دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور بدلتے ہوئے عالمی حالات، موسمیاتی تغیرات، بڑھتی آبادی، اور زرعی وسائل پر دباؤ نے خوراک کی سلامتی (Food Security) کو ہر ملک کے لیے ایک اہم مسئلہ بنا دیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جو صحرائی خطوں میں واقع ہیں اور قدرتی طور پر زرعی لحاظ سے کمزور سمجھے جاتے تھے، آج زراعت میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان، جو زرعی ملک کہلاتا ہے، بدقسمتی سے تنزلی کا شکار ہے۔
اس مضمون میں ہم جائزہ لیں گے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے فوڈ سکیورٹی اور زرعی ترقی کے لیے کیا پالیسیاں اپنائیں، پاکستانی زراعت کن وجوہات کی بنیاد پر پیچھے جا رہی ہے، اور مستقبل میں پاکستان کو کن خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات: ریگستان میں ہریالی کا خواب
متحدہ عرب امارات کی حکومت نے فوڈ سکیورٹی کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کئی سال قبل جامع حکمت عملی اپنائی۔ 2018 میں یو اے ای حکومت نے "National Food Security Strategy 2051” متعارف کرائی، جس کے تحت درج ذیل اقدامات کیے گئے:
ٹیکنالوجی کا استعمال: عمودی زراعت (Vertical Farming)، ہائیڈروپونک اور ایروپونک تکنیک کے ذریعے محدود زمین اور پانی میں زیادہ پیداوار حاصل کی جا رہی ہے۔
زرعی انکیوبیٹرز: نئی کمپنیوں اور سٹارٹ اپس کو سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ، اور تکنیکی مدد فراہم کی جا رہی ہے تاکہ زراعت کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔
زرعی سرمایہ کاری: یو اے ای نے کئی افریقی اور ایشیائی ممالک میں زرعی زمین خریدی ہے تاکہ خوراک کی مسلسل فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
ری سائیکل واٹر کا استعمال: پانی کی شدید قلت کے باوجود، یو اے ای نے ری سائیکل شدہ پانی کو زراعت میں استعمال کرنے کے لیے جدید پلانٹس لگائے ہیں۔
سعودی عرب: خود کفالت کی راہ پر گامزن
سعودی عرب نے بھی "Saudi Vision 2030” کے تحت زرعی ترقی کو اہم ترجیح دی ہے۔ ماضی میں گندم کی پیداوار پر زور دے کر خود کفالت حاصل کی گئی تھی، مگر آبی ذخائر کے تحفظ کے لیے اس پالیسی میں تبدیلی لائی گئی۔ اب فوکس مندرجہ ذیل پہلوؤں پر ہے:
گرین ہاؤس فارمنگ: کنٹرولڈ انوائرمنٹ میں سبزیاں، پھل، اور جڑی بوٹیاں اگائی جا رہی ہیں تاکہ کم پانی میں زیادہ پیداوار حاصل ہو۔
غذائی تنوع: مقامی سطح پر مچھلی، انڈے، مرغی، شہد اور کھجور جیسی مصنوعات پر فوکس کیا گیا ہے۔
ڈیجیٹل زراعت: ڈرون، سینسرز، اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے فصلوں کی صحت، پیداوار اور منڈی تک رسائی بہتر بنائی گئی ہے۔
بین الاقوامی سرمایہ کاری: سعودی حکومت نے سوڈان، پاکستان، اور دیگر ممالک میں زرعی سرمایہ کاری شروع کی ہے تاکہ خوراک کی سپلائی محفوظ بنائی جا سکے۔
پاکستان: زرخیز زمین، مگر زراعت زوال پذیر کیوں؟
پاکستان زرعی ملک ہے، جہاں دریائے سندھ کا زرخیز نظام، چار موسم، اور وسیع زرعی زمینیں موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود زراعت مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
پانی کی قلت: نہری نظام پر انحصار کے باوجود پانی کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔
پرانے طریقہ کار: جدید مشینری، تحقیق، اور ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ بیشتر کسان آج بھی روایتی طریقوں سے کام کر رہے ہیں۔
زرعی تحقیقی اداروں کی زبوں حالی: کسانوں کو بہتر بیج، کھاد اور مشورے فراہم کرنے والے ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں۔
مارکیٹ تک رسائی: کسانوں کو منڈیوں تک مناسب رسائی نہیں، جس کے باعث وہ کم قیمت پر فصل بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
زرعی قرضوں کا بوجھ: سودی قرضے اور مہنگی کھادیں کسان کو معاشی طور پر تباہ کر رہی ہیں۔
حکومتی عدم توجہی: زراعت کو کبھی بھی مستقل اور واضح حکمت عملی کے تحت ترجیح نہیں دی گئی۔
مستقبل میں پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے؟
اگر موجودہ حالات برقرار رہے، تو پاکستان کو خوراک کے حوالے سے سنگین مسائل درپیش ہو سکتے ہیں:
خوراک کی قلت: گندم، چاول، دالیں، تیل، اور سبزیوں کی درآمد پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ یہ رجحان قومی خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
قیمتوں میں اضافہ: درآمدی اشیاء پر انحصار مہنگائی کو مزید بڑھا دے گا، جس کا اثر براہ راست غریب طبقے پر پڑے گا۔
زیر زمین پانی کا خاتمہ: بے تحاشہ ٹیوب ویلوں کے استعمال سے پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔
زرعی زمینوں کا خاتمہ: شہروں کے پھیلاؤ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں، اور صنعتی زونز نے زرخیز زمینوں کو نگل لیا ہے۔
خوراک میں خود انحصاری کا خاتمہ: اگر یہی حالات رہے تو پاکستان دیگر ممالک پر خوراک کے لیے انحصار کرتا جائے گا، جس سے قومی سلامتی متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے ممکنہ حل
اگر پاکستان کو زرعی تنزلی سے نکالنا ہے تو درج ذیل اقدامات فوری اٹھانا ہوں گے:
زرعی اصلاحات: کسانوں کو جدید مشینری، تحقیق، اور تربیت فراہم کی جائے۔
پانی کی بچت کی تکنیکیں: ڈرپ ایریگیشن، لائن سورنگ، اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے جیسے اقدامات کیے جائیں۔
مارکیٹ تک رسائی: کسانوں کو براہ راست منڈی تک رسائی دے کر مڈل مین کا کردار ختم کیا جائے۔
زرعی اداروں کی بحالی: ایوب زرعی ریسرچ انسٹیٹیوٹ جیسے اداروں کو فعال بنایا جائے۔
زرعی تعلیم کو فروغ: نوجوانوں کو زرعی ٹیکنالوجی اور بزنس ماڈلز کی تعلیم دی جائے۔
زرعی شعبے کو بجٹ میں ترجیح: قومی بجٹ میں زراعت کا حصہ بڑھایا جائے اور سبسڈی کو شفاف بنایا جائے۔
جہاں دنیا کے صحرا زدہ ممالک زرعی خود کفالت کی منزلیں طے کر رہے ہیں، وہاں پاکستان جیسے زرخیز ملک کا زراعت میں پیچھے رہ جانا لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے وقت پر درست فیصلے نہ کیے تو نہ صرف غذائی قلت کا سامنا ہو گا بلکہ قومی معیشت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم زراعت کو اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تسلیم کریں، اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔