اردو ادب میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو صرف قلم کے نہیں، دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ان کی تحریریں صرف کاغذ پر نہیں، قاری کے جذبات پر لکھی جاتی ہیں۔ ایسے ہی ایک منفرد اور مقبول ادیب تھے اے حمید ، جنہوں نے اردو افسانے اور ناول کو رومان، جمالیات، اور لاہور کی تہذیب سے آراستہ کیا۔
زندگی کا پس منظر
اے حمید 25 اگست 1928ء کو امرتسر (برطانوی ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان ہجرت کر کے لاہور میں آباد ہو گئے۔ یہی شہر بعد ازاں ان کی کہانیوں، خوابوں اور یادوں کا محور بن گیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے زندگی کا بیشتر وقت ریڈیو پاکستان، اخبارات، ادبی رسائل اور کتب نویسی کے لیے وقف کیا۔
ادبی سفر کا آغاز
ادب سے ان کا رشتہ جوانی میں ہی استوار ہو گیا۔ انہوں نے 1948ء میں پہلا افسانہ لکھا جو فوراً ہی قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ ان کے افسانوں میں سادگی، رومانویت، فطرت سے محبت، اور گہری مشاہداتی طاقت پائی جاتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں؛
اردو، پنجابی و فارسی کا سفیرِ ادب؛ ڈاکٹر محمد باقر
ان کا اندازِ تحریر نہایت دلکش، شاعرانہ، نرم اور قاری کو خوابوں کی سرزمین میں لے جانے والا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں نہ صرف جذباتی دنیا کو مجسم کیا بلکہ لاہور کی پرانی گلیوں، شاموں، بارشوں اور کھڑکیوں میں بیٹھی لڑکیوں کے حسن کو بھی لازوال بنا دیا۔
افسانے: دل کی دھڑکنوں کا عکس
اے حمید کے افسانے کسی رومانی نظم کی طرح دھیرے دھیرے دل میں اترتے ہیں۔ ان کے کئی افسانے اردو ادب کے کلاسک میں شمار ہوتے ہیں:
مشہور افسانے:
چاندنی رات کی بانہیں، زرد پتوں کا بن، وہ لمحے،دھند،جلتا ہوا شہر،خاموش لمحوں کی صدا،تمنا کا سفر
یہ افسانے صرف کہانیاں نہیں، جذبات کا ترجمان، وقت کا آئینہ، اور ایک حسین خواب کی مانند ہیں جو پڑھنے والے کو دیر تک اپنے سحر میں رکھتا ہے۔
ناول: رومانویت اور جذبات کا امتزاج
اے حمید نے اردو ناول کو بھی نیا رنگ دیا۔ ان کے ناولوں میں محبت ایک مقدس احساس کے طور پر پیش کی گئی ہے، جس میں انتظار، جدائی، وصل، اور خوابوں کی خوشبو ہوتی ہے۔
معروف ناول:
نرگس،خوابوں کا سفر ، دل کی آواز ،سنہری دوپہر ، ایک تھی مونا لیزا ، منزلیں روشنی کی ، محبت کا شہر ، دیوارِ شب ، نیلے پتھر کا شہر ، چاند کا رخ
ان ناولوں کا کینوس اگرچہ محدود ہوتا، مگر اس میں جذبات کی گہرائی اور کرداروں کی زندگی کی مکمل جھلک ملتی ہے۔
کالم نگاری: لاہور کی باتیں
اے حمید کی کالم نگاری نے بھی بہت شہرت حاصل کی، خصوصاً ان کا سلسلہ "لاہور کی باتیں” جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوتا تھا، وہ پڑھنے والوں کو پرانی لاہور کی گلیوں، باغوں، فواروں اور گزرے وقت کی مہک میں لے جاتا۔ وہ نہ صرف ایک کہانی سناتے بلکہ ایک مکمل منظر بناتے جس میں قاری خود کو محسوس کرتا۔
بچوں کا ادب اور ریڈیو ڈرامے
اے حمید نے بچوں کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی مشہور سیریز "عمرو عیار” نے بچوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ وہ ریڈیو پاکستان کے لیے بھی طویل عرصے تک ڈرامے اور فیچر پروگرامز لکھتے رہے۔
ان کے تخلیق کردہ ریڈیو پروگرام:
عجائب گھر
بچوں کی دنیا
ادبی محفلیں
ادبی خدمات اور اعزازات
اے حمید کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں "صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی” سمیت متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کا شمار اردو ادب کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے خالص اردو افسانہ اور ناول کو عوامی سطح پر مقبول بنایا۔
وفات: روشنی کا چراغ بجھ گیا
29 اپریل 2011ء کو یہ خواب بُننے والا مسافر ہم سے رخصت ہو گیا، مگر ان کے خواب، لفظ، منظر، اور جذبے آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے قاری آج بھی ان کی تحریروں سے وہی تازگی محسوس کرتے ہیں جیسے پہلی بار پڑھا ہو۔
ایک روشن یاد
اے حمید صرف ایک افسانہ نگار نہیں، ایک عہد کا نام ہیں۔ ان کی تخلیقات میں رومان، تہذیب، ادب، اور احساس کی وہ روشنی ہے جو نسلوں تک چراغاں کرتی رہے گی۔
29 اپریل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اے حمید جیسے ادیب صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں . ان کا قلم جب بھی چلا، ایک نیا خواب تخلیق ہوا۔