شریعت: ایک نظر میں

اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعلق دو بنیادوں پر استوار ہے۔ ایک تکوینی اور دوم تشریعی۔ تکوینی دائرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی راز اور مصلحتیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہیں اور ان کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ہماری زندگی اور موت، ہمارے اوقات اور مقامات، ہمارے رنگ و روپ، ہمارا مشرق و مغرب یا جنوب و شمال میں پیدا ہونا، ہمارا مرد یا عورت ہونا، ہمارا سخت مزاج یا نرم مزاج واقع ہونا اور ہمارے اوپر مختلف قسم کے ماحول یا موسموں کا اثر انداز ہونا وغیرہ یہ اور اس طرح کی بہت ساری چیزیں اللہ تعالیٰ اپنے تکوینی نظام کے تحت انجام دے رہا ہے۔

اس طرح ہم دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں، کھانا ہضم کر رہے ہیں، بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے، بیماری اور صحت کی کیفیات طاری ہو رہی ہیں مزید برآں سردی گرمی کا احساس بھی لگاتار ہو رہا ہے، لاکھوں برس سے یہ سب کچھ ہوتا آیا ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ ایک معین مدت تک یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا۔ اس سلسلے میں انسان چونکہ ٹوٹلی بے بس ہے اور مکلف بھی نہیں لہذا جواب دہ بھی نہیں تاہم دشمن، بیماریوں، شدتوں اور مایوسیوں سے بچنے کے لیے انسان ہمیشہ مقدور بھر عقل اور ہمت کا سہارا لیتا ہے جبکہ خوشی، کامیابی اور آسودگی سے ہم کنار ہونے کے لیے دستیاب وسائل اور ذرائع کے دائروں میں دوڑ دھوپ ان محرکات کا کرشمہ ہے جو خالق کائنات نے انسان کی فطرت میں اچھی طرح ودیعت کی ہے۔

دوسری بنیاد تشریعی ہے یعنی وہ نظام جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بطورِ طرزِ زندگی تجویز کیا ہے، پیغمبروں کے ذریعے اس کے وضاحت کی ہے، لوگوں کو اس کے لیے مکلف ٹھہرایا ہے، ساتھ ساتھ آزادی اور اختیار کے مواقع بھی عطا کیے ہیں تاکہ نیک و بد بننے میں ہر فرد کی اپنی آمادگی پوری طرح قائم رہے، اچھائی اور برائی کا ایک الہامی شعور بھی حضرت انسان کو بخشا گیا ہے، لہذا شریعت کے معاملے میں انسان ذمہ دار بھی ہے اور پابند بھی (مجبور نہیں)، مکلف بھی ہے اور مستحق سزا و جزا بھی اور بلآخر خدا کے سامنے جواب دہ بھی ہے۔ شریعت کی تین بنیادیں ہیں اول ربانی الہام دوم نبوی بصیرت سوم احوالی اجتہاد۔ اکثر و بیشتر اصول ربانی الہام میں وضع ہیں، ان کی ضروری وضاحت اور شیرازہ بندی نبوی بصیرت میں ہوئی ہے اور قیامت تک آنے والے مختلف حال احوال میں درپیش اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے نت نئے مسائل اور چیلنجز کو ایڈریس کرنے کے لیے اجتہاد کا وسیلہ چھوڑا گیا ہے۔

فقہ کی کتابوں میں یہ اصول بکثرت مذکور ہیں کہ مقاصد شریعہ پانچ ہیں "اول جان کی حفاظت، دوم مال و اسباب کی حفاظت، سوم حسب و نسب کی حفاظت، چہارم عزت و عصمت کی حفاظت جبکہ پنجم عقائد اور ایمانیات کی حفاظت”۔ عصر حاضر کے تناظر میں مذکورہ اصول کی روح سے جان کی حفاظت کے ساتھ اظہار رائے و انتخاب کا حق، مال کی حفاظت کے ساتھ روزگار کا حق، حسب نسب کی حفاظت کے ساتھ سماجی اقدار کی پاسداری کا فرض، عزت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ ایک محفوظ ماحول کی فراہمی اور عقائد و ایمان کی حفاظت کے ساتھ مذہبی آزادی کی ضمانت کا حق بھی شامل ہے اور کوئی بھی معقول فرد اور گروہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ حقوق اور فرائض ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ جڑے ہیں۔ یہ دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں آپ فرض بجا لاتے ہیں تو ساتھ ہی ایک حق بھی ادا ہوتا ہے اور آپ حق ادا کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ایک فرض بھی پورا ہوتا ہے۔

زندگی کے میدان میں انسان کی ایک معاشرت بھی ہے اور معیشت بھی، ایک ثقافت بھی ہے اور قانون بھی، ایک سیاسی ڈھانچہ بھی ہے اور سماجی نقشہ بھی، ایک اخلاقی حس بھی ہے اور ذمہ دارانہ حیثیتیں بھی، ایک ذاتی اور انفرادی زندگی بھی ہے اور اجتماعی دائرہ ہائے کار بھی۔ ان تمام دائروں کے لیے خالق ارض و سماء نے کچھ ضابطے مقرر کیے ہیں، کچھ اصول طے کر رکھے ہیں، کچھ حدود کینچھے ہوئے ہیں، حلال و حرام، جائز و ناجائز، روا و ناروا، مستحسن و غیر مستحسن اور مطلوب و نامطلوب پر مشتمل ایک پورا نظام حیات اس کی جانب سے مشروع ہوگیا ہے۔

آئیے چند اشاروں کی مدد سے شارع کی مجموعی منشاء کو ملاحظہ کرتے ہیں!

01: مثلاً معاشرت میں نکاح ضروری، اختلاط ممنوع، پردہ لازم اور زنا حرام ہے۔ معاشرت کی اکائی خاندان ہے اور خاندان مختلف رشتوں سے مل کر بنتا ہے۔ میاں بیوی، بچے، بہن بھائی اور دادا دادی مل کر ایک خاندان کو وجود دیتا ہے ان کے علاوہ بھی بہت سارے معاشرت میں رشتے اور تعلقات دوسرے بھی پائے جاتے ہیں، ان سب کے حقوق و فرائض مقرر ہیں۔ ان کے لیے حدود و قیود موجود ہیں۔ ان تمام کا لحاظ اور پابندی اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے مطلوب ہے۔

02: معیشت میں سود حرام ہے، جھوٹ اور غلط بیانی منع ہیں، بدکاری اور منشیات ممنوع ہیں، تجارت اور کاروبار حلال ہیں، ملکیت اور ملازمت رائج ہے جبکہ معاوضوں کے لیے ایک منصفانہ نظام تشکیل دینا ضروری ہے۔ معاشی وسائل و ذرائع کی گردش مطلوب اور ارتکاز سخت نامطلوب ہے کیونکہ ایسا کرنا تمام تر ناانصافیوں کی ماں ہے اور یہ اجتماعی طرزِ عمل عمومی خوشحالی اور فلاح و بہبود میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ ہے۔ کچھ لوگوں اور طبقوں کے لیے خصوصی مراعات اور دوسرے کچھ لوگوں اور طبقات پر بے جا پابندیاں روح انصاف کے ٹوٹلی خلاف ہیں۔

03: دنیا میں انسانوں کے گزارے کے لیے جو بنیادی وسائل دستیاب ہیں وہ چار ہیں۔ زمین، سرمایہ، محنت اور مہارت۔ زمین اور سرمایہ ہمیشہ گردش اور استعمال میں ہونے چاہیے جاگیرداری اور سرمایہ داری روح اسلام کے خلاف ہیں اسلام کی نظر میں محرومی اور عیاشی دونوں غلط ہے جبکہ باوقار زندگی گزارنے کے لیے ضروری امکانات تک رسائی ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ محنت اور مہارت پر معقول اور منصفانہ معاوضوں کی ادائیگی فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی میں غفلت بدترین حق تلفی ہے جو دین و دنیا دونوں میں خسارے کا باعث ہے۔ ایک خوشحال، پر امن اور محفوظ دنیا وجود میں لانے کے لیے انصاف، احساس، ادراک اور گردش بے حد ضروری چیزیں ہیں۔ ان کا اہتمام ہونا چاہیے۔

04: نظم اجتماعی ہر حالت میں لازم ہے کیونکہ اس کے بغیر اجتماعی زندگی کی کوئی شکل نہیں بنتی۔ آئین و قانون میں مختلف دائرہ کار متعین ہیں، نظم و ضبط کا ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے ان دائرہ ہائے کار کا لحاظ ضروری ہے۔ مجرموں کے لیے سزائیں مقرر ہیں، باغی اور غدار کے لیے قتل، شریف کے لیے حفاظت، مستحق کے لیے ملازمت، ریاست کے لیے وفاداری جبکہ ریاست کی جانب سے عوام کے مال و جان، عزت و آبرو اور بقاء و سلامتی کے لیے تحفظ مشروط ہے۔ ہر عاقل، بالغ اور صحت مند شہری کے لیے محنت لیکن ساتھ ہی کام کے مواقع اور معذور و بیمار افراد کے لیے گزارہ الاؤنس کی ضمانت ہے۔ احادیث کی کتابوں میں آیا ہے کہ "جس کا کوئی والی وارث نہیں اس کا، والی وارث ریاست ہے”۔

05: سماج میں صفائی لازم، گندگی پھیلانا اور شر و فساد کرانا ممنوع، بزرگوں کا احترام، خواتین کے لیے تحفظ اور رعایت، بچوں کے لیے شفقت اور تربیت، نوجوانوں پر اعتماد اور ان کے لیے روزگار کے مواقع جبکہ کمزوروں کی خدمت بنیادی فرائض میں شامل ہیں۔ ان تمام تر معاملات میں کوتاہی قابل گرفت اور صحت مند و موثر طرز عمل قابل تحسین و آفرین ہے۔

06: اجتماعی زندگی اور باہمی تعلقات کے لیے یہ بات بطورِ اصل متعین ہے کہ کٹ کر نہیں بلکہ جڑ کر رہنا ہے۔ تعلقات میں خلوص اور خیر خواہی مطلوب ہیں، خیانت اور جھوٹ ممنوع ہیں، معروف میں تعاون اور اشتراک ضروری ہے جبکہ منکرات میں نصیحت اور ممانعت لازم ہے اور ہاں مجموعی اہداف کے خاطر اتحاد، تعاون اور یکجہتی بہتر اور مفید ہیں۔

07: ثقافتی دائرے میں نظم و ضبط اہم، فضول اور بے مقصد چیزیں اور کام ممنوع، اختلاط منع، حیاء ضروری اور احترام باہم ایک بنیادی فریضہ ہے۔ شریعت میں وسائل کی حفاظت ایک بہت بڑی اچھائی اور ان کا ضیاع بہت بری خرابی تصور ہوتی ہے جبکہ دینی امور کا عمومی زندگی میں چلن اسلامی معاشرے کا امتیازی وصف قرار پاتا ہے۔ خوشی میں شمولیت، غم کے لمحات میں شرکت، ضرورت میں تعاون اور مایوسی میں حوصلہ افزائی انسان سے سماج کے بنیادی توقعات ہیں جن کا پورا کرنا تمام باشعور لوگوں کا خاصہ ہے۔

08: نظم اجتماعی کے لیے مشاورت اور شراکت بطورِ اصول رائج ہیں جبکہ ذمہ داریوں اور اختیارات کا تعین بھی ضروری ہے۔ نظم اجتماعی میں خلل ڈالنا ممنوع اور ہموار انداز میں اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانا، بطورِ فرد اور ادارہ ضروری ہے۔ یہ اصول بطور بنیاد رائج ہے کہ مداخلت بے جا ہر سطح پہ ناقابلِ قبول جبکہ موقع و محل کے تقاضے پر معاملات کو سدھرنے کے واسطے جائز اور قانونی شمولیت ایک اہم فریضہ ٹھہرا ہے۔

09: انتخابی نظام کے کے شفافیت لازم، انتخابی عمل کے لیے غیر جانبداری ضروری، انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک آزاد اور خودمختار کمیشن کا قیام اہم، جمہوری نظام کے استحکام کے لیے متناسب نمائندگی کا طریقہ اولی، جمہوری تسلسل کے لیے وقت کی مدت اور قوائد و ضوابط کی پاسداری یقینی ہونا جبکہ آمرانہ اقدامات اور نامناسب عزائم کو روکنے کے لیے احتساب کا مضبوط نظام لاگو کرنا بنیادی تقاضے ہیں۔

10: سیاست میں میرٹ لازم، کارکردگی فرض اور نا اہلی ایک ناقابل قبول عیب ہے۔ علم، دولت، مواقع اور اختیار سب گردش میں رکھنا ضروری ہیں۔ ان چیزوں کا ارتکاز (یعنی مخصوص طبقوں میں وسائل، مواقع، دولت اور اختیار کا جمع ہونا) ناروا اور ایسا نظام لاگو کرنا جو کہ ان وسائل کو مرتکز کریں خدا کی نزدیک سخت نامطلوب اور ناپسندیدہ ہیں۔ ایسے عیب رکھنے والے معاشرے اللہ تعالیٰ دنیا میں زوال اور آخرت میں عذاب سے دوچار کرے گا۔

11: تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "مومن کسی بھی عیب یا خرابی کا شکار تو ہو سکتا ہے لیکن دو خرابیاں ایسی ہیں جن میں کوئی بھی مومن مبتلا نہیں ہو سکتا ان میں سے ایک جھوٹ ہے اور دوم خیانت” مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ ناممکن ہے کہ ایک فرد یا معاشرہ ایمان دار بھی ہو اور ساتھ ہی ساتھ جھوٹا اور خائن بھی۔ اللہ اور اس کے رسول تمام مومنوں اور ان کے معاشرے کو یکسر جن دو خرابیوں سے پاک و شفاف دیکھنا چاہتے ہیں وہ جھوٹ اور خیانت ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سنجیدگی سے سوچیں کہ جھوٹ، خیانت اور طرح طرح کی کرپشن جیسی خرابیاں کس طرح ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں سرایت کر گئی ہیں اور جو روز اپنے منحوس نتائج دکھا رہی ہیں کیا یہ مظاہر ایمان کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ ایمان کے جوہر سے جھوٹ اور خیانت کی آمیزش غیر متوقع ہے تو پھر اس کا ارتکاب ہر سطح پر کیوں؟ ہمیں روز اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا بھی کہ کیا کوئی خلاف ایمان رویہ ہمارے عمل سے صادر تو نہیں ہو رہا؟ دیکھنے اور پرکھنے کا یہ اہتمام روز کرنا چاہیے اور اس میں کوئی وقفہ یا غفلت نہیں لانا چاہیے۔ جس ایمان اور اس کے تقاضوں پر دین و دنیا کے فلاح و بہبود کا انحصار ہے وہ ہماری توجہ اور سنجیدگی کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔

11: انسانی احوال ایک جیسے نہیں رہتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں بعض تبدیلیاں قابلِ قبول اور بعض قابلِ اصلاح ہوتی ہیں اس عمل کو جانچنے کے لیے شریعت نے، شریعت کی روح سے ہم آہنگ ہو کر چلنے کے لیے جو ذریعہ انسان کے ہاتھ میں دیا ہے وہ اجتہاد ہے۔ اجتہاد پہلے سے موجود علمی ذخیرے کی روشنی سے، عقل کی قوت ملا کر پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنے والی کوششوں کو کہا جاتا ہے۔ اجتہاد ہر دور کی اہم ترین ضرورت ہے اجتہاد کا دروازہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کھلا چھوڑ دیا ہے لہذا کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ دروازہ بند کرنے پر اصرار کریں۔ "اجتہاد ختم تو جمود شروع” یہ لازمی نتیجہ ہے اجتہاد غیر ضروری سمجھنے کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے