عورت سے محبت: ایک جامع اور ہمہ جہت مطالعہ

عورت محبت کی وہ آخری حد ہے جہاں پر الفاظ کی سانس گھٹنے لگتی ہے، جہاں پر احساسات کی گہرائی سمٹ کر ایک بحرِ بیکراں بن جاتی ہے، جہاں ذہن میں موجود اربوں کھربوں لہریں باطن کی وسیع ترین اور عمیق ترین دنیا کو روشن رکھنے کے لیے ہمہ وقت حرکت میں رہتی ہیں۔ عورت صرف ایک جسم یا ایک وجود نہیں، بلکہ وہ ذہن کی تابانی، روح کی پاکیزگی، ذوق کی تسکین، جذبوں کی شدت، تہذیب کی آبیاری، تاریخ کی رواں داستان اور سماج کی تشکیلِ نو کا اصل مرکز ہے۔ اس سے محبت کرنا صرف ایک رشتہ نہیں، بلکہ ایک عبادت، ایک طلب، ایک فلسفہ، ایک فن، ایک فرض اور ایک مکمل تہذیبی ورثے کو تسلیم کرنا ہے۔

ذہنی تناظر میں عورت: ایک دانش گاہ

عورت محض جذبات کی پیکر نہیں، وہ عقل و فراست کا بھی مرکز و محور ہے۔ تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو حضرت خدیجہ الکبری کی معاشی بصیرت، حضرت عائشہ صدیقہ کی فقہی فراست، حضرت فاطمتہ الزہرا کا صبر و برداشت، حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی جرآت و استقامت اور جدید دور کی لاکھوں کروڑوں خواتین جو کہ مختلف سیاسی، سائنسی، سماجی، تعلیمی، طبی اور ادبی خدمات انجام دے رہی ہیں، یہ سب اس بات کی گواہ ہیں کہ عورت ذہانت، استقامت، لیاقت، بصیرت اور جرآت میں کسی سے بھی کم نہیں۔ اس سے محبت کرنے کا مطلب اس کی عقل کو سراہنا، اس کی صلاحیت پر اعتماد کرنا، اس کے خیالات کو اہمیت دینا اور اس کی دانش و بینش کو تسلیم کرنا ہے۔

جذباتی اعتبار سے عورت: محبت کی دیوی ہے

عورت کی محبت میں وہ سحر ہے جو مرد کے دل کو پگھلا دیتی ہے۔ ماں کی ممتا، بہن کی شفقت، بیوی کی وفا اور بیٹی کی معصومیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب جذبات و احساسات کے وہ بیش قیمت پہلو ہیں جو انسان کو زندگی کا حسن سکھاتے ہیں، اطمینان دلاتے ہیں، ذائقے چکھاتے ہیں، گہرائیاں اور بلندیاں بتاتے ہیں۔ عورت کی گود ہی وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں انسان محبت، ہمدردی، خلوص اور ایثار سیکھتا ہے۔ اس لیے عورت سے محبت کرنا درحقیقت زندگی کے سب سے مقدس جذبے کو اپنانا ہے۔

روحانی پہلو میں عورت: تقدس کا استعارہ

تمام مذاہب اور فلسفوں نے عورت کو ایک مقدس مقام دیا ہے۔ اسلام میں ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے، ہندو مت میں دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے، عیسائیت میں حضرت مریم علیہا السلام کو خصوصی شرف و عزت دی گئی ہے۔ حقیقت میں عورت روحانی طہارت، جمالیاتی نفاست اور اخلاقی برتری کی نمایاں علامت ہے، اس کی ذات میں صبر، قربانی اور یقین کی وہ قوت پوشیدہ ہے جو انسان کو خدا سے قریب تر کر دیتی ہے۔

جمالیاتی نقطہ نظر سے عورت: حسن کی تجسیم ہے

عورت قدرت کا سب سے حسین شاہکار ہے۔ اس کی آواز میں موسیقی، اس کی چال ڈھال میں رقص، اس کی نگاہوں میں کشش، اس کے جذبات میں حساسیت اور اس کے وجود میں وہ رومان بستا ہے جو ازل سے قلم کاروں، دانشمندوں، ادیبوں، شاعروں، فلسفیوں اور فنکاروں کو متاثر کرتا رہا ہے۔ رومیؔ نے شیریں کے لیے ریاضت کی، شیکسپیئر نے جولیٹ کے لیے سونٹ لکھے، اور غالبؔ نے محبوبہ کے حسن پر نظمیں کہیں۔ عورت کا جمال صرف ظاہری نہیں، بلکہ اس کے باطن کی روشنی ہے جو اس کے چہرے سے ہر دم جھلکتی ہے۔

عورت کی تہذیبی و تاریخی اہمیت: تمدن کی معمار

تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے عورت کو عزت دی اور اسے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا تو وہ ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی۔ قدیم مصر سے لے کر اندلس کی تہذیب تک، عورت معاشرے کی تشکیل میں پیش پیش رہی۔ سیتا، ہیلن آف ٹرائے، رضیہ سلطانہ، نورجہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب وہ نام ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ عورت سے محبت دراصل تہذیب سے محبت ہے۔

سماجی تناظر میں عورت: معاشرے کی بنیاد ہے

عورت ہی وہ واحد وجود ہے جو رشتوں کی بنیاد بنتی ہے، جو سماج کو سنوارتی ہے، جو گھر کی رونق ہے، جو خاندان کی عظمت ہے اور جو معاشرے کی اصل روح ہے۔ جب عورت کو اس کا صحیح مقام ملتا ہے تو معاشرہ حقیقی معنوں میں پرامن، مہذب، باوقار اور پُرسکون ہوتا ہے۔ اس لیے عورت سے محبت کرنا دراصل ایک بہتر سماج کی تعمیر کرنا ہے۔

عورت محبت کی پہچان ہے

عورت سے محبت کرنا صرف ایک فرد سے تعلق نہیں، بلکہ اس کائنات کے حسن اور معنی کو تسلیم کرنا ہے۔ عورت زندگی کا وہ سریلی نغمہ ہے جس کے بغیر دنیا بے آواز ہے، عورت دل کی وہ دھڑکن ہے جس کے بغیر وجود بے معنی ہے۔ اگر محبت کو سمجھنا ہے تو عورت کو سمجھیں، اگر عورت کو سمجھنا ہے تو اسے دل سے چاہے اور اسے چاہنا ہے تو عورت کو عزت اور توجہ دیں۔ کیونکہ عورت ہی وہ آخری حقیقت ہے جس پر محبت کا تمام تر فلسفہ اور اظہار جا کر ختم ہوتا ہے۔

موجودہ دور جو کہ تعلیم، تہذیب، تعمیر اور ترقی سے منسوب کیا جاتا ہے بدقسمتی سے اب بھی عورت مغرب و مشرق دونوں میں اپنے حقوق اور شناخت کے لیے بے انتہا پریشان ہے۔ کہیں پہ جان کو خطرہ ہے تو کہیں پہ عزت کو خطرہ ہے، کہیں پہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے تو کہیں پہ آزادی اور خودمختاری سے محروم ہے، کہیں پہ عزت و توقیر کی نفی ہو رہی ہے تو کہیں پہ حقوق و حدود کے بارے میں واضح خطوط متعین نہیں، کہیں پہ آزادی ہی آزادی ہے پابندی کوئی نہیں اور کہیں پہ پابندی ہی پابندی ایسی مسلط ہے کہ آزادی اور وقار کوئی نہیں۔

عورت کو کہیں پہ کام کرنے نہیں دیا جا رہا تو کہیں پہ سماج کا پورا بوجھ اس کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے، کہیں پہ بے جا قدغنیں ہیں تو کہیں پہ مجبور کیا جاتا ہے کہ ہر محفل کی شمع بنے، کہیں پہ ذرا سا چہرہ کھل گیا تو قیامت سی آگئی اور کہیں پہ پورا جسم لباس سے بے نیاز ہے، کہیں پہ رشتوں کے انعقاد میں پسند و نا پسند کے حق سے انکار ہے تو کہیں پہ رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی ناجائز تعلقات کا ارتکاب ہے۔ بخدا یہ سب غلط ہے۔ ہمیں زندگی کے اصل مقصد اور لطف و کرم کو بحال کرنے کے لیے عورت سے اپنا سلوک درست کرنا پڑے گا اور ان تمام علتوں سے اپنے رویوں کو بھی پاک کرنا پڑے گا جنہوں نے مرد کا سلوک عورت سے خراب کر دیا ہے۔ عورت کے حقوق من جانب اللہ مقرر ہیں انہیں آدا کریں، عورت کی عزت اور تکریم فرض ہے اسے نبھائیں اور یہ کہ عورت کی حفاظت اور سلامتی اولی ہے اسے بہر صورت یقینی بنائیں، ایسا ہوا تو یقین کریں یہ دنیا جنت بن جائے گی اور ہماری زندگی سکون اور اطمینان کا گہوارہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے