کیسا فخر؟؟؟

وقت بدل چکا ہے ، ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں ، واپسی کا راستہ مسدود ہوتا جارہا ہے ، پرانے نعرے اور وعدے کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں جذبے ماند پڑتے جارہے ہیں لوگ سوال اٹھانا شروع ہو چکے ہیں اِدھر آؤ مثال سے سمجھیئے۔۔۔

،مثال بھی دور کی نہیں بلکہ قریب کی،پشاور آرمی اسکول پر حملہ ہوا ، معصوم بچوں کی درسگاہ قتل گاہ میں تبدیل ہوئی، سفید پھول لہو لہو ہوئے، کتابیں خون سے رنگین ہوئیں، پورے ملک میں نفرت کا طوفان برپا ہوا ،ہر ایک نے اس سنگدلی پہ لعن طعن کی، تمام سیاسی جماعتیں ،فوج، میڈیایک جان ہوئے ، فوجی عدالتیں بنیں ، کاروائی شروع ہوئی ، آپریشن تیز ہو ا، جلاد کو حرکت دی گئی ، پھانسی گھاٹ آباد ہوئے ، مدتوں موت کے انتظار میں رہنے والوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کوپکڑ ا گیا، میڈیا پر پابندی لگائی گئی کہ کسی دہشت گرد کوکوریج نہیں دی جائے گی ، بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جیسے نغمے تخلیق کیے گئے ، ان سب کاموں کے باوجود شہید ہونے والے بچوں کے ورثاء مطمئن نہیں ہوئے ، کس طرح ؟ جی ہاں اس طرح ۔۔۔۔!!!

ایک ماں سے صحافی سوال کرتا ہے کہ اماں آپکو اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے تو ماں نے ایسا جواب دیا جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ،اسلیئے کہ ہمارے ہاں موت کو محبوب بنا کے پیش کیا گیا ، ہر شہید کی ماں بیٹے کی شہادت پر فخر کرتی دکھائی دیتی رہی۔ لیکن اس ماں نے جواب دیا

[pullquote]کیسا فخر؟؟؟ میں نے بیٹے کو اسکول بھیجا تھا میدانِ جنگ میں تو نہیں ، فخر اُنہیں ہونا چاہئے جو بیٹوں کو میدانِ جنگ میں بھیجتی ہیں، [/pullquote]

یہ مثال ہے کہ وقت ریت کی مانند مُٹھی سے پھسلتا جارہا ہے، اچھا اس مثال کو روکتے ہیں، ایک اور مثال لیتے ہیں

پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کی برسی منانے کے لیے تقریب منعقدہوئی عمران خان حاضر ہوئے خان صاحب جب خطاب شروع کرتے ہیں تو شور کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، ایک شخص کھڑا ہو کے چلاتا ہے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، عمران خان تقریر روکتے ہیں اوراس شخص کواپنے پاس بلاتے ہیں اور مائیک تھماکے کہتے ہیں کہ آپ بولیں ! آپ نے کیا کہنا ہے ، وہ شخص کہتا ہے جناب خان صاحب آپ نے اپنے مطالبات کے لیے دھرنا دیا ، دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا مطالبہ کرتے رہے ، ہمارے بچوں کے لیے کب کمیشن بنایا جائے گا؟ کیا ہمارے بچوں کی قیمت ووٹ جتنی بھی نہیں ہے ؟ پھر وہ شخص بتاتا ہے کہ کیسے اس نے پشاور حملے پہ کورکمانڈر سے سوال کیے ، میں بزدل آدمی ہوں ، میں وہ سوال دہرا نہیں سکتا لیکن جس کا بیٹا شہید ہوا اس نے جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے سوال فوج سے بھی پوچھے اس نے فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنا یا ، اس والد کی گفتگو میڈیا نے بھی چلائی ، لیکن پوری وڈیو نہ سنا سکا ،میڈیا خامو ش ہو گیا ، قلمکار خاموش ہوگئے ، لیکن جس کا لختِ جگر دنیا سے گیا اس کی تو دنیا ہی اُجڑ گئی اس نے جان کیساتھ کیا کرنا،؟ مڈل کلاس کی یہ تلخی آنے والے وقتوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، ہمیں ان آوازوں کو دبانے کے بجائے پر کھنا ہو گا ، ہمیں سوچنا ہو گا کہ نوبت یہاں تک کیوںآگئی ہے۔؟

یہ دونوں مثالیں ذرا پُرانی ہیں ،
نئی مثالیں دیکھیئے،،
آئیے چار سدہ حملے کی طرف ، چار سدہ باچاخان یونیورسٹی پہ حملہ ہوا فوج نے چند گھنٹوں میں دہشت گردوں کو مار دیا ، سہولت کار پکڑ لیے ، افغانستان اور بھارت کی طر ف اشارے کیے گئے ،فوج نے کہا یہ حملے وہاں سے ہوئے لیکن لوگ مطمئن نہیں ہوئے ،عمران خان جب چارسدہ گئے تو ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی ، انکا قافلہ روکا گیا ، لوگ بپھرے ہوئے تھے ، اور ایک تقریب میں لوگوں نے معصوم بچے اٹھا کے پرویز خٹک کو دکھائے اور ایک شخص غصے سے چلارہا تھا ، پرویز خٹک خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے تھے لیکن لب نہ ہلا سکے ،پٹھان گھر میں آنے والوں کو کچھ نہیں کہتا ، پشتونوں کی روایت یہ ہے کہ دشمن گھر آجائے تو اسے معاف کردیتے ہیں، لیکن یہاں وہ روایت بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے، پرویز خٹک سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ، اور جن لوگوں نے بی بی سی اور سی این این پہ ایک پروفیسر کا انٹرویوں سنا تو انہیں معلوم ہوگا کہ کیسے فوج کی کارکردگی پہ سوالات اٹھا ئے گئے ہیں،

یہ معاملہ صرف پرویز خٹک اور عمران کیساتھ ہی پیش نہیں آیا بلکہ مولانا فضل الرحمن کیساتھ بھی ایسا کیا گیا، لوگوں نے مولانا سے کہا کہ آپ تعزیت کے لیے کیوں آئے ہیں، آپکی صفوں میں دہشت گرد بیٹھے ہیں ،یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا اسکے پیچھے خون ہے لوگوں کے غصے کو سمجھا جائے ، پشتون لوگ بہت قربانیاں دے چکے ہیں ، ریاست اگر چند لوگوں کو قابو نہیں کر سکتی تو پھر ہر کوئی جتھے بناتا پھرے گا،اگر یہی حال رہا تو لوگوں کا ریاست سے یقین اٹھ جائے گا ، ہم نے ماضی میں جو غلطیاں کی ہیں ان کا ازالہ جب تک نہیں کیا جاتا تو یہ آگ گھر گھر پہنچے گی ، پرائیویٹ جہاد کرنے والے جتنے لوگ ہیں سب سے جان چھڑانی ہوگی ، جو لوگ ہمارے اشاروں پہ چلتے ہیں وہ اچھے ہیں جو نہیں چلتے وہ بُرے ہیں جیسے معیار کو ختم کرنا ہوگا ، یہ سب کچھ کیسے ختم ہو گا اس کے لیے خورشید ندیم صاحب نے جو تجویز دی ہے وہ بہترین ہے کہ انڈیا ،پاکستان، افغانستان تینوں ملکوں کو ایک معاہدہ کر نا چاہئے کہ آج کے بعد کسی گروہ کے ذریعے دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا جائے گا ، ریاست ریاست سے دوستی اور دشمنی کرے گی،جو کچھ ہوگادونوں ملکوں کی فوجیں کریں گی۔ آج جن لوگوں کو بھارت شاباش دے رہا ہے کل یہ اس کے گلے بھی پڑیں گے ، وقت اب بھی باقی ہے غفلت کی چادر اتار دینی چاہئے ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے اگرنہیں سیکھیں گے تو پھر اس دھرتی کا اللہ ہی حافظ ہے۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے