔۔’
زمین گلہ پھاڑ پھاڑ کرچلانے لگی۔
یکایک قلعے کی دیواریں ہوا میں حلول ہونے لگیں اور آہ و بکا پس منظر میں جانے لگی۔۔۔میرے اجنبی محبوب کا وجود بھی حلول ہونے لگا۔۔۔ اب وہ اپنے رعب و دبدبے کے ساتھ قلعے کا بادشاہ بنا کھڑا تھا۔۔۔ مگر یہ کیا کہ اب محبوب بادشاہ بھی نہ رہا تھا، اب اُس کی جگہ اُسی کی سنہری مورتی نے لے لی تھی۔ ۔۔ بے جان مورتی۔۔۔ جو مجھے عشق کرنے سے روک نہیں سکتی تھی۔۔۔ نہ اس مورتی میں روح تھی، نہ دل، مگر وہ مجھے عزیز تھی۔۔۔۔ کیونکہ وہ میرے محبوب کی مورتی تھی اور میں اس کی باندی۔۔۔ نہ جانے کہاں سے میرے پیروں میں گھنگروں بندھ گئے۔۔۔۔ مجھ پر وجد طاری ہونے لگا۔۔۔ میں مورتی کے آگے سجدہ ریز ہو نا چاہتی تھی مگر پیروں کے گھنگروں نے جھکنے نہ دیا۔۔۔ میرے پاؤں میرے محبوب کے عشق کا رقص کرنے لگے۔ ۔ ۔ میں مورتی کے ارد گرد چکر کاٹنے لگی۔۔۔ اب یہ دیواریں بھی اپنا سوگ چھوڑ کر میرے ساتھ رقص میں مصروف تھیں۔۔۔ وہ بھی میرے اجنبی محبوب کے گرد چکر لگا لگا کر رقص کر رہیں تھیں۔ ۔ ۔ میں، دیواریں، زمین اور آسمان۔۔۔ ہم سب دھمالِ عشق میں مشغول تھے۔ ۔ ۔
میں وجد میں ناچ رہی تھی اور چلا رہی تھی۔۔۔
‘میرا اجنبی محبوب۔۔۔ میرے محبوب کی مورتی۔۔۔ میرے دل دا محرم۔۔۔ میرے دل دا محرم۔۔۔ میرے دل دا محرم۔۔۔ میرے دل دا محرم۔۔۔’
بشکریہ
بول پلاٹون