سندھ طاس معاہدے پر ایک طائرانہ نظر

سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ اور اس کے دوسرے معاون دریاؤں کے پانیوں کے تنازعے کے حل کے لیے طے پایا گیا تھا۔ یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی ثالثی میں منعقد ہوا تھا اور یہ دو بڑے پڑوسی ممالک کے درمیان بین الاقوامی سطح پر ایک کامیاب اور پائیدار معاہدہ تصور کیا جاتا رہا لیکن بدقسمتی سے بھارت نے ہر دور میں اس معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رکھی یہاں تک کہ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے ایک سیاحتی علاقے پہلگام میں دہشت گردی کے ایک واقعے، جس میں ستائیس افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، کا آنکھیں بند کر کے پاکستان پر الزام لگا دیا اور یک طرفہ طور پر اس اہم معاہدے کو ہی ختم کر دیا۔

بھارت کا یہ اقدام حد درجہ افسوس ناک ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی ضابطوں کی شدید خلاف ورزی ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی روح سے بھی متصادم طرزِ عمل ہے۔ بھارت آٹھ عشروں سے مقبوضہ کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں کا ارتکاب خود جبکہ الزام پاکستان پر لگاتا چلا آرہا ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے حالیہ دہشت گردی کے واقعے میں بھی خود بھارت ملوث ہے تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔ اے کاش بھارت کا ظرف اس کے حجم جیسا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا اور اڑوس پڑوس کے لیے نیک شگون بھی۔ آئیے ذرا سندھ طاس معاہدے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ عالمی بنک کے زیر سایہ دو پڑوسی ممالک کے درمیان کیا طے ہوا تھا ؟

سندھ طاس معاہدے میں مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا تھا جبکہ مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق مان لیا تھا، لیکن اس معاہدے کے تحت بھارت کو محدود مقدار میں بجلی پیدا کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی لیکن بھارت ہمیشہ محدود اجازت کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھاتا رہا ہے کہ جو پاکستان کے لیے زراعت اور تحفظ کے تناظر میں سخت نقصان کا باعث رہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان طے ہوا تھا کہ کسی بھی تنازعے کو پہلے سندھ طاس کمشنرز (پاکستان اور بھارت کے نمائندوں پر مشتمل) کے ذریعے حل کیا جائے گا اگر کسی معاملے میں کمشنرز متفق نہ ہوں تو پھر وہ غیر جانبدار ماہر (Neutral Expert) یا بین الاقوامی عدالت انصاف (Court of Arbitration) کو بھیجا جائے گا۔

یہ معاہدہ پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے، کیونکہ دریائے سندھ اور اس کی معاون دریاؤں پر ملکی زراعت اور معیشت کا بڑا انحصار ہے۔ سندھ طاس پاکستان اور بھارت کے درمیان واحد ایسا معاہدہ ہے جو کہ 1965ء، 1971ء اور 1999ء کی جنگوں کے باوجود بھی قائم رہا اور یہ گویا عالمی سطح پر بین الاقوامی آبی تنازعات کے حل کی ایک کامیاب مثال سمجھا جاتا تھا۔

بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر جیسا کہ بگلیہار ڈیم، کشن گنگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر پاکستان نے وقت بہ وقت اعتراضات اٹھائے ہیں اور کئی بار بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آیا۔ سندھ طاس معاہدہ اگر چہ ایک تاریخی اور قانونی طور پر مضبوط معاہدہ ہے، لیکن بھارت کی جانب سے مسلسل پانی کے بہاؤ میں مداخلت اور بین الاقوامی ثالثی پر عدم تعاون کے باعث اس کی افادیت خطرے میں ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی فورمز پر اس معاہدے کے تحفظ کے لیے موثر سفارتی کوششیں جاری رکھے اور پانی کے متبادل ذرائع پر بھی توجہ دے تاکہ مستقبل میں پانی کے ممکنہ بحران سے بچا جا سکے۔ بھارت کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرا ہے۔

بھارت نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم تعمیر کیا، جو سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز نہیں۔ یہ ڈیم پانی کی مقدار اور بہاؤ دونوں کو متاثر کر رہا ہے، جس سے پاکستان کی زراعت اور آبی ذخائر کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان نے اس پر اعتراضات اٹھائے ہیں، لیکن بھارت نے معاہدے کی دفعات کو ہمیشہ نظرانداز ہی کیا ہے۔ اس طرح بھارت نے دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم تعمیر کیا، جو کہ معاہدے کے تحت پاکستان کے پانی کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس منصوبے سے دریائے جہلم کا بہاؤ کم ہونے کا خطرہ ہے، جو پاکستان کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

بھارت نے دریائے چناب اور دریائے جہلم پر متعدد چھوٹے ڈیمز بنا کر پانی روک لیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو موسم گرما میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل معاہدے کے آرٹیکل IX کے تحت مکمل غیر قانونی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کو کسی بھی نئے ڈیم یا پاور پراجیکٹ کی تفصیلات فراہم کرنے کا پابند ہے، لیکن بھارت نے اکثر و بیشتر یہ معلومات دینے سے یا تو انکار کیا یا پھر غیر مکمل ڈیٹا فراہم کیا گیا، یہ سب غیر شفاف ریاستی رویے ہیں جن کا بھارت تواتر سے مرتکب ہو رہا ہے۔

پاکستان نے بھارت کی خلاف ورزیوں پر عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اعتراضات اٹھائے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ایک فریق معاہدے کا احترام نہیں کر رہا۔ 2016ء میں پاکستان نے بگلیہار ڈیم کے معاملے پر ثالثی کی درخواست کی، لیکن بھارت نے ثالثی کو مسترد کر دیا۔ عالمی برادری کی طرف سے اگر چہ بھارت پر سفارتی دباؤ بڑھایا گیا لیکن بھارت نے اپنے موقف میں کوئی نرمی نہیں دکھائی اور یوں اپنی ہٹ دھرمیاں کرتا رہا یہاں تک کہ 23 اپریل 2025 کو انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو ہی ختم کر دیا۔

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں نہ صرف پاکستان کے آبی وسائل کے لیے شدید خطرہ ہیں، بلکہ یہ خطے میں مجموعی امن و استحکام کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی فورمز پر اس معاملے کو مزید موثر طریقے سے اٹھائے اور بھارت کو معاہدے کی پاسداری پر ہر صورت مجبور کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے