سندھ طاس معاہدہ: بھارت کی آبی جارحیت اور پاکستان کے ممکنہ ردِعمل کے اثرات

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم ایک ایسا نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے جو نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا، جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی ثالثی میں عمل میں آیا اور اس کے تحت دریاؤں کو دونوں ممالک کے درمیان اس انداز سے تقسیم کیا گیا کہ مشرقی دریا یعنی ستلج، بیاس اور راوی بھارت کو دیے گئے جبکہ مغربی دریا یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس معاہدے کے مطابق، بھارت کو مغربی دریاؤں کے پانی پر محدود استعمال کی اجازت دی گئی، جیسے کہ آبی ذخیرہ برائے زراعت، بجلی کی پیداوار، یا دیگر غیر مصرفی استعمال، لیکن وہ ان دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو متاثر نہیں کر سکتا تھا۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی بارہا خلاف ورزیاں کی گئیں۔ بھارت نے مغربی دریاؤں پر یکے بعد دیگرے کئی ڈیم تعمیر کیے، جن میں بگلیہار، کشن گنگا اور راتلے ڈیم شامل ہیں۔ ان منصوبوں پر پاکستان نے تحفظات کا اظہار کیا اور ورلڈ بینک سمیت دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھی یہ معاملہ اٹھایا، لیکن بھارت نے اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ حالیہ برسوں میں بھارتی حکومت کے وزراء اور اعلیٰ حکام کی جانب سے کھلے عام یہ دھمکیاں دی گئیں کہ وہ پاکستان کے لیے پانی بند کرنے جا رہے ہیں۔ 2019 کے بعد بھارتی بیانیہ کافی سخت ہو گیا، اور خاص طور پر پلوامہ حملے کے بعد بھارت میں اس مسئلے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کئی بار جلسوں میں کہا کہ “ہم وہ پانی پاکستان جانے نہیں دیں گے جو بھارت کے کسانوں کا حق ہے۔”

2024 میں ایک مرتبہ پھر بھارت نے عندیہ دیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان معاہدے کی روح کے مطابق کام نہیں کر رہا اور وہ دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، لہٰذا بھارت کو اس معاہدے سے نکلنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے۔ اس طرح کے بیانات نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ پانی کا مسئلہ صرف ایک زرعی یا معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ براہ راست انسانی زندگی سے جڑا ہوا ہے۔

پاکستان کے لیے پانی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی معیشت زراعت پر منحصر ہے اور ملک کا بڑا حصہ دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ اگر بھارت پانی بند کرنے یا کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کو شدید زرعی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے، خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے، اور لاکھوں کسانوں کی روزی روٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ نہ صرف زرعی شعبہ بلکہ صنعتی، گھریلو اور ماحولیاتی شعبے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ یہ اقدام نہ صرف سندھ طاس معاہدے بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگا۔

ایسی صورت میں پاکستان کے پاس مختلف آپشنز موجود ہیں۔ سب سے پہلا اور مناسب قدم سفارتی محاذ پر بھارت کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی برادری، اقوامِ متحدہ، اور خاص طور پر ورلڈ بینک سے رجوع کر کے بھارت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی عدالتِ انصاف میں کیس دائر کرنا بھی ایک ممکنہ راستہ ہے، جیسا کہ ماضی میں بھی پاکستان نے بعض منصوبوں پر عالمی ثالثی کا راستہ اختیار کیا ہے۔

دوسری جانب، پاکستان کو چاہیے کہ وہ داخلی سطح پر اپنے آبی وسائل کے بہتر استعمال پر توجہ دے۔ جدید ڈیمز کی تعمیر، پانی کے ذخیرے کے نظام میں بہتری، پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اصلاحات اور ٹیکنالوجی کا استعمال نہایت ضروری ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنے سفارتی اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے چین، ترکی، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کی حمایت حاصل کرنی چاہیے تاکہ بھارت پر بین الاقوامی دباؤ ڈالا جا سکے۔

اگر ان تمام پرامن کوششوں کے باوجود بھارت باز نہ آیا اور واقعی پاکستان کے پانی پر قدغن لگائی گئی تو عسکری سطح پر ردِعمل دینا بھی خارج از امکان نہیں۔ اگرچہ یہ آپشن انتہائی خطرناک اور آخری درجے پر ہے، لیکن جب بات قومی بقاء اور زندگی کے وسائل کی ہو تو کوئی بھی ریاست خاموش نہیں رہ سکتی۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔ اگر جنوبی ایشیا میں جنگ چھڑ گئی، تو یہ دنیا کی مہلک ترین جنگ ثابت ہو سکتی ہے۔

دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں، اور ایک ممکنہ جنگ میں نہ صرف لاکھوں بلکہ کروڑوں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے بڑے شہر، بنیادی ڈھانچے، اور معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔ دونوں طرف افراطِ زر، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کی نئی لہر جنم لے گی۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی لحاظ سے بھی یہ جنگ تباہ کن ہو گی۔ دریاؤں، آبی ذخائر، اور زرعی زمینوں کی تباہی سے پورا خطہ خشک سالی اور قحط سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک، خاص طور پر چین، ایران، خلیجی ممالک، اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہیں۔ عالمی معیشت پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے کیونکہ جنوبی ایشیا ایک بڑی آبادی اور منڈی کا حامل خطہ ہے۔

اس تمام صورتحال میں بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے۔ اقوامِ متحدہ، ورلڈ بینک، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کریں اور بھارت کو اس معاہدے کی پاسداری پر مجبور کریں۔ اگر بھارت کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تو یہ ایک خطرناک نظیر قائم ہو گی، اور دیگر ممالک بھی بین الاقوامی معاہدوں کو نظرانداز کرنے لگیں گے۔

سندھ طاس معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ ہے جس نے پچھلے 60 سالوں سے دونوں ممالک کو پانی کے معاملے میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے روکے رکھا۔ اگر بھارت آج اس معاہدے کو توڑتا ہے تو کل کو کوئی اور ملک کسی اور معاہدے کو توڑ سکتا ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس مسئلے پر توجہ دے اور مسئلہ حل کرے۔

پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ صرف ردِعمل پر اکتفا نہ کرے بلکہ پیش بندی کرے۔ پانی کے معاملات پر قومی اتفاق رائے پیدا کرے، پانی کی بچت کے لیے عوامی شعور بیدار کرے، اور ملکی سطح پر پانی کے انتظامی ڈھانچے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ یہ وقت قومی یکجہتی، بصیرت اور دور اندیشی کا ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

اس لیے ضروری ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے، سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرے، اور پانی کو ہتھیار نہ بنائے۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی مکمل تیاری کے ساتھ سفارتی، قانونی، تکنیکی اور، اگر ضرورت پڑے، تو عسکری سطح پر بھی اپنا دفاع کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا ہوگا۔ ورنہ یہ آبی کشمکش ایک آگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے