لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا، کورٹ مارشل کی کارروائی شروع
راولپنڈی: پاک فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر ٹاپ سٹی کیس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے پاک فوج کی جانب سے تفصیلی تحقیقات کی گئیں۔ تحقیقات کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مناسب تادیبی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل (ر) فیض نے ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد مواقع پر پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی، اس حوالے سے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا جا چکا ہے اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے
ذرائع کے مطابق فوج کے کڑے ترین احتساب کے عمل کا کوئی ثانی نہیں، آج ایک بار پھر ثابت ہوگیا، فوج ایک منظم ادارہ ہے اور ہمیشہ اپنے تگڑے انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی کے میکنزم کی وجہ سے جانا جاتا ہے جس کی مثال ماضی میں ہمیں بارہا دفعہ ملتی رہی ہے، نو مئی کے واقعات کے بعد بھی پوری قوم نے دیکھا کہ کیسے فوج کا یہ اِحتساب کا کڑا عمل حرکت میں آیا اور انتہائی سُرّعت کے ساتھ چند ہی دنوں میں متعلقہ اور ذمہ دار لوگوں کو سزائیں سنا دی گئی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اِسی طرح پہلے بھی کئی سینئر افسران کو آرمی رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جا چکی ہیں، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے یہ اِسی سلسلے کا شاخسانہ ہے۔
فوج کے مطابق ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ فوج اپنے کڑے احتسابی عمل کو کئی بار عملی جامہ پہلے بھی پہنا چکی ہے اِس احتسابی عمل کی نظیر آپ کو کسی اور ادارے میں نہیں ملتی، فوج نے ایک بار پھر واضح طور پر ثابت کر دیا کہ کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنے ہی اونچے عہدے پر کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر نہیں اور دوسری بات یہ کے پاک فوج کا احتسابی عمل بہت شفاف اور کڑا ہے جو فوری حرکت میں آ کر حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں، معاملات کو قانون کے مطابق سختی کے ساتھ نمٹاتا ہے۔
’کورٹ مارشل کا عمل شروع‘: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف کارروائی کیسے ہوگی؟
شہزاد ملک
بی بی سی اردو، اسلام آباد
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور اس وقت وہ فوجی تحویل میں ہیں۔
پیر کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی ’کورٹ آف انکوائری‘ ہوئی تاکہ ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگایا جاسکے۔
اس کے نتیجے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف ’مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔‘
فوج نے اعتراف کیا ہے کہ فیض حمید کے حوالے سے ’ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔‘
اگرچہ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے اسے ایک ایسا ’احتسابی عمل‘ قرار دیا ہے جس سے ’فوج پر عوام کا اعتماد بڑھے گا‘ تاہم آئی ایس پی آر کی جانب سے ان ’خلاف ورزیوں‘ کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
اس پیشرفت نے کئی سوال جنم دیے ہیں، جیسے ٹاپ سٹی کیس کیا ہے اور کسی فوجی اہلکار کے خلاف کورٹ آف انکوائری یا کورٹ مارشل کی کارروائی کیسے عمل میں آتی ہے۔
فیض حمید کے خلاف کارروائی کا کیا مطلب ہے؟
فوج کے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ میں ذمہ داریں ادا کرنے والے اور جبری گمشدگیوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے سے متعلق جو بیان جاری کیا ہے اس میں ’تمام قانونی پہلو کوور ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ٹاپ سٹی سے متعلق ابتدائی سماعت کے بعد درخواست گزار کو متعقلہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کی روشنی میں ہی 24 اپریل کو فوج کی قیادت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک میجر جنرل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بادی النظر میں اس درخواست میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اس سے متعلق ہی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تحقیقات کی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 92 میں کسی بھی فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کے 6 ماہ کے بعد اگر ان کے خلاف کوئی الزام ہو تو ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی نہیں ہوسکتی تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 اور 40 اس سے مستثنیٰ ہے۔
آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ کے زمرے میں آتے ہیں اور اگر کسی بھی فوجی افسر یا اہلکار پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
یاد رہے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی گئی تھی۔ اس کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور اس دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی نےنجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے رشتہ دار کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے بھی رابطہ کیا۔
اس درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ ’واقعے میں چوری کیا گیا یا چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔‘
درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور ایک نجی چینل کو سپانسر کرنے پر مجبور کیا۔
کورٹ آف انکوائری کیا ہے اور کورٹ مارشل کیسے ہوتا ہے؟
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ کورٹ آف انکوائری ایک تفتیشی عمل ہے۔ ’جس طرح سویلین اداروں میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جاتی ہے اس طرح فوج میں کورٹ آف انکوائری عمل میں لائی جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر فوجی افسر کی جانب سے بدعنوانی یا کرپشن اور اختیارت سے تجاوز کرنے کا معاملہ سامنے آئے تو سیکٹر کمانڈر اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیتا ہے۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ کورٹ آف انکوائری کوئی ایکشن لینے کی مجاز نہیں ہے البتہ اس کی سفارشات کی روشنی میں کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
کورٹ مارشل کی کارروائی کے متعلق کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں ایک عدالت قائم کی جاتی ہے جس میں دو ممبروں کے علاوہ جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس عدالت کے سربراہ کو پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کہتے ہیں کہ کسی بھی شخص کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی صورت میں اس فوجی افسر کی گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندراندر چارج شیٹ فراہم کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ملزم پر الزامات کی کاپی بھی فراہم کردی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گی تو اس میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سربراہ کو پراسیکوشن کے گواہ کے طور پر پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ کورٹ آف انکوائری میں ’جو شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں بھی مزید گواہوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ملزم کو ’اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی صفائی میں گواہان بھی پیش کرنا چاہے تو انھیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔‘
ٹاپ سٹی کیس کیا ہے اور سپریم کورٹ میں اس پر کیا سماعت ہوئی تھی؟
نومبر 2023 میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی تھی جس میں سابق ڈجی آئی ایس آئی لفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
معیز احمد خان کی جانب سے دائر کردہ پیٹیشن میں کہا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی ایما پر خفیہ ادارے کے حکام نے ٹاپ سٹی کے دفتر اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی کے حکام نے ان کے گھر سے سونے، ہیرے، اور پیسوں سمیت متعدد قیمتی اشیا قبضے میں لی تھیں۔
معیز احمد خان نے درخواست میں مزید کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے حکام نے ان سے چار کروڑ روپے بھی لیے۔
اس پیٹیشن پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین نے کی تھی۔
سپریم کورٹ کے اسی بینچ نے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی فوج نے اپریل 2024 میں سابق ڈی آئی ایس آئی کے خلاف تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی۔
ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور 9 نومبر کو درخواست گزار کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔
دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے بینچ نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اپنے چیمبر میں ہاؤسنگ سکیم سے متعلق کیس کی سماعت آئینی دفعات کے مطابق نہیں تھی۔
عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی تھی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔
فوج کی کارروائی سے ’عوام کا اعتماد بڑھے گا‘
پاکستان مُسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثنا اللہ نے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس عمل کی وجہ سے فوج پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔‘
ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان مُسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو مُشکلات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا کہ ’جو اقدامات پی ٹی آئی کی جانب سے نو مئی سے قبل اور اس کے بعد کیے گئے اور آج کل بھی جو اُن کی حکمتِ عملی ہے، ان کا عمل دخل اس سب میں تھا۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پاکستان مُسلم لیگ ن نے کوئی انکوائری نہیں کی جس سے یہ چیز ثابت ہوئی ہو۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ وہ اکیلے تھے اس سب میں اُن کے ساتھ اور لوگ بھی شامل تھے کیونکہ ایک فردِ واحد اکیلا تو کُچھ بھی نہیں کر سکتا اور یہ سب باتیں بھی اس انکوائری میں سامنے آئی ہوں گی۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی سیاسی معاملات میں حاضر سروس ہوتے ہوئے بھی خاصی دلچسپی ہوا کرتی تھی اور وہ بڑے واضح انداز میں کُھل کر سیاسی معاملات میں دخل دیتے تھے اور کوئی بات چھپاتے بھی نہیں تھے۔ اب اس سب میں آپ کے سامنے فیض آباد دھرنے کی مثال موجود ہے جس میں ہونے والے معاہدہ پر انھوں نے خود دستخط کیے۔‘
ماضی میں فوج کے کن جرنیلوں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا؟
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی: اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔
سپائی کرانیکلز کے مصنف جنرل اسد درانی کو 25 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
سپائی کرانیکلز کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستانی فوج نے انھیں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) طلب کیا اور ان کے خلاف ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس انکوائری کے بعد انہیں فوجی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا گیا اور ان کی ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات بھی واپس لے لی گئیں۔
لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال (2012): لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال جو کہ پاکستان آرمی کے ایک سینئر افسر تھے، ان پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔
سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ نے مئی 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو سنائی گئی قید بامشقت کی سزا کی توثیق کی تھی تاہم ڈھائی برس کے ہی عرصے میں اب انھیں رہا کر دیا گیا۔
بریگیڈیئر علی خان (2011): بریگیڈیئر علی خان کو شدت پسند تنظیم حزب التحریر کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا۔ ان پر پاکستان آرمی کے اندر بغاوت پھیلانے کا بھی الزام تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ (2001): حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی جنھیں نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تھا، جنرل پرویز مشرف کے حکم پر انھیں گرفتار کرکے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوئی۔ بعد میں انھیں نظربند کیا گیا اور فوجی عہدے سے برخاست کردیا گیا۔
آرمی نے بطور ادارہ جنرل ضیاالدین بٹ کے بارے میں تین انکوائریاں (تحقیقات) کرائیں مگر بعدازاں انھیں ان الزامات سے بری کر دیا گیا کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی وزیراعظم کی منصوبہ بندی یا ’سازش‘ کا حصہ تھے۔
بریگیڈیئر نیاز (1958): جنرل ایوب خان کے دور میں بریگیڈیئر نیاز کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔
فیض حمید: ایک ’متحرک جنرل‘ جن کا کریئر تنازعات میں گھرا رہا
ماجد نظامی
صحافی
’پریشان نہ ہوں، سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔۔۔‘
پانچ سال قبل افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسکراتے ہوئے یہ فقرہ ادا کرنے والے سابق آئی ایس آئی ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ریٹائرڈ) کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی تھی جس کے نتیجتے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ریٹائرڈ) کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔‘
پاکستان آرمی کی تاریخ میں وہ افسران انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو دو مختلف کورکے کمانڈر رہے۔ گذشتہ 75 سالوں میں صرف 11 لیفٹیننٹ جنرلز نے ایک سے زائد کورزکی کمان کی اور بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اُن میں سے ایک ہیں۔
مسلم لیگ ن کے سابق سینیٹر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم کے مطابق ’قابل اور اہل افسر ہونے کی وجہ سے فیض حمید میں وہ تمام خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔‘
چکوال سے تعلق رکھنے والے فیض حمید اپنے کریئر میں بطور بریگیڈیئر راولپنڈی میں 10 کور کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔
بطور میجر جنرل انھوں نے پنوں عاقل ڈویژن کے جنرل کمانڈنگ افسر کے طور پر کام کیا اور اس کے بعد تقریباً ڈھائی سال وہ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس ونگ کے سربراہ رہے، اس عہدے کو ڈی جی سی کے مخفف سے جانا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد دو ماہ کے لیے انھوں نے بطور ایڈجوٹنٹ جنرل کام کیا اور 2019 میں انھیں آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا اور وہ دو سال سے زائد عرصہ کے لیے اس عہدے پر کام کرتے رہے۔
2021 میں وہ آٹھ ماہ کے لیے کورکمانڈر پشاور کے طور پر کام کرتے رہے اور بعد ازاں چند ہفتے کے لیے کور کمانڈر بہاولپور بھی ہوئے۔
انھوں نے نومبر 2022 میں موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے عہدہ سنبھالنے کے اگلے ہی روز فوج سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کے کیریئر کے حوالے سے جاننے کی غرض سے بی بی سی نے متعدد فوجی افسران اور سویلینز سے بات کی ہے۔
بطور بریگیڈیئر فیض حمید نے سنہ 2015 میں اس وقت کے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت کام کیا۔ بریگیڈیئر فیض حمید راولپنڈی کور کے چیف آف سٹاف تھے اور یہیں سے ان کا جنرل قمر باجوہ سے ایک مضبوط اور ذاتی تعلق بنا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جولائی 2016 میں جب وہ جی او سی پنوں عاقل تعینات تھے، میجر جنرل فیض حمید کے بھائی سکندر حیات چکوال میں اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ٹریکٹر حادثے میں فوت ہو گئے۔
اس وقت کے آئی جی ٹریننگ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ دوسرے ہی دن چکوال کے قصبے لطیفال میں تعزیت کے لیے آئے۔
اُسی سال کے آخر میں آرمی چیف بننے کے فوراً بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے میجر جنرل فیض حمید کا پنوں عاقل سے تبادلہ کرتے ہوئے انھیں آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلیجنس تعینات کیا۔
تحریک لبیک سے معاہدہ
جنرل (ر) فیض کا نام نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی تنظیم تحریکِ لبیک کے دھرنے کے دوران بھی سامنے آیا تھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت پاکستان اور تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے آخر میں بوساطت میجر جنرل فیض حمید لکھا ہوا تھا۔
یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بدولت جنرل فیض حمید کا نام عوامی حلقوں میں معروف ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہیں پایا۔
اسی دھرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں وزارت دفاع کے توسط سے آرمی چیف سمیت افواج پاکستان کے سربراہان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے ’اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔
سیاست میں مداخلت کے الزامات
آج کی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف اور اس کے بانی عمران خان آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر پر سیاسی مداخلت اور تحریک انصاف کے خلاف کارروائیوں اور تشدد جیسے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
اسی طرح سنہ 2017 سے 2019 تک آئی ایس آئی کے ڈی جی سی رہنے والے میجر جنرل فیض حمید سے بھی مسلم لیگ ن کو لگ بھگ اسی نوعیت کی شکایات تھیں۔ اس دور میں سیاسی انتقام، گرفتاریوں، وفاداریوں کی تبدیلی کے الزامات سامنے آئے۔
وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا ہماری پارٹی کے رہنمائوں کو تحریک انصاف میں شامل کروانے کی کوششیں کر رہے تھے اور ہم نے اس کا تذکرہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی سے بھی کیا۔‘
سابق گورنر اور رہنما مسلم لیگ ن محمد زبیر اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کے حق میں پہلے جنرل پاشا اور پھر جنرل ظہیر السلام نے کام کیا اور پھر آخر کار میجر جنرل فیض حمید کے دور میں عمران خان کو وزیر اعظم پاکستان بنایا گیا۔ ‘
تحریک انصاف کی مرکزی کمیٹی کے ممبر، سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کی رائے میں ’ماضی میں آرمی کی مداخلت کسی نہ کسی طریقے سے ہوتی رہی ہے۔ اس مرتبہ معاملہ کچھ مختلف رہا۔ جنرل فیض حمید کے دور میں سیاسی مداخلت خاصی سرعام اور کسی حد تک بے ڈھنگی بھی ہونا شروع ہو گئی۔ گلی محلوں اور عوامی حلقوں میں آئی ایس آئی کا کردار زیر بحث آنے لگا۔ پہلے یہ سب کچھ ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا تھا لیکن اب سب کچھ سامنے ہو رہا تھا۔‘
افغان امن عمل
بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور افغان طالبان سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔
افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں جنرل فیض حمید نظر آئے اور غیر ملکی صحافیوں سے مختصر گفتگو بھی کی۔
ان کی ایک تصویر بھی سامنے آئی جس میں جنرل فیض حمید کے عقب میں آئی ایس آئی کے ایک میجر جنرل بھی موجود تھے لیکن انھوں نے ماسک لگا کر رازداری کے اصول کی پاسداری کی کوشش کی۔
میڈیا سے گفتگو اور اس تصویر کے سامنے آنے پر ملک میں اس معاملے پر دبی دبی تنقید بھی ہوئی کہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو اس طرح منظر عام پر آنا چاہیے یا نہیں۔
بڑا تنازع
اسی زمانے میں جب نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ جنرل فیض حمید کو اس عہدے پر مزید کچھ عرصہ کام کرنے دیا جائے۔
اس بات کا خود عمران خان برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
تاہم لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم کو نیا آئی ایس آئی چیف تعینات کر دیا گیا لیکن وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے تعیناتی کی سمری کی منظوری میں تاخیر ہوئی جسے فوج اور تحریک انصاف حکومت کے درمیان تناؤ کا باعث سمجھا گیا۔
حد سے زیادہ شہرت کا نقصان؟
کئی حلقوں میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کیریئر سے جڑے تنازعات کے حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
چند ماہرین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے جنرل فیض حمید کے کردار کی غیر معمولی حد تک تشہیر کی جس کے باعث اُن کا نام ایک جماعت سے منسلک ہو کر رہ گیا۔
جنرل حمید گل کی طرح جنرل فیض حمید کو بھی حد سے زیادہ شہرت کا نقصان ہوا۔
دماغ یا دل: افسر کی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟
عسکری روایات میں ایک غیر تحریر شدہ روایت یہ بھی ہے کہ اگر کسی افسر کو کوئی ہدف یا اسائنمنٹ دی جائے تو اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صرف اور صرف پیشہ ورانہ طور پر اپنی ذمہ داری ادا کرے گا۔
ملکی تاریخ کے اہم واقعات اور ماضی کی مثالوں کو سامنے رکھیں تو ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ فوجی افسران اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے کرتے بنیادی اصولوں سے آگے نکل گئے۔
روس کے خلاف افغان جنگ میں اور اس کے بعد کئی افسران عسکریت پسندوں میں مقبول ہوئے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل ملازمت کے دوران اور بعد میں بھی ایک مختلف شخصیت بن کر سامنے آئے۔ انھیں بھی وقت سے پہلے فوج سے رخصت ہونا پڑا۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جاوید ناصر کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہوا اور وہ بھی مدت ملازمت مکمل نہ کر سکے۔
نائن الیون کے بعد جنرل مشرف کی ٹیم کے اہم ممبر اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود احمد بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور اپنے خیالات میں توازن نہ رکھ سکے اور انھیں فوج سے علیحدہ ہونا پڑا۔
اور اب جنرل فیض حمید کا نام بھی اسی ضمن میں لیا جا رہا ہے۔
سابق گورنر محمد زبیر کے مطابق ’اسی کی دہائی میں افغان جنگ اور نائن الیون کے بعد بھی پاک فوج کے کئی افسران اسے اسلام کی جنگ سمجھ کر حد سے زیادہ آگے بڑھ گئے تھے۔ اسی طرح پراجیکٹ عمران میں بھی کچھ افسران ادارے سے آگے بڑھ کر اس کا حصہ بن گئے۔‘
سیکریٹری دفاع رہنے والے سابق لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی بھی کم و بیش اسی رائے کے حامل ہیں۔
ان کے مطابق ’ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ طاقتور ترین عہدوں میں سے ہے۔ اختیارات، طاقت، اہمیت، وسائل سب اس تقرری کا بنیادی اور لازمی حصہ ہیں۔ اس لیے کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ڈی جی کی اپنی سوچ اور ادارے کے نقطہ نظر میں مطابقت نہیں رہتی۔ اختیارات کی وجہ سے ادارے سے ہم آہنگی کے بغیر بھی افسر اپنے مرضی کر لیتے ہیں۔‘
چکوال میں ترقیاتی کام
ماضی میں بھی فوج میں اعلی عہدوں تک پہنچنے والے کئی جنرل اپنے آبائی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بارے میں عمومی رائے یہ رہی کہ وہ اپنے آبائی ضلع چکوال کی ترقی میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔
چکوال میں ایک سڑک کی بحالی و کشادگی کے سرکاری منصوبے کی افتتاحی تختی پر ’زیر سرپرستی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید‘ بھی درج کیا گیا۔