اگر آپ کو بتایا جائے کہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں بچوں کی لاشیں کھلونوں سے زیادہ عام ہو چکی ہیں، جہاں ماں اپنے بچوں کو دفناتے وقت دعا کی بجائے چیخیں مارتی ہے، جہاں مسجد کی اذان گولیوں اور بموں کے شور میں دب جاتی ہے، تو کیا آپ یقین کریں گے؟ یہ کوئی فکشن یا جنگی فلم کا منظر نہیں، بلکہ 2025 کا "غزہ” ہے — ایک زندہ جہنم، جہاں انسانیت کو روز زندہ دفن کیا جا رہا ہے۔
اپریل 2025 تک، غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 35,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 14,000 سے زیادہ بچے اور خواتین شامل ہیں۔ 17,000 سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں، اور 1.7 ملین سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ رفح، جو آخری محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا، وہ بھی اب بارود کا میدان بن چکا ہے۔ اسرائیلی جنگی طیارے، ڈرونز اور توپیں دن رات انسانی بستیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، اور دنیا تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں — کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ امدادی قافلے روک دیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار خود کہہ چکے ہیں کہ "غزہ اس وقت زمین کا سب سے خطرناک مقام ہے”۔ یہ سب ایک ایسی قوم کے ساتھ ہو رہا ہے جس کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر زندہ رہنا چاہتی ہے۔
فلسطین کا المیہ صرف حالیہ نہیں بلکہ ایک صدی پر محیط ہے۔ 1917 میں برطانوی سامراج نے بالفور اعلامیہ کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں وطن دینے کا وعدہ کیا، جبکہ وہاں پہلے سے بسنے والے عربوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ اس کے بعد برطانوی حکومت نے لاکھوں یہودیوں کو یورپ سے لا کر فلسطین میں آباد کر دیا۔ اس عمل سے مقامی آبادی میں اشتعال پیدا ہوا، اور فلسطینیوں نے بارہا احتجاج کیا، لیکن ان کی آواز دبائی جاتی رہی۔
1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ منظور کیا، لیکن یہ منصوبہ فلسطینی عوام کے لیے ناانصافی پر مبنی تھا کیونکہ ان کی زمین کا 55 فیصد حصہ اقلیت یعنی یہودیوں کو دے دیا گیا۔ اس کے خلاف عوامی مزاحمت ہوئی لیکن 1948 میں جب اسرائیل نے یکطرفہ طور پر ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو عرب دنیا اور فلسطینیوں کے لیے "نکبہ” یعنی تباہی کا آغاز ہو گیا۔ لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، ہزاروں کو قتل کر دیا گیا، اور یہ لوگ آج بھی مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس کے بعد اسرائیل نے اپنی حدود سے باہر نکل کر مزید زمینیں ہتھیانا شروع کیں، خصوصاً 1967 کی جنگ میں جب مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا گیا۔ ان تمام علاقوں میں اسرائیلی بستیاں بسائی گئیں، جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ان بستیوں میں اب لاکھوں یہودی آباد ہو چکے ہیں، جبکہ مقامی فلسطینیوں کو مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے۔
فلسطینی عوام نے جب اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے مایوسی اختیار کی تو مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ 1987 اور 2000 میں دو بڑی انتفاضہ تحریکیں شروع ہوئیں جن میں عوام نے پتھروں، بینروں اور نعروں سے اپنا احتجاج درج کرایا۔ 2006 میں جب حماس نے غزہ میں اقتدار سنبھالا، اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر دی۔ تب سے لے کر آج تک غزہ دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ بنا ہوا ہے، جہاں ہر قسم کی آمد و رفت، تجارت، تعلیم، صحت حتیٰ کہ بجلی اور پانی بھی اسرائیل کی مرضی سے مشروط ہے۔
2008، 2012، 2014، 2021 اور 2023 میں اسرائیل نے بار بار غزہ پر حملے کیے، ہر بار سینکڑوں شہری شہید ہوئے، عمارتیں زمین بوس ہوئیں اور دنیا صرف مذمتی بیانات دیتی رہی۔ لیکن اکتوبر 2023 سے جو جنگ شروع ہوئی، وہ سب سے زیادہ بھیانک ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل نے جس جارحیت کا مظاہرہ کیا، وہ کھلی نسل کشی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
2025 میں اسرائیلی افواج نے رفح جیسے مقامات پر بھی بمباری کی جہاں پہلے ہی لاکھوں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔ خوراک، دوا اور پانی کا حصول ناممکن ہو چکا ہے۔ بچے قحط سے مر رہے ہیں، لوگ مٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ اسپتالوں پر بمباری ہو رہی ہے، ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کا مقصد محض حماس کو ختم کرنا نہیں بلکہ پورے فلسطینی وجود کو مٹانا لگتا ہے۔
بین الاقوامی ادارے جیسے کہ اقوام متحدہ، عالمی صحت تنظیم اور انسانی حقوق واچ مسلسل خبردار کر چکے ہیں کہ اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، لیکن مغربی دنیا — خاص طور پر امریکہ — اسرائیل کی کھلی حمایت کر رہی ہے۔ ایک طرف یوکرین کے لیے اربوں ڈالر کی امداد، اور دوسری طرف فلسطینیوں کے لیے صرف دکھاوے کے بیانات۔ یہی دہرا معیار آج کے عالمی نظام پر ایک بدنما داغ ہے۔
مسلم دنیا کی خاموشی بھی اس سانحے میں برابر کی شریک ہے۔ ترکی، ایران اور کچھ دیگر ممالک نے الفاظ میں شدید مذمت کی ہے، لیکن عملی سطح پر کوئی بھی ملک آگے بڑھنے کی جرات نہیں کر پایا۔ عوام تو سراپا احتجاج ہیں، لیکن حکومتیں صرف سیاسی و سفارتی مفادات میں الجھی ہوئی ہیں۔
مسجد اقصیٰ، جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، آج مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ اسرائیلی فوج اور شدت پسند آبادکار نہ صرف نمازیوں کو ہراساں کرتے ہیں بلکہ قبلہ اول کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں۔ یہ عمل صرف فلسطینیوں نہیں، پوری امت مسلمہ کے لیے تکلیف دہ ہے۔
قانونی اعتبار سے بھی اسرائیل کی کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ جنیوا کنونشن، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ، اور جنگی قوانین سب کے سب ان اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی جرائم کی ابتدائی تحقیقات شروع کی ہیں لیکن مغربی طاقتوں کے دباؤ میں کوئی بھی فیصلہ سامنے نہیں آتا۔
فلسطینی مزاحمت کو مغرب اکثر دہشتگردی کا نام دیتا ہے، لیکن بین الاقوامی قوانین کے تحت قابض افواج کے خلاف مزاحمت ایک جائز عمل ہے۔ فلسطینی نوجوان ہاتھ میں پتھر لے کر دنیا کی سب سے طاقتور فوج کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، یہ صرف مزاحمت نہیں، یہ ایک پیغام ہے — کہ ہم موجود ہیں، اور ہم اپنی شناخت، اپنی زمین، اور اپنے بچوں کا مستقبل نہیں چھوڑیں گے۔
پوری دنیا میں عوامی سطح پر فلسطین کے حق میں بیداری بڑھ رہی ہے۔ بائیکاٹ، ڈس انویسٹ، سینکشن (BDS) تحریک نے اسرائیل کو سفارتی و معاشی سطح پر دباؤ میں لانا شروع کیا ہے۔ تعلیمی ادارے، فنکار، صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اب کھل کر اسرائیل کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ دو ریاستی حل، جس کا تصور 1947 میں دیا گیا تھا، اب عملاً ناقابل عمل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اسرائیلی بستیاں مغربی کنارے کو ٹکڑوں میں تقسیم کر چکی ہیں۔ ایک ریاستی حل، جہاں دونوں اقوام کو برابر کے حقوق حاصل ہوں، اسرائیل کو منظور نہیں۔ اس صورتحال میں یا تو عالمی برادری شدید دباؤ ڈالے، یا فلسطینی اپنی مزاحمت جاری رکھیں — تیسرا راستہ ابھی تک نظر نہیں آ رہا۔
مسئلہ فلسطین محض ایک سرزمین کی لڑائی نہیں، یہ ایک قوم کے وجود، تہذیب، ایمان اور مستقبل کی بقا کی جنگ ہے۔ جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق — اپنی زمین، اپنی خودمختاری، اور امن سے جینے کا حق — نہیں دیا جاتا، یہ آگ بجھنے والی نہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کا مقدمہ صرف فلسطینیوں کا نہیں، یہ انسانیت کا مقدمہ ہے۔ اگر آج ہم نے خاموشی اختیار کی تو کل ہماری اپنی باری بھی آ سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں، چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، کیونکہ ظالم کے ساتھ خاموشی بھی ظلم کے زمرے میں آتی ہے۔