انسانیت دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہے ایک مرد دوم عورت۔ دونوں کے کردار، تشخص اور دائرہ کار میں اگر چہ فرق ہے لیکن دونوں کے حقوق، حیثیت، عزت، تحفظ اور کردار کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں مامور ہیں، دونوں محترم ہیں، دونوں کارگاہ حیات میں مشغول ہیں، دونوں آزاد ہیں، دونوں ذمہ دار ہیں اور دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں ہر اعتبار سے محفوظ و مامون ہیں۔ دونوں کو، ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، دونوں کے حقوق سے کسی سطح پر انکار نہیں کیا جا سکتا، دونوں ثابت شدہ کردار اور حیثیت کے حامل ہیں اور دونوں کی آزادی اور وقار کو، کسی بھی چیز کا سہارا لے کر ختم نہیں کی جا سکتا۔
مرد جہاں جہاں ڈی ٹریک ہوا ہے اس نے گرد و پیش میں بڑی تباہی مچا دی ہے۔ مرد جن امتحانوں میں اکثر و بیشتر فیل چلا آ رہا ہے ان میں سے ایک عورت کے ساتھ سلوک کا میدان بھی ہے۔ عورت مرد کے لیے خدا کی جانب سے ایک سدا بہار مددگار ہے، ایک ازلی و ابدی ہم سفر ہے، تسلی، خوشی اور اطمینان کا ایک لا متناہی ذریعہ ہے۔ عورت انسانیت کی بقاء اور ارتقاء کے عمل میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ ابتدائے آفرینش سے ہی مخلصانہ رفاقت نبھاتی چلی آ رہی ہے اور یہ کہ عورت مرد کی عقل، تہذیب، کردار اور قابلیت کو ترقی دینے کا ایک قدرتی ذریعہ ہے لیکن افسوس کہ مرد نے ہمیشہ عورت کے بارے میں مجرمانہ سلوک کا مظاہرہ کیا ہے، جا بجا عورت کے حقوق کو دبایا ہے، جب بھی موقع پایا تو عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے، جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی حیثیت کم تر جانا ہے، اس کی آزادی کے سامنے بندھ باندھا ہے اور اس کی شخصیت کو ترقی دینے میں طرح طرح کے بہانوں کا سہارا لے کر بخل سے کام لیا ہے۔ یہ طرزِ عمل اصولاً غلط جبکہ عملاً ظلم ہے۔
انسانی معاشرے کی تشکیل و ترقی میں عورت کا کردار ہمیشہ سے نہایت اہم اور مرکزی رہا ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت، وقار اور حقوق کا وہ مقام دیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیا تھا۔ تاہم، عملی طور پر معاشرے میں عورت کو درپیش مسائل اور چیلنجز نے اس کے حقوق اور خودمختاری کو ہر سطح اور ہر جگہ متاثر کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرد ازسرنو اسلام، قانون اور عقل کے تناظر میں ٹھنڈے دماغ سے سوچ لیں اور عورت سے متعلق اپنے رویے اور سلوک کا جائزہ لیں اور جہاں جہاں وہ عورت کے حوالے سے ظلم، حق تلفی اور ضرر کا مرتکب ٹھہرا ہے وہاں اپنا ہاتھ کھینچ لیں اور جہاں بھی انصاف، احساس، اخلاص اور احترام کے ساتھ پیش آ رہا ہے وہاں اس مبارک طرزِ عمل کو دوام دے۔
آئیے اسلام میں عورت کے حقوق کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں مثلاً اسلام نے عورت کو تعلیم کا حق دیا ہے۔ اسلام نے واضح ہدایت جاری کی ہے کہ مرد و عورت دونوں پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ تاجدارِ کائنات، رسول محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” (ابن ماجہ) اس طرح اسلام عورت کو معاشی طور پر خودمختار بناتا ہے۔ عورت کا حقِ وراثت، حق مہر اور اپنی کمائی پر مکمل اختیار کے بارے میں اسلام کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "مردوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔”(النساء: 32) اس طرح اسلام نے عورت کو سماجی عزت و توقیر سے بڑے پیمانے پر نوازا ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے طور پر بے پناہ سماجی عزت دی ہے۔ تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔”(نسائی)
اسلام کے بعد ملکی قانون عورت کے حقوق کا بہت بڑا ضمانتی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 میں واضح درج ہے کہ "آئین مرد و عورت کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے”۔ آگے آرٹیکل 34 میں درج ہے کہ”آئین خواتین کی سماجی اور سیاسی شرکت کو یقینی بناتا ہے”۔ اس طرح خواتین کے خلاف تشدد کا قانون مجریہ 2016 میں درج ہے کہ "گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور دیگر مظالم کے خلاف سزائیں مقرر کی گئی ہیں”۔ اس طرح وراثت کے حقوق شرعی قوانین کے تحت عورت کو دینا لازمی ہے۔ یہ تو رہا معاملہ آئین کا جس کی پاسداری کا ہم سب مکلف ہیں۔ اب آتے ہیں عقل کی طرف کہ وہ مرد کے لیے کیا رہنمائی تجویز کر رہی ہے۔
عقل و دانش کی رو سے عورت کو معاشرے میں مساوی حیثیت حاصل ہے کیونکہ بطور انسان مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں۔ عورت کے وجود اور عقل میں کوئی ایسی کمی کوتاہی نہیں کہ جس سے اس کی انسانیت پر فرق پڑتا ہو۔ اگر اس کی انسانیت محفوظ ہے، اسے عقل دستیاب ہے۔ اس کا کردار، خدمات اور حیثیت سب کی نظروں میں ہیں تو پھر حقوق بھی مسلم ہیں۔ جدید معاشروں میں خواتین تعلیم، سیاست، صحت، کاروبار اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے عورت کی عزت، خدمات، خودمختاری اور تحفظ کا معاملہ معاشرتی ترقی سے جڑا ہے، کیونکہ ایک پڑھی لکھی اور بااختیار و محفوظ عورت ہی بہتر نسل کی تربیت کر سکتی ہے۔
اگرچہ اسلام، قانون اور عقل کو عورت کے حقوق تسلیم ہیں، لیکن پاکستانی معاشرے میں بوجوہ خواتین کو اپنے حقوق تک رسائی اور ان سے مستفید ہونے میں مختلف مسائل درپیش ہیں۔ مثلاً تعلیم کے حق کو بہت ہی محدود رسائی حاصل ہے۔ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح کافی کم ہے۔ بہت سارے دیہی اور قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کو صرف گھریلو کام کاج تک محدود رکھا جاتا ہے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے۔ اس طرح گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ملک کے طول و عرض میں گھریلو تشدد، جبری شادیاں اور سٹریٹ ہراسمنٹ جیسے سنگین جرائم بالکل عام ہیں۔ عورتوں کے خلاف جرائم کے اکثر و بیشتر کیسز رپورٹ نہیں ہوتے، کہیں پہ بدنامی کے خیال سے، کہیں پہ مزید تشدد کے خوف سے اور کہیں پہ اس بے یقینی سے کہ یہاں خواتین کو انصاف نہیں ملتا اور یوں بے شمار خواتین، بے شمار مظالم خاموشی سے سہہ لیتی ہیں۔ اس طرح ہمارے ہاں مالی تنگ دستی، معاشی عدم استحکام اور طرح طرح کی دیگر مجبوریاں بھی خواتین کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ بہت ساری خواتین کو باقاعدہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی یا انہیں بہت کم اجرت دی جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ عموماً وراثت میں عورتوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا اور قسم قسم کے حربوں سے کام لے کر وراثت کا حق دبایا جاتا ہے۔ اس طرح سماجی رسومات اور جہالت بھی عورتوں کے راستے میں بہت بڑا پتھر ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے آگے بڑھنا بے حد مشکل ہے۔ وٹہ سٹہ، کاروکاری اور غیرت کے نام پر آئے روز قتل جیسی جسارتیں بکثرت جاری و ساری ہیں۔
ہمیں اگر خواتین کے حوالے سے اپنا سلوک خدا، آئین و قانون اور اخلاق و کردار کی نظر میں بہتر بنانا مطلوب ہے تو ہمیں خواتین کے حوالے سے اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ لینا ہوگا اور انہیں درست کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ہمیں تعلیم کو عام کرنا پڑے گا اور لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ اس طرح خواتین کے تحفظ کے قوانین پر عملدرآمد یقینی بنا کر انہیں مؤثر بنانا ہوگا۔ اس طرح معاشی سرگرمیوں اور خودمختاری پر اگر خدا، آئین اور عقل کو اعتراض نہیں تو کسی بابے، مامے اور چاچے کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت اور معاشرے دونوں کو نہ صرف عورت کے وقار کو بحال کرنے کے لیے بے جا پابندیوں کا خاتمہ کرنا پڑے گا بلکہ خواتین کو روزگار کے وسیع مواقع بھی فراہم کرنا ہوگا۔ خواتین کے حقوق یقینی بنانے اور ان کے خلاف جرائم کا ارتکاب روکنے کے لیے باقاعدہ سماجی بیداری کی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ عورتوں کے حقوق، وقار اور تحفظ کے لیے باقاعدہ دینی اور سماجی سطح پر آگاہی مہمات چلانے کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں، وہ اس کی عزت، حفاظت اور خودمختاری کو یقینی بناتے ہیں۔ قانونی طور پر بھی پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے اگر چہ اچھے قوانین موجود ہیں لیکن عملی طور پر غیر صالحانہ اور غیر صحت مندانہ معاشرتی رویوں اور جاہلانہ رسم و رواج اور تصورات کی وجہ سے عورتوں کو طرح طرح کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیمات کو عام کیا جائے، ملکی قوانین کو مؤثر بنایا جائے، خواتین کے بارے میں معقول رویے اور مناسب سلوک کو فروغ دیا جائے مزید برآں عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دلایا جائے۔ مرد کو چاہیے کہ اپنے طرز عمل سے جہالت، شقاوت اور رزالت نکال دے تب جا کر وہ شرافت کے مرتبے پر فائز ہوگا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر بروز قیامت خدا مرد سے، عورت کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دے تو بخدا وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہر مرد کو عورت کے حوالے سے انصاف، احساس اور احترام کرنے والا بنا دے جبکہ ہر عورت کو مرد کی سچی وفا دار، حقیقی غم گسار اور ہمہ وقت مددگار بنا دے۔ یاد رکھیں ایک ترقی یافتہ معاشرہ تب ہی وجود میں آ سکتا ہے جب عورت کو اس کے تمام بنیادی حقوق، ضروری خودمختاری اور تکریم و تحفظ کی ضمانت میسر آ جائے۔